Ek Nojawan ke Naam
From IQBAL
Revision as of 03:21, 4 June 2018 by Armisha Shahid (talk | contribs) (Created page with "<center> '''ایک نوجوان کے نام''' ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں...")
ایک نوجوان کے نام
ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
امارت کیا، شکوہ خسروی بھی ہو تو کیا حاصل
نہ زور حیدری تجھ میں، نہ استغنائے سلمانی
نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں
کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید، نومیدی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے خدا کے راز دانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں