Actions

کتاب کا انتساب از علامہ اقبالؒ

From IQBAL

کتاب کا انتساب (از علامہ اقبال)

علامہ اقبال کی مقبولیت، عظمت اور شہرتِ عام کی ایک وجہ ان کی علمی وسعت اور مشرق و مغرب کے علوم کی آگہی بھی ہے۔ وہ اپنی مادری زبان پنجابی، کے علاوہ اردو، فارسی، عربی، انگریزی کے ماہر اور کسی قدر جرمن زبان سے بھی آگاہ تھے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جس قدر انھیں اردو، انگریزی، فارسی اور عربی میں مہارت حاصل تھی اس قدر وہ جرمن زبان کے ماہر نہیں تھے۔ مغربی فلسفہ کی تعلیم انھوں نے اپنے شہرۂ آفاق اور وسیع النظر استاد، پروفیسر ٹی-ڈبلیو-آرنلڈ سے پہلے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں اور بعدازاں کیمبرج میں حاصل کی تھی۔ پروفیسر آرنلڈ نے ان کے اندر مزید تعلیم کا اس قدر شوق پیدا کردیا تھا کہ علامہ اقبال ایم۔اے کا امتحان پاس کرچکنے کے بعداعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے یورپ چلے آئے تھے۔ جب پروفیسر آرنلڈ ہندوستان کوچھوڑ کر اپنے وطن یعنی انگلستان واپس آگئے تو مشرق کے اس نامور اور ادب شناس شاگرد نے ان کی جدائی میں ایک نظم لکھی جس کے چند اشعار ہدیہ قارئین کیے جاتے ہیں۔ مشرق کا یہ عظم المرتبت شاعر اپنے محترم، شفیق اور درویش صفت انگریز استاد کی شان بیان کرتے ہوئے یہ کہتا ہے:
جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں! 

آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرزمیں

تو کہاں ہے اے کلیمِ ذروۂ سینائے علم 

تھی تری موج نفس بادِ نشاط افزائے علم

اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائی صحرائے علم
تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم
کھول دے گا دست و حشت عقدۂ تقدیر کو 

توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو

دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو

کیا تسلی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو؟ 

نالہ فراق (آرنلڈ کی یاد میں) [کلیات اقبال، ص ۷۸-۷۷] پروفیسر آرنلڈ نے اسلامی تعلیمات کے مختلف اہم گوشوں کے بارے میں ایک بے حد مفید اور تحقیقی کتاب (The Preaching of Islam) لکھی تھی۔ علامہ اقبال نے یورپ میں اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران میں اپنی اس اولین فلسفیانہ کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا (The Development of Metaphysics in Persia) کو اپنے اس جلیل القدر استاد کے نام سے معنون کیا ہے۔ جس طرح پروفیسر ٹی۔ڈبلیو۔ آرنلڈ نے اسلام کے ساتھ اپنی رواداری اور عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا اسی طرح اسلام کے اس مایہ ناز مفکر اور مشرق کے عظیم شاعر نے بھی بے مثال رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس غیر مسلم استاد کی نذر یہ کتاب کی ہے۔ بہرحال اس کتاب کا انتساب انسانی محبت، احترام آدمیت اور استاد و شاگرد کے مقدس رشتے کا زندہ ثبوت ہے۔ علامہ اقبال اپنے استاد پروفیسر آرنلڈ کے نام یہ کتاب معنون کرتے ہوئے بڑے اختصار سے لکھتے ہیں: یہ چھوٹی سی کتاب اس ادبی اور فلسفیانہ تربیت کا اولین ثمر ہے جو میں گزشتہ دس سالوں سے آپ سے حاصل کرتا رہا ہوں۔ اظہار تشکر کے طور پر میں اسے ادب کے ساتھ آپ کے نام نامی اوراسم گرامی سے معنون کرتا ہوں۔ آپ نے ہمیشہ مجھے کشادہ نظری کے ساتھ پرکھا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان صفحات کو بھی اسی فراخ دلی کے ساتھ جانچیں گے۔ آپ کا شاگرد عزیز محمد اقبال مذکورہ بالا مختصر مگر جامع انتساب سے یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ علامہ اقبال کئی سالوں تک اپنے اس جید اور فراخ دل استاد سے ادبی اور فلسفیانہ تربیت حاصل کرتے رہے۔ کسی کے احسان کو فراموش کرنا انسانیت کی توہین ہے۔ رسول کریمؐ کا ارشاد ہے: من لم یشکر الناس لم یشکر اللّہ ’’جو انسانوں کاشکر گزار نہیں وہ خدا کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔‘‘ اسی طرح اسلام کے خلیفہ چہارم حضرت علیؓ کا قول ہے: ’’من تعلم حرفہ فہو مولا‘‘ ’’جس نے کسی کوکوئی حرف سکھایا پس وہ اس کا مولاہے۔‘‘ اگر محسن غیر مسلم بھی ہو تب بھی اس کا شکریہ ادا کرنا نہ صرف اسلامی بلکہ اخلاقی فریضہ بھی ہے۔ علامہ اقبال اسلامی تعلیمات کے اس پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے استاد کاشکریہ ادا کرنا لازمی امر خیال کرتے تھے۔ یہ ایک تاریخی اور مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام کے فروغ میں تلوار سے زیادہ اعلیٰ اخلاق اور انسانی اقدار نے کردار ادا کیا تھا۔ اس انتساب سے پروفیسر آرنلڈ کی کشادہ نظری اور فراخ دلی کا بھی پتا چلتا ہے۔ علامہ اقبال کے کردار کی ایک نمایاں ترین خوبی حق گوئی تھی۔ وہ دوسروں کی مدح و ذم سے بے نیاز ہو کر حق بات کہنے کے عادی تھے جیساکہ وہ خود کہتے ہیں: اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی ناخوش میں زہرہلاہل کو کبھی کَہ نہ سکا قند [کلیات اقبال، ص ۳۱۳] ظاہر ہے انھوں نے اپنے استاد کے کردار کی ایک اعلیٰ صفت یعنی فراخ دلی کو بھی بنظر عمق دیکھا ہوگا۔ وہ خواہ مخواہ کسی کی خوشامد کرنے کے تو عادی نہیں تھے۔ اقبال کوصحیح معنوں میں اقبال مند بنانے میں پروفیسر آرنلڈ کا بھی حصہ ہے۔ اس لحاظ سے ہم بھی ان کے ممنون ہیں۔ پروفیسر آرنلڈ کا ہم پر ایک اور بڑا احسان یہ ہے کہ انھوں نے علامہ اقبال کے قیام یورپ کے دوران انھیں شعر گوئی ترک نہ کرنے کا بلاتعصب مشورہ دیا تھا۔ اس کی تفصیل شیخ عبد القادر مرحوم نے ’’بانگ درا‘‘ کے دیباچہ میں یوں بیان کی ہے: ایک دِن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا ارادہ مصمم ہوگیا ہے کہ وہ شاعری کو ترک کردیں اور قسم کھالیں کہ شعر نہیں کہیں گے… یہ قرار پایا کہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر آخری فیصلہ چھوڑ دیا جائے… میں سمجھتا ہوں کہ علمی دنیا کی خوش قسمتی تھی کہ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لیے شاعری کو چھوڑنا جائز نہیں اور جو وقت وہ اس شغل کی نذر کرتے ہیں وہ ان کے لیے بھی مفید ہے اور ان کے ملک و قوم کے لیے بھی مفید ہے۔ کیا ایسے فراخ دل اورہمدرد انسان استاد کا انتساب لائق تحسین اور قابل فخر نہیں؟ حقیقی باپ تو انسان کی جسمانی تربیت کا سامان بہم پہنچاتا ہے لیکن علمی اور روحانی باپ انسان کی علمی اور اخلاقی تعلیم کا ذمہ دار ہوتا ہے اس لیے اس کا مرتبہ بھی تو عظیم ہونا چاہیے۔