شعاع آفتاب
From IQBAL
شعاع آفتاب
صبح جب میری نگہ سودائی نظارہ تھی
آسماں پر اک شعاع آفتاب آوارہ تھی
میں نے پوچھا اس کرن سے اے سراپا اضطراب!
تیری جان ناشکیبا میں ہے کیسا اضطراب
تو کوئی چھوٹی سی بجلی ہے کہ جس کو آسماں
کر رہا ہے خرمن اقوام کی خاطر جواں
یہ تڑپ ہے یا ازل سے تیری خو ہے، کیا ہے یہ
رقص ہے، آوارگی ہے، جستجو ہے، کیا ہے یہ؟
خفتہ ہنگامے ہیں میری ہستی خاموش میں
پرورش پائی ہے میں نے صبح کی آغوش میں
مضطرب ہر دم مری تقدیر رکھتی ہے مجھے
جستجو میں لذت تنویر رکھتی ہے مجھے
برق آتش خو نہیں، فطرت میں گو ناری ہوں میں
مہر عالم تاب کا پیغام بیداری ہوں میں
سرمہ بن کر چشم انساں میں سما جائوں گی میں
رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا، دکھلائوں گی میں
تیرے مستوں میں کوئی جویائے ہشیاری بھی ہے
سونے والوں میں کسی کو ذوق بیداری بھی ہے؟