Actions

دعائیہ اختتام

From IQBAL

Revision as of 17:54, 9 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> یاس و بیم کی اس صورت حال کا نتیجہ غیر یقینی ہے۔ مگر اقبال کی خواہش یہ ہے کہ دورِ حاضر کے م...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

یاس و بیم کی اس صورت حال کا نتیجہ غیر یقینی ہے۔ مگر اقبال کی خواہش یہ ہے کہ دورِ حاضر کے مسلمانوں کے دل پھر دینی جوش و جذبے سے لبریز ہو جائیں۔ کوہ ِ طور پر تجلیاتِ الٰہی پھر نازل ہوں کیونکہ طور، نورِ خدا کی آگ میں جلنے کے لیے بے تاب ہے یعنی مسلمان اسلامی شوکت و عروج کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ( طور جزیرہ نماسینا میں واقع ایک سلسلۂ کوہ کی ایک اونچی پہاڑی کا نام ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام، اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتے تھے۔) نظم کے آخری حصے میں شاعر کی یہ آرزو ایک دعا کی شکل میں ڈھل جاتی ہے ۔ دعا کا یہ سلسلۂ خیال ۲۷ ویں شعر سے شروع ہو کر نظم کے آخری شعر تک چلتا ہے۔ امت ِ مسلمہ کو جن مسائل و مشکلات کا سامنا ہے ، اقبال ان کے حل کے لیے دعا گو ہیں۔ ’’ امت ِ مرحوم‘‘ کی ترکیب بہت معنی خیز ہے۔ مراد یہ ہے کہ مسلمان بحیثیت ایک قوم کے مردہ ہو چکے ہیں ۔ ان کی حیثیت سلیمان علیہ السلام کے مقابلے میں ’’ مورِ بے مایہ ‘‘ کی سی ہے۔ شاعر کی آرزو ہے کہ یہ کم حیثیت اور فرومایہ قوم انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہو اور کارگہِ دنیا میں ترقی یافتہ اقوام جیسا بلند مقام حاصل کر لے۔ ( قرآن پاک کی سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور چیونٹی کا قصہ مذکور ہے۔ ) ہند کے ’’ دیر نشینوں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ہندی مسلمانوں نے اپنے بہت سے معاملات و معمولات اور ثقافت و تمدن میں ہندوؤں کے طور طریقوں اور رسوم و رواج کو اپنا لیا ہے۔ اقبال نے نظم کے اس آخری حصے میں یہ دعا ضرور کی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل روشن اور خوش آیند ہو اور ہونا چاہیے مگر یہ نہیں کہا کہ ’’ ہوگا‘‘۔ یعنی تیقن کے ساتھ امید نہیں دلائی کہ فی الواقع سنہرا مستقبل ان کا منتظر ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ’’ شکوہ‘‘ کا دور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے انتہائی پُر آشوب زمانہ تھا اور مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی حتمی پیش گوئی مشکل تھی۔ مجموعی طور پر حالات مایوس کن تھے ۔ چند ماہ بعد ہی ستمبر ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کرکے مسلمانوں کو ایک اور چرکا لگایا۔ اسی مایوسی کے پیش نظر اقبال کو خدا سے’’ شکوہ‘‘ کرنا پڑا ۔ مایوسی کا ایک انداز یہ ہے کہ : اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں داغ جو سینے میں رکھتے ہوں وہ لالے ہی نہیں یعنی مسلمانوں میں درد مند اہل دل شا ذ ہیں اور احیاے اسلام کی پکار پر کوئی توجّہ ہی نہیں دیتا۔ اس حصے میں اقبال نے ’’ بلبلِ تنہا‘‘ کا تذکرہ بھی کیا ہے جو اب تک محوِ ترنم ہے ، وہ اپنی ’’ بانگِ درا‘‘ سے اہل چمن کے دلوں کو چاک کر دینا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بلبل سے مراد اقبال کی اپنی ذات ہے ۔ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اس عالم یاس میں بھی ، مسلم نشأتِ ثانیہ اور احیاے دین کے لیے مجھ سے جو خدمت ہو سکتی ہے، اسے بجالا نے کے لیے کوشاں ہوں۔ اگرچہ میں تنہا ہوں اور کوئی شخص میری آوازپر کان نہیں دھرتا : کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی