Actions

Syed ki looh trbut

From IQBAL

سید کی لوح تربت

اے کہ تیرا مرغ جاں تار نفس میں ہے اسیر
اے کہ تیری روح کا طائر قفس میں ہے اسیر

اس چمن کے نغمہ پیرائوں کی آزادی تو دیکھ
شہر جو اجڑا ہوا تھا اس کی آبادی تو دیکھ

فکر رہتی تھی مجھے جس کی وہ محفل ہے یہی
صبر و استقلال کی کھیتی کا حاصل ہے یہی

سنگ تربت ہے مرا گرویدہ تقریر دیکھ
چشم باطن سے ذرا اس لوح کی تحریر دیکھ

مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں

وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں

وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے

محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جو اب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ

تو اگر کوئی مدبر ہے تو سن میری صدا
ہے دلیری دست ارباب سیاست کا عصا

عرض مطلب سے جھجک جانا نہیں زیبا تجھے
نیک ہے نیت اگر تیری تو کیا پروا تجھے

بندہ مومن کا دل بیم و ریا سے پاک ہے
قوت فرماں روا کے سامنے بے باک ہے

ہو اگر ہاتھوں میں تیرے خامہء معجز رقم
شیشہ دل ہو اگر تیرا مثال جام جم

پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذ رحمانی ہے تو
ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو

سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمن باطل جلا دے شعلہ آواز سے