Actions

انداز اور لہجہ

From IQBAL

Revision as of 18:33, 9 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> نظم کا انداز دوسر ی طویل نظموں کے برعکس براہِ راست خطاب کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسل...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

نظم کا انداز دوسر ی طویل نظموں کے برعکس براہِ راست خطاب کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمان امت یا بحیثیت مجموعی امتِ مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے ’’ شکوہ ‘‘ کا جواب دیا گیا ہے۔ براہِ راست انداز تخاطب کی وجہ سے نظم میں علامتی اور ایمائی رنگ بہت ہی معمولی ہے اور اسی لیے’’ شمع اور شاعر‘‘ جیسی نظم کے برعکس ’’ جوابِ شکوہ‘‘ میں تغزل کا پہلو تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ۳۶بندوں کی طویل نظم میں صرف ۲،۳ بند ایسے ہیں جن میں تغزل کی جھلک ملتی ہے۔ نظم کا لہجہ اول تا آخر یکساں نہیں ہے۔ بعض حصوں میں لہجہ دھیما اور فہمایش کا ہے۔ جہاں مسلمانوں کی فکری اور عملی گمراہیوں کی نشان دہی کی گئی ہے ، وہاں تنقیدی لہجہ ہے۔ کہیں اس تنقیدی لہجے میںطنزیہ رنگ بھی جھلکتا ہے ۔ خصوصاً بند ۱۱ اور ۱۴ میں، جہاں استفہامیہ انداز میں ان خوبیوں کو، جنھیں ’’ شکوہ‘‘ میں مسلمان نے اپنے کارناموں (credit)کے طور پر پیش کیا تھا ، شاعر مسلمان کی خامیاں(dis-credits)بنا کر پیش کرتا ہے۔ بعض حصوں ( بند ۱۳،۱۵،۱۶،۲۰)میں تاسف کا لہجہ پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح جہاں اللہ تعالیٰ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا آغاز کرتے ہیں تو اس سے ایک شان جلالی ٹپکتی ہے۔ ۲۶ویں بند سے شروع ہونے والے حصے میں مایوس اور غم زدہ مسلمانوں کو تسلی و اطمینان دلانے اور پریشان کن حالات میں ان کی ڈھارس بندھانے والا لہجہ ملتا ہے۔ ۳۲ ویں بند سے آخر تک جہاں اقبالؔ مسلمانوں کو دعوتِ عمل دیتے ہیں ، نظم کا لہجہ قدرے پرجوش ہے ۔ مگر یہاں جوش و خروش کی وہ کیفیت نہیں جو مثلاً’’ طلوعِ اسلام‘‘ کے آخری حصے میں پائی جاتی ہے، اسے دھیمے جو ش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔