Actions

Taza phir Danish-E-Hazir Ne kiye Sehr-E-Qadim

From IQBAL

Revision as of 08:12, 27 May 2018 by Armisha Shahid (talk | contribs) (Created page with "<center> '''تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم''' تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم گزر اس عہد میں ممک...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم 

گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم

عقل عیار ہے، سو بھیس بنا لیتی ہے 

عشق بے چارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم!

عیش منزل ہے غریبان محبت پہ حرام 

سب مسافر ہیں، بظاہر نظر آتے ہیں مقیم

ہے گراں سیر غم راحلہ و زاد سے تو 

کوہ و دریا سے گزر سکتے ہیں مانند نسیم

مرد درویش کا سرمایہ ہے آزادی و مرگ 

ہے کسی اور کی خاطر یہ نصاب زر و سیم