http://iqbal.wiki/index.php?title=Special:NewPages&feed=atom&hideredirs=1&limit=50&offset=&namespace=0&username=&tagfilter=&size-mode=max&size=0IQBAL - New pages [en]2024-03-29T08:30:14ZFrom IQBALMediaWiki 1.31.0-rc.0http://iqbal.wiki/index.php?title=You_Deserve_NothingYou Deserve Nothing2018-07-11T20:41:49Z<p>Armisha Shahid: Created page with "Fraud"</p>
<hr />
<div>Fraud</div>Armisha Shahidhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B1%D8%A8_%DA%A9%DB%92_%D8%AD%D8%B6%D9%88%D8%B1_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84_%D8%AF%D8%B9%D8%A7_%D9%85%D8%A7%D9%86%DA%AF%D8%AA%DB%92_%DB%81%DB%8C%DA%BAرب کے حضور میں اقبال دعا مانگتے ہیں2018-07-11T12:06:11Z<p>Iqbal: </p>
<hr />
<div><center><br />
== رب کے حضور میں اقبال دعا مانگتے ہیں ==<br />
تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر</br><br />
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر</br><br />
جوانوں کو سوز جگر بخش دے</br><br />
مرا شوق میری نظر بخش دے </br><br />
مرے دیدہء ترکی بے خوابیاں</br><br />
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں</br><br />
امنگیں مری، آرزوئیں مری</br><br />
امیدیں مری، جستجوئیں مری</br><br />
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر</br><br />
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر</br><br />
مرے قافلے میں لٹا دے اسے</br><br />
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے</br><br />
ان کی تمنا ہے :</br><br />
جوانو کو مری آہ سحر دے</br><br />
پھر ان شاہین بچوں کو بال وپر دے</br><br />
خدایا آرزو مری یہی ہے</br><br />
مرا نور بصیرت عام کر دے</br><br />
اقبال نوجوانوں کو حکمت کلیمی سے نوازنا چاہتے ہیں۔ جان افروز ،سینہ تاب، نور بصیرت،جو شرط راہ ہے، وہ عطا کرنا چاہتے ہیں۔ تجلی کی فراوانی سے اپنے دامن کی وسعت میں جو کچھ انہوں نے سمیٹ لیا ہے۔ </br><br />
حیات بر نفس یا خودی کے بحر بے رواں میں شعور وآگہی کے جو در آبدار ان کو ملے ہیں۔وہ اپنے قافلے میں لٹانے کے لئے بے چین ہیں۔ </br><br />
وہ نوجوانوں کو وہ عرفان وہدایت بخشنا چاہتے ہیں ،جو یقین محکم اور عمل پیہم کی بنیادیں دے سکے۔وہ دانائے راز اور درویش خدا مست ہیں۔ جن کی ذوق نگاہ نے لا الہ الا ا لا اللہ سے تاب و تب جاودانہ پا کر ان کو شرق وغرب کی قیود سے آزاد کر دیا ہے۔</br><br />
انسانیت جن مصائب سے دوچار ہے۔ اس کا حل مشرق کے پاس ہے نہ مغرب کے، مغرب کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں پریشان حالی کا باعث اس کی بنیادی حکمت سے محرومی ہے۔مشرق کی زبوں حالی کا باعث ترقی پذیر ماحول سے ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ایک جانب تہذیب نو اور عصر حاضر کا طلسم ہوش ربا ہے تو دوسری طرف قدامت، تنگ نظری اور جمود۔یہی دو نسلوں میں تصادم ،کشاکش، اور خلیج کا سبب ہے۔</br><br />
اس انتشار میں مصنوعی شیرازہ بندی کی کوشش کار گر نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں ضرورت ہوتی ہے ۔تدریجی اور اساسی انقلاب کی، جس میں ترقی اور تبدیلی کے ساتھ ازلی اور ابدی حقیقت کار فرما ہے۔</br><br />
ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس کائنات کی پہنائی میں اپنے آپ کو کھو بیٹھے ہیں۔ہم جزئیات جمع کرکے اس میں کل کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں۔جب ناکامی ہوتی ہے ،تو اسی خود ساختہ نگار خانہ میں اپنے مقام کا تعین کرلیتے ہیں۔ جو اس میں اعلیٰ ہونے کے باوجود ادنیٰ رہتا ہے۔ہیگل نے فکر محض کے ذریعہ حل پیش کیا۔مگر اس کا صدف گوہر سے خالی اور تصور سارا کا سارا خالی رہا۔مارکس کا دل مومن اور دماغ کافر ثابت ہوا۔اور عمل کو اخلاق اور وجدان سے ہم آہنگ نہ کر سکا۔ اقبال آفاق میں گم نہیں ،بلکہ آفاقی ان میں گم ہے۔وہ خودی کاترجمان ہو کر جس سر نہاں تک پہنچتے ہیں۔وہ انہیں حقیقت کا راز داں بنا دیتا ہے۔گرمیء گفتار اور شعلہ کردار بہار فطرت ہے۔ مگر بہار فطرت کردگار فطرت سے ہے۔زمانے کے نشیب وفراز ،گردش روز گار، طلسم روز وشب، نغمہ ء حیات کا زیر وبم سب کل یوم ھو فی شان کی تفسیر ہے۔ ترقی وارتقا کے پیچھے کن فیکون کی صدا ہے۔ساری کائنات رزم گاہ شوق وعمل، حدیث ناظرہ ومنظور ہے۔</br><br />
حقیقت روئے خود را پردہ باف است</br><br />
کہ او را لذتے در انکشاف است</br><br />
بخلوت ہم بجلوت نور ذات است</br><br />
میاں انجمن بودن حیات است</br><br />
کثرت میں وحدت کی جلوہ نمائی ،زیست کی گہرائیوں میں نور ازل کی جھلک انسان کو من وتو کے باوجود من وتو سے پاک کر دیتی ہے۔ وہ رنگ ونسل ،قبیلہ،و وطینت سے بلند ہو جاتا ہے۔</br><br />
ہمسایہ جبریل امیں، بندہ خاکی</br><br />
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں</br><br />
در گزر مثل کلیم از رود نیل</br><br />
سوئے آتش گامزن مثل خلیل</br><br />
نغمہ مردے کہ دارد بوئے دوست</br><br />
مفت را می برد در کوئے دوست</br><br />
تخلیق کا عمل ساری کائنات میں جاری وساری ہے۔ ذروں کی خود نمائی، تاروں کی تنک تابی، سبزہ وگل کے جوش نمو سے لے کر ذوق وشوق آرزو تک کہیں قیام وسجود میں ،کہیں رقص بسمل میں،ہر جگہ اس کی کار فرمائی ہے۔لذت انکشاف ہر جگہ ،ہر گام پر ہر سطح پر جاں فزا اور نظر نواز ہے۔ کہیں ٹھہراؤ اور رکاؤ نہیں، ایک ہی جذبہ ہے جو مظاہر فطرت اور کائنات کو قافلہ شوق کا مسافر بنا دیتا ہے۔ یہی جدت وایجاد،ترقی وانقلاب، تشکیل نو اور ارتقاء کی بنیاد ہے۔ اس سے انکار اپنی فطرت سے انکار ہے۔اور قانون الہیٰ سے انحراف ہے۔</br><br />
آئین نو سے ڈرنا،طرز کہن پر اڑنا</br><br />
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں</br><br />
جمود وتنگ نظری،کوتاہ بینی اور بے عملی ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔خواہ،ملا میں، صوفی میں، فلسفی میں،کلیسا میں ہو یا دیر وحرم میں۔</br><br />
سب اپنے بتائے ہوئے زندان میں ہیں اسیر</br><br />
خاور کے ثوابت ہیں کہ افرنگ کے سیار</br><br />
پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں</br><br />
نے جدت گفتار ہے نہ جدت کردار</br><br />
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم وپیچ</br><br />
شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار</br><br />
ان کے یہاں تو:۔</br><br />
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی</br><br />
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے</br><br />
کا معاملہ ہے۔</br><br />
زندگی جز لذت پرواز نیست</br><br />
آشیاں با فطرت اوساز نیست</br><br />
ایشیا اس لیے پس ماندہ رہ گیا کہ اس کا قلب واردات نو بہ نو سے خالی،اور ذوق عمل سے محروم رہ گیا۔ اور اس کے روز گار اس دیرینہ در میں ساکن ویخ بستہ بے ذوق سفر ہو گئے۔ان کو سخت صدمہ ہے کہ مسلمانوں نے اجتہاد کے دروازے بند کرکے فکر وعمل کی راہیں مسدود کر دیں۔فقیہ شہر قارون لغت ہائے حجازی تو بن گئے،مگر وہ حرف لا الہ کو بھول گئے۔ جس سے سر چشمہ ہدایت پھوٹتا،اور ہر لمحہ نئی تازگی عطا کرتا ہے۔ قوم کی زندگی اور تازگی کا دار ومدار دل کی ان گہرائیوں اور دماغ کی جولانیوں پر منحصر ہے۔ جو نئے تصورات سے روشناس کر اکر تمدن کی بدلتی ہوئی ضروریات سے ہم آہنگ کرکے مزید ارتقا کے امکانات پیدا کر سکے۔ اسلام نے مشاہدہ اور تجربے کی دعوت دے کر استقرائی ذہن کا آغاز کیا۔ جو سائنسی طریقہ کار ہے۔</br><br />
فطرت اور تاریخ پر دعوت فکر دے کر ان بنیادوں کی نشان دہی کی،جو قوموں کے عروج وزوال کا باعث ہیں۔</br><br />
عقیدہ تو حید نے دین ولادین کی تقسیم کو ختم کرکے انسانی ارتقا کے لئے کائنات کو جولان گاہ اور حدیث کے مطابق مقدس مسجد بنا دیا تھا۔قرآن کا حیات آفرین پیغام ہر عہد اور عصر کے نئے تقاضوں کے مطابق اس کی ترقی میں حائل ہونے کی بجائے ،اس کو صحیح سمت عطا کرتا ہے۔</br><br />
وہ ہر عہد کو نیا نظام دینے کو تیار ہے۔</br><br />
بشرطیکہ ہم اس کو اپنے دل میں اتار کر دل کی گہرائیوں میں اتار کر اس کی روح کو پہچان لیں۔</br><br />
وہ فرماتے ہیں</br><br />
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است</br><br />
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است</br><br />
چوں بجاں دررفت جان دیگر شود</br><br />
جان چوں دیگر شود جہاں دیگر شود</br><br />
مثل حق پنہاں وہم پیدا است ایں</br><br />
زندہ وپائندہ وگویا است ایں</br><br />
اندر او تقدیر ہائے شرق وغرب</br><br />
سرعت اندیشہ پیدا کن چوں برق</br><br />
چوں مسلمانان اگر داری جگر</br><br />
در ضمیر خویش ودر قرآن نگر</br><br />
صد جہاں تازہ در آیات اوست</br><br />
عصر ہائے پیچیدہ در آنات اوست</br><br />
بندہ مومن زآیات خدا است</br><br />
ہر جہاں اندر برش مثل قبا است</br><br />
چون کہن گردد جہانے دربرش</br><br />
می دید قراں جہانے دیگرش</br><br />
عالمے در سینہ ء ماگم ہنوز</br><br />
عالم در انتظار قم ہنوز</br><br />
اقبال اہل فکر ونظر کے لئے وہ عظیم شاہراہ کھولنا چاہتے تھے،جو ہمیں اس سفر مسلسل پر تیز گام کر دے۔جو تخلیق کا منشاء ہو۔ وہ افراتفری بے راہ روی سے محفوظ رہ کر واردات نو اور لذت پرواز سے آشنا کرنا چاہتے ہیں ،طلسم روزگار کے پیچھے نور کی وہ لہر ہے۔ جو راہوں کو ہموار کرکے سمت کا تعین کرکے منزل کا پتا دیتی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان تقدیر یزداں بن جاتا ہے۔جو جادہ بھی ہے اور رہبر بھی۔</br><br />
وہ لکھتے ہیں دین اسلام ،نفس انسانی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا۔ بلکہ عمل کے لئے حدود معین کرتا ہے۔ ان حدود کے معین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الہیٰ ہے۔شریعت کوقلب کی گہرائیوں سے محسوس کرنے کا نام طریقیت ہے۔’’ یہ ہماری فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو ہنگامہ ء عالم کو رحمت اللعالمین سے ہم کنار کرکے جودت کردار اور جدت افکار کو تب وتاب جاودانہ عطا کرتی ہے۔</br><br />
علامہ اقبال کی مناجات حقیقت میں ان کی آرزوؤں اور تمناؤں کا خلاصہ ہے۔ وہ تمنائیں اور آرزوئیں جن کی انہوں نے اپنی تمام عمر اپنے کلام اور بیان سے متنوع پیرایہ ء بیان اور مختلف اسلوب سے اشاعت کی ہے۔</br><br />
علامہ اقبال نے اس بے پایاں سمندر کو مناجات کے کوزے میں سمو دیا ہے۔ اور قدسی صاحب نے اس کی تفسیر بیان کرکے علامہ کے افکار اور ان کی آرزوؤں سے ایک حد تک نئی نسل کو بہرہ یاب ہونے کا موقع دیا ہے۔</br></div>Javeria Iqbalhttp://iqbal.wiki/index.php?title=Fmaza_Nemul_B%27ad_ya_Aqwam_AlsharqFmaza Nemul B'ad ya Aqwam Alsharq2018-07-11T11:32:04Z<p>Javeria Iqbal: Created blank page</p>
<hr />
<div></div>Javeria Iqbalhttp://iqbal.wiki/index.php?title=Tajdeed-e-Fikriyat-e-IslamTajdeed-e-Fikriyat-e-Islam2018-07-10T18:26:25Z<p>Ayesha Asif: Created page with "'''The Reconstruction of Religious Thought in Islam علامہ محمد اقبالؒ کے (انگریزی خطبات کا اردو ترجمہ) == تجدیدِ فکریات..."</p>
<hr />
<div>'''The Reconstruction of Religious Thought in Islam<br />
<br />
علامہ محمد اقبالؒ<br />
<br />
کے<br />
<br />
(انگریزی خطبات کا اردو ترجمہ)<br />
<br />
== تجدیدِ فکریاتِ اسلام ==<br />
<br />
ترجمہ<br />
<br />
===== ڈاکٹر وحید عشرت =====<br />
<br />
<br />
<br />
اقبال اکادمی پاکستان<br />
'''</div>Ayesha Asifhttp://iqbal.wiki/index.php?title=Poruka_IstokaPoruka Istoka2018-07-10T17:21:13Z<p>Javeria Iqbal: Created blank page</p>
<hr />
<div></div>Javeria Iqbalhttp://iqbal.wiki/index.php?title=Manajat-e-Javid_NamaManajat-e-Javid Nama2018-07-10T17:15:41Z<p>Iqbal: Reverted edits by Jawad Shah (talk) to last revision by Javeria Iqbal</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
تعارف<br />
*[[رب_کے_حضور_میں_اقبال_دعا_مانگتے_ہیں|رب کے حضور میں اقبال دعا مانگتے ہیں]]</div>Javeria Iqbalhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B9%D8%B8%D9%85%D8%AA_%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86عظمت انسان2018-07-10T16:14:04Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> اس کے درمیان ( نویں بند میں ) اقبال نے نظامِ کائنات میں انسان کے مقام اور اس کی عظمت کے با..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
اس کے درمیان ( نویں بند میں ) اقبال نے نظامِ کائنات میں انسان کے مقام اور اس کی عظمت کے بارے میں اظہارِ خیال کیا ہے۔ آغاز، آسمان میں چمکتے ہوئے ستاروں کے ذکر سے ہوتا ہے۔ اقبال کے خیال میں ستارے اپنی تمام تر آب و تاب، چمک دمک اور طوالت ِ عمر کے باوجود قدرت کے تکوینی نظام کے بے بس کارندے ہیں اور نہ جانے کب سے ایک محدود دائرے کے اندر اپنا مقررہ فرض ادا کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انسان کے مقاصد کہیں زیادہ پاکیزہ تر،اس کی نگاہ کہیں زیادہ دور رس اور وسیع اور اس لامحدود کائنات میں اس کا مرتبہ کہیں زیادہ بلند ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ نظامِ کائنات میں انسان کا مقام ایسا ہی ہے ، جیسے نظامِ شمسی میں سورج کا مرتبہ، اس لیے موت انسان کو فنا نہیں کر سکتی۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%84%DB%81%D8%AC%DB%92_%DA%A9%D8%A7_%D8%AA%D9%86%D9%88%D8%B9لہجے کا تنوع2018-07-10T15:50:18Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> کسی برگزیدہ اور برتر ہستی کے سامنے شکوہ کرنے والا اپنی معروضات پیش کرتے ہوئے ،حسب ِ ضرو..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
کسی برگزیدہ اور برتر ہستی کے سامنے شکوہ کرنے والا اپنی معروضات پیش کرتے ہوئے ،حسب ِ ضرورت مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے شکوے کا لہجہ بھی متنوع ہے۔ کہیں عجز و نیاز مندی ہے ، کہیں اپنی غیرت و انا کا احساس ہے،کہیں تندی و تلخی اور جوش ہے ، کہیں تاسف و مایوسی کا لہجہ ہے اور کہیں زاری و دعا کا انداز ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B4%D9%85%D8%B9_%D8%A7%D9%88%D8%B1_%D8%B4%D8%A7%D8%B9%D8%B1%22شمع اور شاعر"2018-07-10T12:07:13Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> '''تعارف اور پس منظر''' ’ شمع اور شاعر ‘فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی اور دو ماہ بعد انجمن حمای..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
'''تعارف اور پس منظر'''<br />
<br />
’ شمع اور شاعر ‘فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی اور دو ماہ بعد انجمن حمایت اسلام کے ۲۷ ویں سالانہ اجلاس منعقدہ ۱۶ اپریل ۱۹۱۲ء میں پڑ ھی گئی۔ یہ اجلاس اسلامیہ کالج لاہور کے ریواز ہوسٹل کے صحن میں منعقد ہوا تھا۔<br />
اول تو نظم خاصی طویل تھی، دوسرے انجمن کے دو بڑے سرپرستوں مرزاسلطان احمد اور فقیر سید افتخار الدین میں سے ہر ایک نے اصرار کیا کہ نظم اس کی صدارت میں پڑ ھی جائے۔ مجبوراً یہ فیصلہ ہوا کہ اقبالؔ اسے دو نشستوں میں پڑ ھ کر سنائیں گے۔ گذشتہ سال انجمن کے جلسے میں اقبال نے ’’شکوہ ‘‘سنائی تھی اور وہ بہت مقبول ہوئی تھی۔ شاید اسی لیے اس بار ان کی نظم سننے کے لیے تقریباً دس ہزار سامعین جمع ہو گئے تھے۔ شیخ عبدالشکور کا بیان ہے کہ یہ ’’ علامّہ کی بھرپور جوانی کا زمانہ تھا۔ سرخ و سفید رنگ، شان دار مونچھیں ، بڑے وجیہ اور جامہ زیب انسان تھے۔ سرخ ترک ٹوپی ان کے سر پر عجب بہار دکھاتی تھی‘‘۔ (بحوالہ: اقبال کے ہم نشین، مرتبہ:صابر کلوروی، ص: ۲۳۵) …پہلی نشست کی صدارت مرزا سلطان احمد نے کی ۔ اقبال نے نظم کا آغاز کرنے سے پہلے ایک مختصر تقریر کی۔ فرمایا:<br />
’’ جو نظم پچھلے سال لکھی تھی، وہ شکوہ تھا اور اس میں خدا سے شکایت تھی اور بعض لوگوں نے اسے براخیال کیا اور یہ سمجھا کہ یہ بہت بڑی جسارت ہے… وہ اس قدر مقبول ہوئی کہ آج تک کئی ہزار خطوط اس کی تعریف میں میرے پاس آچکے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی، وہ ظاہر کر دی گئی… میری آج کی نظم ایسی جامع ہے، جس میں مشکلات کی تصویر اور اس کے حل کرنے کا نسخہ درج ہوگا۔ اس کے لیے آپ اس کو دونوں حیثیتوں سے دیکھیں۔ ایک شاعرانہ پہلوسے ، دوسرے تجاویز نسخہ کے لحاظ سے اور اسی لیے عرض ہے کہ خدا کے واسطے تم توجّہ کرو اور اسلام کی عزت بڑ ھانے کے لیے پوری سرگرمی سے کام لو‘‘۔ ( روداد ستائیسواں سالانہ جلسہ انجمن حمایت اسلام: ص ۸۳۔۸۴ بحوالہ: اقبال اور انجمن حمایت اسلام ص) <br />
اس کے بعد انھوں نے نظم کے ابتدائی چھے بند سنائے۔ پہلی صدارت ختم ہوئی۔ دوسرے صدر کے کرسی نشین ہونے اور رسمی تقریرکرنے تک اقبالؔ کو آرام لینے کا موقع مل گیا۔ آخری چھے بند فقیر سید افتخارالدین کی صدارت میں سنائے۔ نظم سنانے سے پیشتر انھوں نے ایک قطعہ بھی سنایا جس میں جلسے کے دونوں صدور کا ذکر تھا۔ قطعہ یہ تھا: <br />
ہم نشینِ بے ریایم از رہِ اخلاص گفت<br />
<br />
اے کلامِ تو فروغِ دیدۂ برنا و پیر <br />
درمیانِ انجمن معشوقِ ہرجائی مباش<br />
<br />
گاہ با سلطان باشی، گاہ باشی با فقیر<br />
گفتمش اے ہم نشیں! معذور می دارم ترا<br />
<br />
در طلسمِ امتیازِ ظاہری ہستی اسیر<br />
من کہ شمع عشق را در بزمِ دل افروختم<br />
<br />
سوختم خود را و سامان دوئی ہم سوختم<br />
(مطالب بانگِ درا: ص ۲۳۴)<br />
اقبال یہ نظم ترنم سے سنا رہے تھے، جب وہ اس شعر پر پہنچے:<br />
در غمِ دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز <br />
گفتمت روشن حدیثے گر تودانی دار گوش<br />
تو ان کے ایک مداح خواجہ عبدالصمد ککڑو نے بے اختیار ہو کر کہا: اقبال بارِد گر بخواں۔ اس پر اقبال نے بے ساختہ کہا: تاب ِ دگر بار سوختن ندارد۔ اقبال کے برجستہ جواب پر سامعین نے دل کھو ل کر داد دی اور خواجہ عبدالصمد ککڑو نے بے تاب ہو کر ، اقبال کا ہاتھ چوم لیا اور اس کے ساتھ ہی انجمن کو ایک ہزار روپے چندہ عطا کیا۔ (مطالب بانگِ درا: ص ۲۳۶)<br />
یہ نظم مولانا ظفر علی خاں نے اپنے پریس میں خاص اہتمام سے دس ہزار کی تعداد میں چھپوائی تھی اور آٹھ آنے فی کاپی قیمت رکھی گئی تھی۔ انھوں نے اعلان کیا تھا کہ اس کی فروخت سے جو پانچ ہزار روپیہ وصول ہوگا ،وہ ڈاکٹر اقبالؔ کو دے کر تبلیغ اسلام کے لیے جاپان بھیجا جائے گا۔ (سرودِ رفتہ: ص ۲۰۲)ا یک روایت یہ ہے کہ نظم کی ایک ایک کاپی پانچ پانچ روپے میں فروخت ہوئی۔ <br />
نظم کی ابتدائی شکل میں ساتویں بند کا پہلا شعر تھا: <br />
ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں<br />
سرمہ چشم دشت میں گردِ رمِ آہو ہوا<br />
بعد میں بانگِ درا کی ترتیب کے موقع پر اس شعر کو حذف کر دیا گیا۔<br />
۱۹۱۱ء کے خاتمے پر اور ۱۹۱۲ ء کے آغاز میں دنیاے اسلام کی دردناک صور ت حا ل ہر دردمند مسلمان کے دل کو رونا رلا رہی تھی۔ شکوہ (اوائل۱۹۱۱ئ) کے زمانے میں عالم اسلام جس افسوس ناک حالت سے دو چار تھا ’شمع اور شاعر‘ ( ۱۹۱۲ئ) تک پہنچتے پہنچتے ، اس میں اتنا اضافہ ہوا کہ ستمبر ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کردیا۔ سلطنت عثمانیہ کے بہت سے علاقوں ( مصر، مالٹا، سوڈان، قبرص، الجزائر ، تیونس اور مراکش وغیرہ) پر تو برطانیہ اور فرانس نے پہلے ہی قبضہ کر لیا تھا، صرف طرابلس استعماری طاقتوں کے تسلط سے بچا ہوا تھا۔ اٹلی نے اپنے سابقہ اعلانات کو بالاے طاق رکھتے ہوئے، ۲۹ ستمبر ۱۹۱۱ء کو طرابلس پر ایک بھر پور حملہ کردیا۔ وہاں ترکوں کی بہت تھوڑی سی فوج مقیم تھی۔ ترکی سے مدد پہنچنا مشکل تھا کیونکہ مصر پر انگریزوں کا قبضہ تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی بحریہ بھی کمزور تھی اس لیے سمندر کے راستے کمک پہنچانا بھی ممکن نہ تھا، تاہم غازی انور پاشا کسی نہ کسی طرح طرابلس پہنچ گئے۔ انور پاشا غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی دعوتِ جہاد کا طریق ایسا دل نشین تھا کہ قبائلیوں کی صدیوں پرانی عداوت، اخو ّت و مؤدّت سے بدل گئی۔ مزید برآں انور پاشا نے انھیں ایسی عمدہ فوجی تربیت دی کہ عربوں نے اطالویوں سے بہت سا اسلحہ چھین لیا۔ <br />
جنگِ طرابلس کے واقعات اس دور کے اخبارات خصوصاً الہلال اور زمیندار میں شائع ہوتے رہتے تھے جس کے سبب ہندستانی مسلمانوں میں کافی جوش و خروش پیدا ہو گیا تھا۔ قبیلہ البراعصہ کے سردار شیخ عبداللہ کی گیارہ سالہ بیٹی ایک محاذ پر مجاہدین کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوگئی۔ اقبال کی نظم’’ فاطمہ بنت عبداللہ‘‘ اس ایمان افروز واقعے کی یادگار ہے۔ ’شمع اور شاعر ‘فروری ۱۹۱۲ء میں لکھی گئی۔ ان دنوں جنگِ طرابلس جاری تھی۔ اس جنگ کے حوالے سے اقبال نے انھی دنوں ایک اور نظم’’ حضور رسالت مآب ؐ میں ‘‘لکھی۔طرابلس کے واقعات کو سن سن کر مسلمانوں کے دلوں میں جو فکر و اضطراب پیدا ہو رہا تھا، ان دونوں نظموں میں اس کی واضح جھلک موجود ہے۔ <br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%AD%D8%B5%D9%86%D8%B9%D8%AA_%DA%AF%D8%B1%DB%8C٭صنعت گری2018-07-10T12:04:10Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> ’’ ذوق و شوق‘‘ سے صنعت گری کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے : ۱۔ صنعتِ تلمیح: ریگِ نواحِ کاظ..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
’’ ذوق و شوق‘‘ سے صنعت گری کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے :<br />
۱۔ صنعتِ تلمیح: <br />
ریگِ نواحِ کاظمہ ‘ نرم ہے مثلِ پرنیاں<br />
_______<br />
کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں<br />
_______<br />
گرچہ ہے تاب دارا بھی گیسوے دجلہ و فرات<br />
۲۔ صنعت تجنیس مضارع:( دو ایسے متجانس الفاظ کا استعمال جن میں صرف قریب المخرج یا متحد المخرج حرف کا اختلاف ہو):<br />
عشق کی ابتدا عجب‘ عشق کی انتہا عجب<br />
۳۔ صنعت ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑ ھیں ‘ معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا):<br />
صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق‘ صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق<br />
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق<br />
_______<br />
شوکتِ سنجر و سلیم‘ تیرے جلال کی نمو د<br />
فقرِ جنید و بایزید‘ تیرا جمالِ بے نقاب<br />
۴۔ صنعت ترصیع: (دو مصرعوں کے زیادہ یا تمام الفاظ کا ہم قافیہ ہونا) : <br />
گرمیِ آرزو فراق‘ شورش ہاے ہو فراق<br />
موج کی جستجو فراق‘ قطرہ کی آبرو فراق<br />
۵۔ صنعت مراعاۃ النظیر: <br />
لوح بھی تو‘ قلم بھی تو ‘ تیرا وجود الکتاب<br />
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب<br />
فنی اعتبار سے ’’ ذوق و شوق‘‘ بڑی متناسب اور سڈول نظم ہے۔ اس کا ہر بند چھے اشعار پر مشتمل ہے جب کہ اقبال کی بیشتر طویل نظموں میں ہر بند کے شعروں کی تعدا د مختلف ہے۔ وسعت معانی اور بلاغت کے اعتبار سے اسے اقبالؒ کی دو چار بہترین نظموں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%85%D8%AD%D8%A7%DA%A9%D8%A7%D8%AAمحاکات2018-07-10T12:02:44Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> زیر مطالعہ نظم میں محاکات کی بڑی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ نظم کے پہلے بند میں سرزمین عر..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
زیر مطالعہ نظم میں محاکات کی بڑی خوب صورت مثالیں ملتی ہیں۔ نظم کے پہلے بند میں سرزمین عرب کی جو منظر کشی کی ہے، وہ بجاے خود تصویر کاری کا اعلیٰ نمونہ ہے، لیکن مندرجہ ذیل اشعار خصوصاً اس کی بڑی عمدہ مثالیں ہیں: <br />
گرد سے پاک ہے ہوا برگِ نخیل دھل گئے<br />
ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثلِ پرنیاں<br />
_______<br />
آگ بجھی ہوئی ادھر‘ ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر<br />
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%AD%D8%A7%DB%8C%D8%AC%D8%A7%D8%B2_%D9%88_%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%BA%D8%AA٭ایجاز و بلاغت2018-07-10T12:01:23Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> زیر مطالعہ نظم اقبال کی چندان نظموں میں سے ہے جن میں اقبالؔ کا فن پورے عروج پر ہے۔ ’’ ذو..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
زیر مطالعہ نظم اقبال کی چندان نظموں میں سے ہے جن میں اقبالؔ کا فن پورے عروج پر ہے۔ ’’ ذوق و شوق‘‘ ان کی شاعرانہ عظمت کا شاہ کار ہے۔ نظم پڑ ھتے ہوئے ہر ہر شعر میں ’’سمندر ہے اک بوند پانی میں بند‘‘ والی کیفیت نظر آتی ہے۔ نہایت وسیع مطالب و مفاہیم کو کمالِ فن سے ایک مختصر ترکیب ‘ ایک مصرعے یا شعر میں بیان کیا گیا ہے ۔ ایجاز و بلاغت کی چند خوب صورت مثالیں ملاحظہ ہوں: <br />
عشق تمام مصطفیٰ‘ عقل تمام بولہب<br />
_______<br />
آگ بجھی ہوئی اِدھر، ٹوٹی ہوئی طناب اُدھر<br />
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں<br />
_______<br />
جلوتیانِ مدرسہ ، کور نگاہ و مردہ ذوق<br />
خلوتیانِ مے کدہ ‘ کم طلب و تہی کدو<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B3%D9%88%D8%B2_%D9%88_%DA%AF%D8%AF%D8%A7%D8%B2سوز و گداز2018-07-10T12:00:25Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> فنی اعتبار سے نظم کی ایک بڑی خوبی اس کا انداز تغزل اور سوزو گداز ہے ’’ذوق وشوق‘‘ ک..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
فنی اعتبار سے نظم کی ایک بڑی خوبی اس کا انداز تغزل اور سوزو گداز ہے ’’ذوق وشوق‘‘ کا موضوع( عشق رسولؐ اور احیاے ملت اسلامیہ کی تڑپ) ہی ایسا ہے کہ اظہارِبیان میں سوز وگداز کاپیدا ہونا قدرتی بات ہے۔ عابد علی عابد کے خیال میں ’’سوزوگداز کا اظہار جس دل فریب پیرایے میں ’’ ذوق و شوق‘‘ میں ہوا ہے ‘ ویسا کسی اور نظم میں نہیں ہوا… خصوصیت سے نظم کے پہلے اور آخری بند میں‘‘۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B9%D8%B1%D8%A8%DB%8C_%D8%A7%D8%AB%D8%B1%D8%A7%D8%AAعربی اثرات2018-07-10T11:59:18Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> ’’ذوق و شوق‘‘ اقبال کے سفر فلسطین کی یادگار ہے، جیسا کہ انھوں نے خود وضاحت کی ہے کہ اس..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
’’ذوق و شوق‘‘ اقبال کے سفر فلسطین کی یادگار ہے، جیسا کہ انھوں نے خود وضاحت کی ہے کہ اس نظم کے بیشتر اشعار فلسطین میں لکھے گئے۔ وہ تقریباً ایک ہفتہ بیت المقدس میں مقیم رہے ‘ عربوں سے ملاقاتیں رہیں اور تبادلۂ خیالات ہوا۔ اس پس منظر میں لکھی جانے والی زیر مطالعہ نظم میں عربی ماحول اور عربی شعر و ادب کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر محمد منور لکھتے ہیں: <br />
’’ کلام اقبال پر عربی اثرات مختلف انداز میں ظہور پذیر ہوئے ہیں۔ کچھ باتیں صاف اور صریح ہیں‘ کچھ علامت بن گئی ہیں اور کچھ تصاویر خیالی ہیں۔ لطف وہاں آتا ہے جہاں وہ عرب کی ادبی روح کو اپنے شعروں میں سمو دیتے ہیں ۔ جہاں ان کی تشبیہیں ‘ استعارے اور تلمیحیںاور خیالی تصویریں قاری کے ذہن کو عربی ماحول کی طرف منتقل کر دیتی ہیں [ذوق و شوق] کا آغاز اپنی معنوی خوبی کو جبھی واضح کرتا ہے کہ اسے عربی ادب کے آئینے میں دیکھا جائے… کوہِ اِضم اور ریگِ نواحِ کاظمہ کے اندر مدینہ منورہ کی یاد مضمر ہے… وہ عالم خیال میں مدینہ منور ہ کی سیر و زیارت کر رہے تھے…ٹوٹی ہوئی طناب‘ بجھی ہوئی آگ اور گزر جانے والے قافلے عرب شعرا کے محبوب ترین مضمون ہیں… یہ مصرعے دیکھیے: <br />
قافلۂ حجاز میں ایک حسینؓ بھی نہیں<br />
_______<br />
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہاے رنگ و بو<br />
_______<br />
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم ، نخیلِ بے رطب<br />
’’نخیلِ بے رطب‘‘ ٹھیٹھ عربی پیرایۂ بیان ہے۔( میزانِ اقبال: ص ۲۶- ۳۲)<br />
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے اقبال کو جو عشق تھا‘ اس کا ذکرکرتے ہوئے سر اکبر حیدری کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:’’ میرا ہر بنِ مو آپؐ کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے‘‘۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ آں حضور ؐ کی ذات شاعر اقبال کے لیے سب سے بڑا محرکِ تخلیق یا Source of Inspirationہے… حیات اقبال کی بکثرت روایات شاہد ہیں کہ آپ ؐ کا ذکر آتے ہی اقبال پر ایک عجیب بے خودی و سرشاری کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی، کچھ ایسی کیفیت کہ : <br />
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%27%D9%81%D9%86%DB%8C_%D8%AA%D8%AC%D8%B2%DB%8C%DB%81%27'فنی تجزیہ'2018-07-10T11:57:45Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> ’’ذوق و شوق‘‘ ترکیب بند ہیئت کے پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور بحر رجز مثمن مطوّی مخبون می..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
’’ذوق و شوق‘‘ ترکیب بند ہیئت کے پانچ بندوں پر مشتمل ہے اور بحر رجز مثمن مطوّی مخبون میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں: مُفْتَعِلُنُ مَفَاعِلُنُ مُفْتَعِلُنُ مَفَاعِلُنُ<br />
٭موضوع اور وسیلۂ اظہار میں ہم آہنگی:<br />
’’ذوق وشوق‘‘ میں شاعر نے موضوع کی مناسبت سے اظہارِ خیال کے مختلف وسیلے اختیار کیے ہیں۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ وہ جس ماحول کوپیش کر رہا ہے ‘ اس کے وسیلہ ہاے اظہار‘ ماحول و موضوع سے ہم آہنگ ہوں۔ نظم کے آغاز میں شاعر سرزمین حجاز کا جو تخئیلی منظر پیش کرتا ہے ‘ پیش کش اور بیان کا انداز اور زبان کی نوعیت بھی اس سرزمین اور متعلقات سے مناسبت رکھتی ہے۔ نظم کے بعد کے حصے میں بھی یہی صورت ہے۔ کوہِ اِضم‘ برگِ نخیل‘ ریگِ نواحِ کاظمہ‘ بت کدۂ تصو ّرات‘ معنیِ دیریاب‘ صداے جبریل‘ قافلۂ حجاز‘ گیسوے دجلہ و فرات‘ صدقِ خلیل ؑ ‘ صبرِ حسینؓ ‘ ذرۂ ریگ‘ معرکۂ وجود‘ عشق تمام مصطفیٰ‘ عقل تمام بولہب اور دوسری بہت سی تراکیب، تلمیحات اور الفاظ بجاے خود بلیغ ہیں۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B9%D8%B4%D9%82_%D9%88_%D9%81%D8%B1%D8%A7%D9%82عشق و فراق2018-07-10T11:56:27Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> نظم کے آخری پانچ اشعار میں اقبال نے اپنے نظریۂ عشق اور فلسفۂ فراق ووصال کے بعض پہلوؤں کی..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
نظم کے آخری پانچ اشعار میں اقبال نے اپنے نظریۂ عشق اور فلسفۂ فراق ووصال کے بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے:<br />
۱۔ عشق کے مقابلے میں عقل ناقص ہے۔ انسان زندگی میں عقل پر کلی بھروسا کرے تو وہ اسے گمراہی کی طرف لے جائے گی ۔ اس کے برعکس اگر وہ عشق کو راہنماے زندگی بنائے تو وہ اسے بالآخر اصل حقیقت تک پہنچا دے گا۔ ارمغانِ حجاز میں کہتے ہیں: <br />
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں<br />
عشق سیتا ہے انھیں بے سوزنِ تار و رفو<br />
عشق کی راہنمائی میں سفرِ زندگی طے کرتے ہوئے انسان کو آغاز سے انجام تک ہر ہر مرحلے میں ایک نرالی کیفیت اور قلبی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ ’’ بمصطفیٰ برساں خویش را‘‘ کا ذریعہ بھی عشق ہے۔<br />
۲۔ عشق کو زندہ و تابندہ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ’’ فراق‘‘ ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ اس بات پر شاہد ہے کہ فراق اور دوری، ایک اہم محرک اور تخلیقی قو ّت ہے اور بقاو استحکامِ خودی اور عشق بھی اسی پر منحصر ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر فراق کی مسلمہ اہمیت قلب و ذہن میں راسخ ہو تو وہ وصال کی ظاہری خوش نمائی اور وقتی فوائد کے باوجود کبھی اس کے قریب نہیں پھٹکے گا۔ اسے حوصلہ ہی نہ ہوگا کہ وہ کسی بہانے ترکِ فراق کرکے بے ادبی کا مرتکب ہو۔ اقبال ایک اور جگہ کہتے ہیں: <br />
تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیرد ز وصل<br />
چیست حیاتِ دوام ؟ سوختنِ ناتمام<br />
نظم کوعشق و فراق کے موضوع پر ختم کرتے ہوئے، اقبالؒیہ حقیقت قارئین کے ذہن نشین کراتے ہیں کہ رسالت مآبؐ کی محبت‘ مسلم ممالک کی تعمیر و ترقی اور ملت اسلامیہ کی نشأتِ ثانیہ کا منبع و سرچشمہ عشق و فراق ہی ہو سکتاہے۔<br />
<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%A8%D8%AD%D8%B6%D9%88%D8%B1_%D8%B1%D8%B3%D8%A7%D9%84%D8%AA_%D9%85%D8%A2%D8%A8%D8%90بحضور رسالت مآبؐ2018-07-10T11:54:34Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> اقبال سمجھتے ہیں کہ ملت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو پاسکتی ہے اور اس سلسلے میں میری کوششی..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
اقبال سمجھتے ہیں کہ ملت اسلامیہ اپنی عظمت رفتہ کو پاسکتی ہے اور اس سلسلے میں میری کوششیں بھی کسی درجے میں کارآمد ہو سکتی ہیں، بشرطیکہ ملت اسلامیہ اپنی جدو جہد میں رسول کریمؐ کے اسوۂ حسنہ کو مشعلِ راہ بنائے۔<br />
۱۔ سب سے پہلے تو شاعر نے کائنات میں آں حضورؐ کی اصل حیثیت کا ذکر کیاہے۔ تیسرے بند کے پہلے شعر اور تیسرے بند کے پہلے تین مصرعوں کا مفہوم یہ ہے کہ آپؐ کی ذاتِ پاک ہی وجہِ تخلیقِ کائنات ہے۔ اس کا پس منظر یہ حدیث ہے کہ ’’ اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا‘‘[تحقیقی طور پر یہ حدیث ثابت نہیں]۔ بقول مصحفی ؔ:<br />
سارے جہاں کا تجھ کو جانِ جہاں بنایا<br />
۲۔ پھر عربوں ( ذرۂ ریگ) نے دنیا کی قوموں میں جو امتیازی حیثیت ( طلوعِ آفتاب) حاصل کی‘ بعض مسلمان حکمرانوں نے عظمت وصولت کا نقش لوگوں کے دلوں پر بٹھایا اور مسلم بزرگوں اور صوفیا نے عوام کے دلوں کو اپنے اخلاقِ حسنہ کے ذریعے مسخر کیا تو اس کی وجہ صرف اتباعِ رسول ؐ تھی۔ مسلم حکمرانوں کا جاہ و جلال اور بزرگانِ دین کا فقر اور ان کی اخلاقی برتری ایک طرح سے اسلام کی حقانیت اور جلال و جمالِ نبوی ؐکا مظہر ہے۔ یہ بات تیسرے بند کے اگلے تین مصرعوں میں کہی ہے۔ (اقبال نے یہاں بطورِ خاص سنجر و سلیم اور جنید و بایزید کا حوالہ دیا ہے۔ سنجر ( م: ۱۱۵۷ئ) سلجوقیوں کا آخری طاقت ور فرماں روا تھا۔ وہ بہت بہادر‘ فیاض اور عادل بادشاہ تھا۔ عمر بھر دشمنوں سے بر سرِ پیکاررہا۔ اس نے اپنے چالیس سالہ دورِ حکومت میں ۱۹ مرتبہ اپنے دشمنوں کو شکست فاش دی۔ سلیم نے صرف آٹھ سال حکومت کی لیکن اس قلیل مدّت میں اس نے دولتِ عثمانیہ کی مملکت کی حدود کی زبردست توسیع کی اور اپنے آپ کو ناقابلِ شکست اور آہنی قوتِ ارادی کا مالک ثابت کیا۔ سنجر اور سلیم دونوں کی شخصیّتیں جلالِ الٰہی کے مظہر کے طور پر اقبال کو متاثر کرتی ہیں۔‘‘ (اقبال کی تیرہ نظمیں: ص۱۵۷)جنید المعروف بہ جنید بغدادی(م: ۹۱۰ئ)ابتدائی عہد کے صوفیہ میں سے تھے۔ بایزید بسطامی ( م:۸۴۷ئ) وجودی مسلک کے صوفی گزرے ہیں۔ سلطان سلیمان اعظم کا تعارف صفحہ پر ملاحظہ کیجیے)<br />
۳: مسلمان کے لیے انفرادی راہِ نجات اور اجتماعی نشأت ثانیہ کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں۔ اس پیروی کا سرچشمہ آں حضورؐ سے محبت اور عقیدت ہونی چاہیے۔ ازروے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:آں حضورؐ سے محبت کرنا ایک مسلمان کے ایمان کا جز ہے۔ آپؐ نے فرمایا:<br />
لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَ وَلِدِہٖ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ وہ اپنے والدین ‘ اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑ ھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔<br />
اس کے بغیر نہ تو ظاہری عبادت( نماز ،روزے) کا حقیقی مقصد حاصل ہو سکتا ہے اور نہ انسانی عقل کائنات کی بھول بھلیوں کے معمے کو حل کر سکتی ہے۔ دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی بے اطمینانی‘ ظلم و تعدّی اور تعصّب و جہالت کا خاتمہ بھی صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان سارے انسانی فلسفوں اور نظاموں کو ( جو ’’ علم، نخیلِ بے رطب‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں) چھوڑ کر محسن انسانیتؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنائے اور اسی کی روشنی میں اپنی سمت ِ سفر متعیّن کرکے منزل مقصود کو پالے۔<br />
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اس نظم کے نعتیہ یا حمدیہ ہونے کے بارے میں شارحین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یوسف سلیم چشتی ‘ غلام رسول مہر ‘ محمد عبدالرشید فاضل اور خواجہ محمد زکریا چوتھے بند:’’ لوح بھی تو‘ قلم بھی تو…‘‘ کا مشارٌ الیہ آں حضور ؐ کو قرار دیتے ہیں مگرپروفیسر اسلوب احمد انصاری‘ ڈاکٹر عبدالمغنی اور ڈاکٹر اسرار احمد کا خیال ہے کہ اس میں خطاب اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ <br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%AD%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85_%D8%A7%D9%86%D8%AD%D8%B7%D8%A7%D8%B7_%DA%A9%D8%A7_%D9%BE%D8%B1%D8%B3%D9%88%D8%B2_%D8%AA%D8%B0%DA%A9%D8%B1%DB%81٭مسلم انحطاط کا پرسوز تذکرہ2018-07-10T11:51:25Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> عالمِ تصو ّر میں ‘ بیت المقدس اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت‘ ملت اسلامیہ کے احیاے نو..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
عالمِ تصو ّر میں ‘ بیت المقدس اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت‘ ملت اسلامیہ کے احیاے نو پر بحث مباحثہ اور دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلم نمایندوں سے ملاقاتیں اور احساسِ یگانگت شاعر کے ذہن میں تازہ ہے۔ اس کے سامنے پوری مسلم دنیا کی حالتِ زبوں اور مسلمانوں کی حالت ِ زار کا نقشہ کھنچ جاتا ہے اور اسے مسلمانوں کی بے حسی‘ غفلت‘ بے عملی اور پستی کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے۔ دوسرے بند کے بیشتر شعروں میں اسی احساس کا مؤثر اور بھر پور اظہار ملتا ہے۔<br />
اقبال کے نزدیک مسلم انحطاط ‘ اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ اب تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں اسلاف کی روایات بالکل عنقا ہو چکی ہیں۔<br />
۱۔ ایک طرف تو خود مسلمان بے حس ہو چکے ہیں کہ اہلِ حرم نے اپنی آستینوں میں بت پال لیے ہیں۔ گیسوے دجلہ و فرات تاب دار ہے مگر بت شکنی کے لیے کوئی محمود غزنوی ہے اور نہ کوئی حسینؓ۔ مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دین و عقائد میں غیر اسلام کی آمیزش کر لی ہے۔ ملحدانہ افکار و نظریات کو اختیار کرنا بالکل ایسا ہے جیسے اہلِ حرم‘ اپنے حرم کو سومنات کا مندر بنا لیں مگر مسلمانوں کی صفوں میں کوئی ایسا رہنما یا حکمران نہیں جو مسلمانوں کے ’’ اسلامی سومنات‘‘ کو پاش پاش کر دے۔ قافلۂ حجاز ( مسلمانوں) میں جور اہ نما اور حکمران موجود ہیں، ان کے اندر شہادتِ حق کا وہ داعیہ نہیں جس کی مثال امام حسینؓ نے پیش کی۔آج بھی مسلمان حکمران یزید کے سے بلکہ اس سے بھی بد تر افعال و اعمال کے مرتکب ہورہے ہیں مگر کلمۂ حق کہنے کے لیے کوئی شخص ’’ کربلا‘‘ میں نہیں نکلتا۔<br />
۲۔ پھر یہ صورتِ حال عالمِ اسلام کے کسی ایک حصے تک محدود نہیں بلکہ عرب و عجم دونوں اس انحطاط کا شکار ہیں ۔ایک طرف عربوں کے ہاں ان کے قومی کردار کی خصوصیات( سادگی‘ شجاعت‘ غیرت ‘ فقر اور مہمان نوازی وغیرہ) ختم ہوچکی ہوتی… (۱۹۳۵ء میں جزیرہ نماے عرب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا اور بیشتر حصوں پر مغرب خصوصاً انگریزوں کے کٹھ پتلی حکمران دادِ بادشاہت دے رہے تھے۔)<br />
دوسری طرف عجم جو اپنے علم کی وسعت اور فکر کی بلندی کے سبب مسلمانوں کے لیے وجہِ افتخار اور دوسری قوموں کے لیے ماہ الامتیاز تھا ،افسوس کہ اس کے افکارِ عالیہ کو بھی گھن لگ چکا ہے۔ <br />
۳۔ عرب و عجم کے اس انحطاط کا ایک عبرت انگیز ورق یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں جلوتیانِ مدرسہ(یعنی قدیم دینی مدارس کے تعلیم یافتہ) کو ر نگاہ اور مردہ ذوق ہیں۔بقول سید ابوالاعلیٰ مودودی:قدیم دینی مدارس کے تعلیم یافتہ علما عام طو رپر ’’جن مشاغل میں مشغول رہے ‘ وہ یہ تھے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر مناظرہ بازیاں کیں‘ چھوٹے مسائل کو بڑے مسائل بنایا اور بڑے مسائل کو مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ اختلافات کو مستقل فرقوں کی بنیاد بنایااور فرقہ بندی کو جھگڑوں اور لڑائیوں کا اکھاڑا بنا کر رکھ دیا… آج یہ پوری میراث جھگڑوں اور مناظروں اور فرقہ بندیوں اور روز افزوں فتنوں کی لہلہاتی ہوئی فصل کے ساتھ ہمارے حصے میں آئی ہے۔‘‘ (مسلمانوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل: ص ۱۱- ۱۲)<br />
اس طبقے میں دوربینی و جہاں بینی کی خصوصیات کے بجاے تنگ نظری اور تنگ دلی پائی جاتی ہے۔ یہی’’ کور نگاہی ‘‘ اور ’’ مردہ ذوقی‘‘ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے علما کا یہ طبقہ جدید تہذیب و علوم کا چیلنج قبول نہیں کر سکا اور اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اسی طرح خلوتیانِ مے کدہ بھی ملت کی زبوں حالی کا مداوا نہیں کر سکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام کے حقیقی تصو ّف کا چشمۂ صافی عجمی‘ ویدانتی‘ یونانی اور دیگر غیر اسلامی افکار و فلسفوں کی آمیزش سے گدلا ہو گیا اور اہلِ تصو ّف یا تو ذاتی نجات کی تلاش میں کھو گئے ‘ یا پیری مریدی کو رواج دیا۔ علامّہ اقبال نے مروجہ تصو ّف کے مسموم اثرات کو دیکھتے ہوئے بڑی شدت کے ساتھ اور مسلسل اس کی مخالفت کی۔ سید سلیمان ندویؒ کولکھتے ہیں: <br />
’’تصو ّفِ [وجودی] سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے(اقبال نامہ‘ اول: ص ۷۸)۔ دراصل اقبال ملت اسلامیہ کو ایک باعمل قوم بنانا چاہتے تھے جبکہ مروجہ تصو ّف انھیں دنیا سے فرار اور ترک دنیا کی تعلیم دیتا تھا۔ اقبال ’’خاک کی آغوش میں تسبیح ومناجات ‘‘کے بجاے ’’وسعتِ افلاک میں تکبیر مسلسل‘‘ کے قائل ہیں ۔ اس لیے ان کی تاکید ہے: <br />
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری<br />
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری<br />
انھوںنے اس بند کے آخری دو شعروں میں اس صورتِ حال کا بنیادی سبب بھی بتا دیا ہے ۔ ان کے نزدیک عرب و عجم (جلوتیانِ مدرسہ اور خلوتیانِ مے کدہ یعنی جدید تعلیم یافتہ اور بحیثیت مجموعی پوری امت) کے انحطاط و زوال کی حقیقی و جہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت امام حسینؓ کا سا کردار نہیں اور نہ ان میں قربانی و شجاعت کا وہ جذبہ موجود ہے جس کانمونہ بد ر و حنین میں ان کے اسلاف نے پیش کیا تھا۔ اس کردا راو ر اس جذبے کو اقبال نے ’’عشق‘‘ کا نام دیا ہے۔ مسلمانوں میں جذبۂ عشق کے فقدان کے سبب شریعت ‘ تصو ّف اور دین داری کے تصو ّرات بدل گئے ہیں: <br />
شریعت ‘ تصو ّف ‘ تمدن ‘ کلام<br />
بتانِ عجم کے پجاری تمام<br />
ملت اسلامیہ کے انحطاط کے سبب شاعر شدید درد و کرب میں مبتلا ہے۔ رنج و غم کی تلخی نے اس کے شب و روز میں زہر بھر دیا ہے۔ چنانچہ مسلم انحطاط کے تذکرے میں اس نے تلخی اور درد و کرب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوزو گداز کا اظہار کیا ہے۔ یوں شاعر کا دلی کرب اور سوز و گداز پوری نظم میں وقتاً فوقتاً ابھر کر سامنے آتا ہے۔ <br />
اس کرب اور سو ز و گداز کا مقامِ آغاز یہ ہے کہ شاعر اپنی قوم کی حالت سے غیر مطمئن ہے۔ اس کی مستقل خواہش یہی رہی ہے کہ کھوئے ہوؤں کی جستجو کی جائے یعنی مسلمانوں کے دل میں نشأتِ ثانیہ اور احیاے ملت کی آرزو پیدا ہو۔ شاعر اسی آرزو کی نشو و نما کے لیے کوشاں ہے اور اس کوشش میں اپنا خونِ دل و جگر صرف کر دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں اس کی آرزو اور دعا ہے کہ ملت کی سربلندی کے لیے اس کی تڑپ ‘ بے چینی اور بے قرار ی نہ صرف یہ کہ قائم رہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہے کیونکہ جہادِزندگانی میں یہی چیز مہمیز کا کام کرتی ہے۔ <br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%AA%D9%85%DB%81%DB%8C%D8%AF%22تمہید"2018-07-10T11:49:33Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> ’’ذوق و شوق‘‘ میں علامّہ نے اظہارِ خیال کے لیے تمہیدی طور پر ایک منظرِ فطرت کا سہارا ل..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
’’ذوق و شوق‘‘ میں علامّہ نے اظہارِ خیال کے لیے تمہیدی طور پر ایک منظرِ فطرت کا سہارا لیا ہے۔ ’’ خضر راہ‘‘ کی طرح زیر مطالعہ نظم میں بھی انھوں نے ایک منظرِ فطرت کو اپنے حکیمانہ خیالات کی تمہید بنایا ہے۔ شاعر کے دل میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر کی زیارت کی خواہش کروٹیں لے رہی ہے‘ اس لیے وہ خودکو عالم تصو ّر میں مدینۂ طیبہ کے آس پاس محسو س کرتا ہے۔ اس تصو ّراتی منظر کا نقشہ کچھ یوں ہے: <br />
مدینہ منور ہ کے قریب صحرا میں صبح کا سہانا وقت ہے۔ ٹیلوں کی اوٹ سے سورج نمودار ہوتا ہے تو اس کی نورانی کرنیں چاروں طرف یوں بکھر جاتی ہیں جیسے حسن ازل نے اپنا نقاب اتار دیا ہے۔رات کی بارش کے سبب نواحِ کاظمہ کی ریت ریشم کی مانند نرم ہو گئی ہے۔ درختوں کے پتے دھل کر پاک و صاف اور چمک دار ہو گئے ہیں ۔ فضا ہر طرح کی آلودگی سے مبرّا ہے۔ رات کے برسے ہوئے بادلوں کے چھوٹے چھوٹے رنگا رنگ ٹکڑے ادھر اُدھر دوڑتے پھر تے ہیں۔ کوہ اِضم کی پہاڑیوں کے پس منظر میں جب ان بدلیوں پر سورج کی نقرئی کرنیں پڑ تی ہیں تو ان کی رنگینی اور رعنائی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔<br />
شاعر فطرت کی اس رنگینی میں کھویا ہواہے ۔ اچانک اسے صحرا میں کسی گزرے ہوئے کارواں کے نشاناتِ قیام نظر آتے ہیں۔ اس ایک لمحے میں شاعر کی نگاہِ تخیل کے سامنے تاریخ کی بساط پر سیکڑوں قافلے گزر جاتے ہیں۔ اقوامِ عالم کے عروج و زوال کے پس منظر میں اسے یوں احساس ہوتا ہے جیسے جبرئیل ؑ اسے غور و فکر کی دعوت دے رہے ہوں کہ اہلِ دل کے لیے یہی مقامِ عبرت ہے اور لمحۂ فکریہ بھی!<br />
اس بند میں لفظ ’’ کاظمہ‘‘ اور ’’ کوہِ اِضم‘ ‘ وضاحت طلب ہیں۔ کاظمہ مکہ کی جانب والے ایک راستے ‘ ایک مقام یا ایک چشمے کا نام ہے۔ یہ مدینے کے متعدد ناموں میں سے ایک نام ہے۔اِضم مضافاتِ مدینہ کے ایک پہاڑ یا وادی کا نام ہے۔ اقبال نے پہاڑ مراد لیا ہے۔ کاظمہ اور اِضم کے نام قصیدۂ بردہ کے اس شعر سے ماخو ذ ہیں:<br />
اَمْ ہَبَّتِ الرِّیْحُ مِنْ تِلْقَآئِ کَا ظِمَۃٍ<br />
اَوْ اَوْمَضَ الْبَرْقُ فِی الظَّلَمَآئِ مِنْ اِضَمٖ<br />
(کاظمہ کی جانب سے ہو ا چلی یا وادی ِاِضم سے اندھیری رات میں بجلی چمکی ہے۔)<br />
قصیدہ بردہ کے مصنّف امام محمد بن سعید بوصیری ( پیدایش: ۷ مارچ ۱۲۱۳ء ) ایک جامع الصفات بزرگ تھے۔ وہ حسّان بن ثابتؓ کے بعد عربی کے سب سے بڑے نعت گو سمجھے جاتے ہیں۔ ۱۶۵ اشعار کے اس قصیدے سے روحانی اور معجزانہ صفات بھی وابستہ کی جاتی ہیں۔ عربی ادب میں یہ قصیدہ ایک مسلمہ شاہ کار ہے۔ علامّہ اقبال کے بعض خطوط میں بھی امام بوصیری کا ذکر ملتا ہے( اقبال نامہ ‘اول: ص ۹۴ ا‘انوار اقبال: ص ۱۵۴) اردو میں قصیدۂ بردہ کے بہت سے ترجمے ہو چکے ہیں۔ <br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%81%DA%A9%D8%B1%DB%8C_%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2%DB%81%27فکری جائزہ'2018-07-10T11:48:07Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> یہ نظم سفرِ فلسطین کا حاصل تھی‘ اور ایک ایسا تحفہ جو اس سفر کے دوران میں علامّہ اقبال کے..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
یہ نظم سفرِ فلسطین کا حاصل تھی‘ اور ایک ایسا تحفہ جو اس سفر کے دوران میں علامّہ اقبال کے ہاتھ لگا۔ وطن واپسی پر انھوں نے یہ تحفہ ملت کے سامنے پیش کر دیا۔ نظم کے آغاز میں سعدیؒ کا شعر: <br />
دریغ آمدم زاں ہماں بوستاں<br />
تہی دست رفتن سوے دوستاں<br />
درج کرنے سے اسی مدعا کااظہار مقصود ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B0%D9%88%D9%82_%D9%88_%D8%B4%D9%88%D9%82ذوق و شوق2018-07-10T11:46:00Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> '''٭تعارف اور پس منظر''' علامّہ اقبال ؒ دوسری گول میز کانفرنس ( منعقدہ لندن ۷ ستمبر تا یکم..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
'''٭تعارف اور پس منظر'''<br />
<br />
علامّہ اقبال ؒ دوسری گول میز کانفرنس ( منعقدہ لندن ۷ ستمبر تا یکم دسمبر ۱۹۳۱ئ) میں مسلم لیگ کے نمایندے کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ ابھی کانفرنس ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ ۲۱ نومبر کو لندن سے واپس روانہ ہوگئے۔ اٹلی میں چندروزہ قیام کے دوران میں مسولینی اور سابق شاہِ افغانستان امان اللہ خان سے ملاقات کی ۔ پھر مصر سے ہوتے ہوئے ۶ دسمبر کو بیت المقدس پہنچے۔جہاں انھیں مؤتمر عالمِ اسلامی کے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔ <br />
اس اجلاس میں وہ ہندی مسلمانوں کے نمایندے کی حیثیت سے مدّعو تھے۔ غلام رسول مہرؔ اس سفر میںاقبال کے ہمراہ تھے۔ اقبال نے مؤتمر کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔ مؤتمر کے چار نائب صدور منتخب ہوئے ،ان میں علامّہ اقبالؔ بھی شامل تھے۔ وہ ۱۵دسمبر تک بیت المقدس میں مقیم رہے اور مؤتمر کی کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے۔ اس دوران میں جب بھی موقع ملتا ‘ تاریخی مقامات دیکھنے نکل جاتے۔ روانگی سے ایک روز قبل ۱۴ دسمبر کی شام آپ نے انگریزی میں ایک مؤثر خطبہ دیا۔کانفرنس سے فارغ ہوکر فلسطین سے مصر پہنچے اور وہاں سے بذریعہ بحری جہاز ہندستان روانہ ہو گئے۔<br />
۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور پہنچے۔ فرمایا: میرایہ سفر زندگی کا نہایت دل چسپ واقعہ ثابت ہوا ہے۔ ’’ ذوق وشوق‘‘ اسی دل چسپ سفر کی یادگار ہے اور جیسا کہ اقبال نے خودتصریح کی ہے : ’’اس نظم کے اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے‘‘۔ <br />
مؤتمرِ عالمِ اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر، مسلم ممالک کے متعدد وفود سے اقبالؔ کی ملاقات ہوئی۔ اجلاس میں مسلمانوں اور مسلم ممالک کے مسائل پر بحثیں ہوئیں ۔ مختلف تجاویز پیش ہوئیں اور کئی اہم امور طے پائے۔ اقبال بعض ملکوں کے وفود سے مل کر بے حد خوش ہوئے۔ فرمایا:’’ فلسطین کے زمانۂ قیام میں متعدد ممالک‘ مثلاً: مراکش‘ مصر‘ یمن ‘ شام ‘ عراق ‘ فرانس اور جاوا کے نمایندوں سے ملاقات ہوئی۔ شام کے نوجوان عربوں سے مل کر میں خاص طور پر متاثر ہوا۔ ان نوجوانانِ اسلام میں اس قسم کے خلوص و دیانت کی جھلک پائی جائی ہے جیسی میں نے اطالیہ کے فاشسٹ نوجوانوں میںدیکھی۔ کانفرنس کے دوران میں بعض موقعوں پر باہمی اختلاف کے مناظر بھی سامنے آئے۔ اس سلسلے میں علامّہ نے فرمایا کہ مقامی جماعتی اختلاف کے باوجود، مؤتمر شان دار طریق پر کامیاب ہوئی۔ اس اجتماع میں اکثر اسلامی ملکوں کے نمایندے شریک ہوئے اور اسلامی اخو ّت اور ممالک اسلامی کی آزادی کے مسائل پر مندوبین نے بے حد جوش و خروش کا اظہار کیا۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :سفرنامہ اقبال:ص ۱۶۰تا ۱۸۳)<br />
بہرحال کانفرنس میں شرکت‘ اسلامی وفود سے ملاقاتوں اور مقدس مقامات کی زیارت کے بعد علامّہ کے دل میں مسلم ممالک کی ترقی‘ احیاے اسلامی اور زیارتِ روضۂ اطہر کی تمناوآرزو کا از سرِ نو تازہ ہو نا قدرتی بات تھی۔ یہی اس نظم کا پس منظر ہے… اسی تمنا اور آرزوکے تحت انھوں نے اپنے جذبات و احساسات کو ’’ذوق و شوق‘‘ میں نظم کر دیا۔<br />
یہ نظم ایک تواس ذوق و شوق کی آئینہ دار ہے ‘ جو اقبال کے دل میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے موجود تھا۔ دوسرے اس میں ملت اسلامیہ کے احیا کا ذوق و شوق ہے ‘ جس کے لیے اقبال عمر بھر تڑپتے رہے اور روشن مستقبل کے لیے پر امید بھی رہے۔<br />
ابتدامیں نظم زیادہ طویل تھی‘ نظرثانی میں اقبال نے کم وبیش تین درجن اشعار قلم زد کردیے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%AD%D8%B3%D9%86%D9%90_%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D9%86_%DA%A9%DB%92_%D8%AF%DB%8C%DA%AF%D8%B1_%D9%BE%DB%81%D9%84%D9%88حسنِ بیان کے دیگر پہلو2018-07-10T11:43:47Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> ہر بڑے شاعر کی طرح اقبالؔ کی ہر نظم میں ‘ خواہ اس کا موضوع کچھ ہو‘ جدید اور حسین پیرایۂ..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
ہر بڑے شاعر کی طرح اقبالؔ کی ہر نظم میں ‘ خواہ اس کا موضوع کچھ ہو‘ جدید اور حسین پیرایۂ بیان ملتا ہے۔ حسن بیان کے چند پہلو ملاحظہ ہوں:<br />
الف: نادر تراکیب: ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں بہت سے ایسے الفاظ اور تراکیب ملتی ہیں جو اقبال نے اس نظم میں پہلی بار استعمال کی ہیں یا اگر انھیں پہلے برتا بھی ہے تو’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں انھیں ایک نئے انداز‘ نئی آب و تاب اور نرالے انداز سے پیش کیا ہے۔نادر تراکیب کی ایجاد میں غالبؔ کو کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ مگر ڈاکٹر یوسف حسین خاں کا خیال ہے کہ اقبال نے اپنے کلام میں زندگی کی نسبت جس قدر ترکیبیں اور تشبیہیں استعمال کی ہیں ‘ ان کی مثال فارسی اور اردو کے کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملتی۔ ( روحِ اقبال: ص ۱۳۹) ’’طلوعِ اسلام‘‘ کی چند نادر اور نئی تراکیب ملاحظہ ہوں:<br />
جولاں گہِ اطلس‘ نطقِ اعرابی‘ کتابِ ملت بیضا‘ خونِ صد ہزار انجم‘ بال و پرِ روح الامیں‘ گماں آباد ہستی‘ محبت فاتح عالم‘ صید زبونِ شہر یاری‘ قبایانِ تتاری۔<br />
ب: تشبیہات: جہاں تک تشبیہوں کا تعلق ہے ‘ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کہتے ہیں: ’’اقبال تشبیہوں کا بادشاہ ہے اور تشبیہ حسنِ کلام کا زیور ہے۔ اقبال مضمون کی طرفگی اور حسن کو اپنی تشبیہوں سے دوبالا کر دیتا ہے‘‘۔ چند مثالیں: ؎<br />
گماں آباد ہستی میں یقین مردِ مسلماں کا<br />
بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیلِ رہبانی<br />
_______<br />
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں<br />
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ‘ اُدھر ڈوبے ادھر نکلے<br />
ج: صنائع بدائع: <br />
۱۔ صنعتِ ترافق: ( جس مصرع کوچاہیں پہلے پڑ ھیں ‘معنی میں کوئی فرق نہ آئے):<br />
ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی، کہ دے<br />
مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی، کہ دے<br />
۲۔ صنعتِ تضمین:<br />
اثر کچھ خواب کا غنچوں میں باقی ہے تو اے بلبل<br />
’’نورا تلخ ترمی زن چوں ذوقِ نغمہ کم یابی‘‘<br />
۳۔ صنعتِ تلمیح:<br />
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے <br />
وہ کیا تھا ؟ زورِ حیدرؓ ، فقرِ بوذرؓ ، صدقِ سلمانیؓ<br />
۴۔ صنعتِ مراعات النظیر:<br />
غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے<br />
تو اے مرغِ چمن اڑنے سے پہلے پرفشاں ہو جا<br />
۵۔ صنعتِ اشتقاق: ( ایک ہی ماخذ اور ایک ہی اصل کے چند الفاظ کا استعمال):<br />
جہاں بانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی<br />
جگر خوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا<br />
د: محاکات:<br />
ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے بقول:’’ شاعر انہ تصویر کشی کے بے شمار اعلیٰ نمونے اقبال کے کلا م میں موجود ہیں۔ وہ لفظوں کے طلسم سے ایسی تصویر کھینچتا ہے اور تخیل کے وموقلم سے اس میں ایسی رنگ آمیزی کرتا ہے کہ حقیقت جیتی جاگتی شکل میں سامنے آجاتی ہے۔( روحِ اقبال: ص ۱۱۹)’’طلوعِ اسلام‘‘ میں محاکات کی خوب صورت مثالیں موجود ہیں۔ چندمثالیں ملاحظہ ہوں: <br />
گزر جا بن کے سیلِ تند رو کوہ و بیاباں سے<br />
گلستاں راہ میں آئے تو جوے نغمہ خواں ہو جا<br />
_______<br />
ہوئے احرارِ ملت جادہ پیما کس تجمّل سے<br />
تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں کے زندانی<br />
’’طلوعِ اسلام‘‘ بانگِ دار کی طویل نظموں میں اس اعتبار سے منفر د ہے کہ اس میں اقبال کے افکار زیادہ پختہ اور خوب صورت انداز میں سامنے آئے ہیں ۔ فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے بعض حصے نہایت سادہ اور عام فہم ہیں اور بعض حصے بے حد بلیغ اور گہرے مفاہیم و معانی کے حامل ہیں۔<br />
معروف نقاد کلیم الدین احمد کے الفاظ میں:<br />
’’ اقبال کا مخصوص رنگ[ طلوعِ اسلام کے] ہر شعر میں جلوہ گر ہے۔ خیالات کا فلسفیانہ عمق‘ ان کی صداقت بے پناہ‘ طرزِ ادا کی شان و شوکت… ہر شعر مؤثر ہے اور اس کا اثر جوش آور ہے۔ دلِ مردہ میں روحِ زندگی دوڑجاتی ہے اور ترقی کا جذبہ موجزن ہوتا ہے‘خصوصاً نوجوان قارئین تو بے چین ہوجاتے ہیں‘‘۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%A8%D9%84%D8%A7%D8%BA%D8%AAبلاغت2018-07-10T11:41:17Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کا زمانۂ تصنیف بانگِ درا کا دورِ اختتام ہے۔ اس دور میں اقبال کے ہاں و..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
’’ طلوعِ اسلام‘‘ کا زمانۂ تصنیف بانگِ درا کا دورِ اختتام ہے۔ اس دور میں اقبال کے ہاں وہ پختگی آچکی تھی جس کی حقیقی شکل بالِ جبریل کی نظموں میں نظر آتی ہے مگر اس کی ابتدائی جھلکیاں ’’ طلوعِ اسلام ‘‘ میں بھی موجود ہیں۔ یہاں انھوں نے تاریخ اسلام اور مختلف زمانوں اور علاقوں کے مسلمانوں کی قومی خصوصیات اور شخصی خوبیوں کی طرف بڑے بلیغ اشارے کیے ہیں۔ بعض اشعار تو بلاغت و جامعیّت کا شاہ کار ہیں، مثلاً:<br />
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے<br />
شکوہِ ترکمانی‘ ذہن ہندی‘ نطقِ اعرابی<br />
_______<br />
حقیقت ایک ہے ہر شے کی‘ خاکی ہو کہ نوری ہو<br />
لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں<br />
_______<br />
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے<br />
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%BA%D9%86%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D8%AAغنائیت2018-07-10T11:39:34Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کی بحر رواں دواں ‘ شگفتہ اور غنائیت سے بھر پور ہے۔ نظم کو پڑ ھتے ہوئ..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
’’ طلوعِ اسلام‘‘ کی بحر رواں دواں ‘ شگفتہ اور غنائیت سے بھر پور ہے۔ نظم کو پڑ ھتے ہوئے ایک طرح کی نغمگی کا احسا س ہو تا ہے۔ ردیف و قوافی کی موزونیت ‘ غنائیت کے لطف کو دوبالا کرتی ہے۔ تکرارِ لفظی بھی غنائیت کا اہم عنصر ہے۔ چند مثالیں: <br />
نہ تورانی رہے باقی ‘ نہ ایرانی نہ افغانی<br />
بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد<br />
بہا ر آمد‘ نگار آمد ‘ نگار آمد‘ قرار آمد<br />
_______<br />
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں <br />
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ‘ اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%AA%D8%AD%D8%B3%DB%8C%D9%86_%D9%81%D8%B7%D8%B1%D8%AAتحسین فطرت2018-07-10T11:36:07Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> بانگِ درا میں اقبال ایک مفکر سے زیادہ فن کار‘ شاعر اور مصور نظر آتے ہیں۔ ’’طلوعِ اسلا..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
بانگِ درا میں اقبال ایک مفکر سے زیادہ فن کار‘ شاعر اور مصور نظر آتے ہیں۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں انھوں نے حسن فطرت اور اس کے مظاہر و اجزا کے تذکرے اور تحسین کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ نظم کا آغاز ہی ’ ’صبح روشن ‘‘ ’’ستاروں کی تنک تابی‘‘ ’’افق‘‘ اور ’’ آفتاب‘‘ سے ہوتا ہے۔ آگے چلیں تو فطرت کے ان تمام خارجی مظاہر کا تذکرہ ملے گا‘ جن پر اقبال شیدا و فریفتہ ہیں‘ مثلاً :طوفان اور تلاطم ہاے دریا‘ لالہ‘ دریا اور گہر ‘ انجم ‘ نرگس‘ شاہین‘ عروسِ لالہ‘ پروازِشاہینِ قہستانی ‘ قندیلِ رہبانی‘ خورشید‘ عقابی شان‘ستارے شام کے ‘ خونِ شفق‘ طمانچے موج کے ‘ بیکراں ہو جا‘ پر فشاں‘ سیلِ تند رو‘جوے نغمہ خواں‘ صداے آبشاراں‘ فرازِ کوہ‘ خیلِ نغمہ پردازاں ‘ برگ ہاے لالہ وغیرہ۔<br />
یہ الفاظ اور تراکیب اقبال کے ہاں مخصوص علامتوں کی نمایندگی کرتی ہیں۔ اقبال نے ایک طرف ان کے ذریعے اپنا ما فی الضمیرکمال خوبی اور بلاغت کے ساتھ ادا کر دیا اور دوسری طرف فطرت کے حسن کو خراج عقیدت بھی پیش کیا اور یوں تحسینِ فطرت کے ذوق کو تسکین بہم پہنچائی جو ابتدائی دور سے ان کی گھٹی میںپڑا تھا۔ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کا یہ پہلوکہ وہ فکر کے ساتھ ساتھ تحسین فطرت کے ذوق کی آبیاری بھی کرتے جاتے ہیں‘ اقبالؔ کی رومانوی طبع پر بھی دلالت کرتا ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%85%D8%AA%D9%86%D9%88%D8%B9_%D9%84%DB%81%D8%AC%DB%81متنوع لہجہ2018-07-10T11:34:18Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> نظم کا آغاز بڑ ے نرم اور دھیمے لہجے میں ہوتا ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’ ستاروں کی تنک تابی‘..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
نظم کا آغاز بڑ ے نرم اور دھیمے لہجے میں ہوتا ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’ ستاروں کی تنک تابی‘‘ کی ترکیب نرمی ‘ سبک روی‘ گداز اور گھلاوٹ کا احساس پید ا کر رہی ہے‘ دوسرے مصرعے اور پھر دوسرے شعر تک پہنچتے پہنچتے شاعر کے لب و لہجے میں گرمی ‘ جوش اور ولولہ پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جوں جوں آگے بڑ ھتے جائیں ‘ لب و لہجے کی تیزی و تندی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ طوفانِ مغرب، تلاطم ہاے دریا، شکوہِ ترکمانی، نوارا تلخ تر می زن، تقدیر سیمابی کی تراکیب گواہی دے رہی ہیں کہ شاعر اپنے بیان کے اظہار میں قو ّت اور شدت سے کام لینا ضروری سمجھتا ہے ۔ یہاں تک کہ پہلے بند کے ختم ہوتے ہوتے شاعر ’’چراغِ آرزو روشن کرنے‘‘ اور شہیدِ جستجو کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔<br />
دوسرے بند کے آغاز میں شاعر کا لہجہ پھر قدر ے نرم ہو جاتا ہے۔ مگر بند کے اختتام پر ’’سوزو سازِ زندگی‘‘ کے ذکر سے بیان میں پھر وہی گرمی اور وہی جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ لب و لہجے کا یہ اختلاف پوری نظم میں موجود ہے۔ اظہارِ بیان کبھی تو بہت پر جوش اور ولولہ خیز ہوتا ہے اور کبھی اس میں نرمی ‘ دھیما پن‘ اور گھلاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال کبھی مسلمان کو براہِ راست ‘ جہد و عمل اور حرکت پر اکساتے ہیں اور کبھی ناصحانہ ‘ واعظانہ اور مشفقانہ لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ جب وہ دنیا کی مختلف قوموں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں تو ان کا اندازبیان تجزیاتی ہوتا ہے اور انسان کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے اشعارسے سوزو گداز اور درد مندی ٹپکتی ہے۔ اندازِ بیان کی اس رنگینی اور لب و لہجے کے تنوع نے نظم کو اس کائنات کی طرح خوب صورت اور رنگین و دل کش بنا دیا ہے جس کی وسعتوں میں کہیں پہاڑ نظر آتے ہیں‘کہیں میدان اور کہیں دریا‘ کہیں بلند و بالا اور تناور درخت ہیں اور کہیں چھوٹے چھوٹے نرم و نازک پودے ‘ کہیں پھلوں سے لدے پھندے درخت جھومتے ہیں اور کہیں رنگارنگ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو فضا کو معطر کر رہی ہے۔ <br />
مگر جیسا کہ اوپر بھی ذکر آچکا ہے‘ لب و لہجے کے تنوع کے باوجود ‘ بیان میں جوش و خروش اور مسرت و سرمستی کی کیفیت زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ اقبال کے سامنے وہ ’’ عالمِ نو‘‘ طلوع ہورہا تھا کہ صدیوں سے’’ زندانی‘‘مسلمان ’’ شگافِ در‘‘ سے اس کے منتظر تھے۔ یہ بات بھی کچھ کم مسرت خیز نہیںتھی کہ مستقبل مسلمانوں کا ہے۔ ایک ایسے عظیم الشان موقع بر جب تاریخ ایک نازک موڑ مڑ کر ایک نئے اور نسبتاًروشن دور میں داخل ہورہی تھی‘ شاعر کے لہجے میں سرمستی کی کیفیت پیدا ہو جانا عین فطری ہے۔ نظم کا آخری بند جو شدتِ جذبات کے تحت اقبال نے فارسی میں لکھا ‘ جوش و خروش اور مسرت و سرمستی کا بھر پور اظہار ہے۔ یہ بند ایک طرح سے نظم کا کلایمکس ہے ۔ نظم کا خاتمہ بڑا دل نشین ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%81%D9%86%DB%8C_%D8%AA%D8%AC%D8%B2%DB%8C%DB%81!فنی تجزیہ!2018-07-10T11:32:56Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> ’’ طلوعِ اسلام‘‘ ترکیب بند ہیئت میں کل نو بندوں پر مشتمل ہے۔ نظم کی بحر کا نام ہزج مثم..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
’’ طلوعِ اسلام‘‘ ترکیب بند ہیئت میں کل نو بندوں پر مشتمل ہے۔ نظم کی بحر کا نام ہزج مثمن ہے ۔ بحر کا وزن اور ارکان یہ ہیں:مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ مَفَاعِیْلُنْ<br />
٭براہِ راست خطاب:<br />
اقبال نے اپنی بعض دوسری طویل نظموں‘ مثلاً :’’ ذوق و شوق‘‘ یا ’’ مسجد قرطبہ‘‘ کے برعکس ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں تخاطب کا بلاواسطہ اور براہِ راست طریقہ اختیار کیا ہے۔<br />
یہ نظم ایک ایسے دور میں لکھی گئی جب بحیثیت ِ مجموعی عالمِ اسلام کے حالات میں خوش گوار تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں ۔ اس سبب سے اقبال کے جذبات میں تلاطم برپا تھا۔وہ مسلم دنیا کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ مسلمانوں کو دعوتِ جہد و عمل دیتے ہیں اور روشن مستقبل کی خوش خبری سناتے ہیں۔ یہاں انھوں نے براہِ راست خطاب کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ <br />
یہی سبب ہے کہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں رمز و ایما کا وہ بلند معیار نہیں ملتا جو اقبالؔ کی بعض دوسری نظموں میں پایا جاتا ہے۔ جہاں فکر اور سوچ کم اور تلقین و اظہار زیادہ ہو اور وہ بھی براہِ راست‘ تو ظاہر ہے کہ بات’’ درحدیثِ دیگراں‘‘ کے بجاے بلا واسطہ اور وضاحت سے کہی جائے گی۔<br />
<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B1%D9%88%D8%B4%D9%86_%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%82%D8%A8%D9%84_%D9%BE%D8%B1_%D8%A7%D8%B8%DB%81%D8%A7%D8%B1%D9%90_%D9%85%D8%B3%D8%B1%D8%AAروشن مستقبل پر اظہارِ مسرت2018-07-10T11:31:06Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> ترکوں کی فتح عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑا سہارا(Asset) تھی ۔ یوں معلوم ہوتا تھا‘ جیسے عال..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
ترکوں کی فتح عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑا سہارا(Asset) تھی ۔ یوں معلوم ہوتا تھا‘ جیسے عالمِ اسلام انگڑ ائی لے کر بیدار ہو رہا ہے۔ ترکوں کی فتح گویا مسلم نشأت ثانیہ کی طرف پہلا قدم تھا: <br />
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ‘ وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا<br />
دوسری طرف دنیا کی امامت کے دعوے دار‘ یورپ کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکاٖ تھا۔ یورپ کی نام نہاد تہذیب نے دنیا کو تباہی و بربادی اور بربریت و دہشت گردی کے سوا کچھ نہ دیا۔ اقبال کے سال نو کے پیغام( یکم جنوری ۱۹۳۸ئ) سے انداز ہ ہوتا ہے کہ وہ مغرب سے قطعی مایوس تھے۔ منطقی طور پر انھوںنے قرار دیا کہ اب اسلام ہی بنی نوع انسان کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ چنانچہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کے آخری بند میں اقبال نے اس پر بڑ ے جوش و خروش کے ساتھ خوشی اور مسرت کا اظہار کیا ہے ۔ یہاں ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہے۔ ’’خواجۂ بدر و حنین‘‘ اور ’’شاخِ خلیل ‘‘ؑ کی تلمیحات سے مسلمانوں کے شان دار ماضی کی طرف بڑ ے لطیف اشارے کیے ہیں۔ وہ ان شہیدوں کو نہیں بھولے جنھوں نے ہر نازک موقع پر قوم کی سربلندی اور دین کے تحفظ کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ اقبال کے نزدیک جب تک ملت کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں ‘ دنیا کی کوئی طاقت اسے نیست و نابود نہیں کر سکتی۔ یہاں اقبال نے حافظ شیرازی کا ایک فارسی شعر نقل کیا ہے: <br />
بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد<br />
بہار آمد‘ نگار آمد‘ نگار آمد‘ قرار آمد<br />
یہ شعر ایک ایسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے ‘ جب کوئی شخص‘ مسرت کے انتہائی جذبات سے لبریز دل کے ساتھ‘ دوستوںکا ہاتھ پکڑ کر خوشی کے عالم میں رقص کرنے لگتا ہے۔<br />
<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%8C%D8%AA_%DA%A9%D8%A7_%D9%85%D8%B3%D8%AA%D9%82%D8%A8%D9%84%D8%8C_%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86انسانیت کا مستقبل، مسلمان2018-07-10T11:28:37Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> مغرب سے مکمل مایوسی کے بعد اقبال کی نظر میں انسانیت کا مستقبل مسلمان سے وابستہ ہے۔ ان ک..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
مغرب سے مکمل مایوسی کے بعد اقبال کی نظر میں انسانیت کا مستقبل مسلمان سے وابستہ ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اس گلستان ( دنیا ) کا بلبل ہے۔ اس کا گیت گلستان کے لیے بادِبہاری کا حکم رکھتا ہے۔ وہ بلبل کو گیت کی لَے بلند کرنے اور پرجوش آواز میں گیت گانے کے لیے اکساتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مسلمان کے لیے محض نام کا مسلمان ہونا کوئی قابلِ لحاظ بات نہیں ‘ آخرت میں قسمت کا فیصلہ عمل و کردار سے ہوگا۔ یعنی:مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہِ وَ مَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْہَا(سورۃ حم السجدہ: ۴۶)جس شخص نے کوئی نیک کام کیا تو (اس کا اجر) اس کے لیے ہے اور جس نے برا کیا تو اس ( برائی ) کا وبال اسی کے اوپر ہوگا۔ <br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%85%D8%BA%D8%B1%D8%A8_%D8%B3%DB%92_%D9%85%D8%A7%DB%8C%D9%88%D8%B3%DB%8Cمغرب سے مایوسی2018-07-10T11:27:08Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> عالمِ اسلام خصوصاً ترکی کے حالات سے اقبال کی نظر دوسرے یورپی ملکوں کی طرف جاتی ہے‘ جہا..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
عالمِ اسلام خصوصاً ترکی کے حالات سے اقبال کی نظر دوسرے یورپی ملکوں کی طرف جاتی ہے‘ جہاں دنیا کی پہلی خوفناک جنگ لڑی گئی۔ اس کا سبب مختلف یورپی اقوام کی خودغرضیاں‘ مفاد پرستیاں اور نوآبادیاتی حسد اور ہوس تھی۔ اس جنگ نے تباہی و بربادی ‘ خون آشامی اور ہلاکت آفرینی کا فقید المثال نمونہ پیش کیا۔ اقبال کا حساس اور درد مند دل انسان کی مظلومیت پر تڑپ اٹھا۔ چنانچہ اس نے آٹھویں بند کے پہلے چار شعروں میں مختلف پہلوؤں سے مغرب پر تنقید کی ہے: <br />
۱۔ یورپ کا نو آبادیاتی نظام شہریاری، جس کے ذریعے یورپ نے اپنے سامراجی نظام کو مستحکم کیا‘ ایک لعنت ہے۔<br />
۲۔ یورپ کا سرمایہ دارانہ نظام دراصل سامراجیت کی بدترین شکل ہے۔<br />
۳۔ مغرب کی جدید تہذیب کی ظاہر ی چمک دمک جھوٹے نگوں کی طرح اور سراب کی مانند ہے۔<br />
۴۔ مغربی عقلیت نے سائنسی ترقی کی مگرنتیجہ دنیا کی عالم گیر تباہی کی شکل میں سامنے آیا اور روحانیت بھی ختم ہو گئی۔<br />
مغرب کا نو آبادیاتی نظام ہو یا سرمایہ داری‘ مغربی تہذیب ہو یا عقلیت… بحیثیت مجموعی مغرب‘ اقبال کی تنقید کا ہدف ہے۔ وہ مغرب سے کس حد تک مایوس تھے‘ اس کا اندازہ ان کے یکم جنوری ۱۹۳۸ء کے ریڈیائی پیغام سے ہوتا ہے‘ کہتے ہیں:<br />
’’ ملوکیت کے جبر و استبدا نے جمہوریت ‘ قومیّت‘ اشتراکیت‘ فسطائیت‘ اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑ ھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دنیا بھر میں قدرِ حریت اور شرفِ انسانیت کی ایسی مٹی پلید ہور رہی ہے کہ تاریخِ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ جن نام نہاد مدبروں کو انسانوں کی قیادت اور حکومت سپرد کی گئی ہے ‘ وہ خون ریزی ‘ سفاکی اور [استبداد] کے عفریت ثابت ہوئے۔ انھوں نے ملوکیت اور استعمار کے جوش میں لاکھوں کروڑوں مظلوم بندگانِ خدا کو ہلاک و پامال کر ڈالا۔ انھوں نے کمزور قوموں پر تسلط حاصل کرنے کے بعد ان کے اخلاق‘ ان کے مذاہب ‘ ان کی معاشرتی روایات‘ ان کے ادب اور ان کے اموال پر دستِ تطاول دراز کیا۔ پھر ان میں تفرقہ ڈال کر ان بد بختوں کو خوں ریزی اور برادر کشی میں مصروف کر دیا‘‘۔ ( حرفِ اقبال: ص۲۱۷۔۲۱۸)<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%AC%D9%86%DA%AF%D9%90_%D8%B9%D8%B8%DB%8C%D9%85_%DA%A9%DB%92_%D9%86%D8%AA%D8%A7%D8%A6%D8%AC_%D9%88_%D8%A7%D8%AB%D8%B1%D8%A7%D8%AA_%D9%BE%D8%B1_%D8%AA%D8%A8%D8%B5%D8%B1%DB%81جنگِ عظیم کے نتائج و اثرات پر تبصرہ2018-07-10T11:25:59Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> چھٹے بند میں جنگِ عظیم ( اول ) کے واقعات کے آئینے میں اس کے نتائج اور خصوصاً عالم اسلام پ..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
چھٹے بند میں جنگِ عظیم ( اول ) کے واقعات کے آئینے میں اس کے نتائج اور خصوصاً عالم اسلام پر اس کے اثرات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر آچکا ہے‘ پہلے پہل یونانیوں نے برطانیہ کی مدد سے ترکوں سے ان کے بہت سے علاقے چھین لیے مگر ۱۹۲۲ء میں پانسا پلٹا‘پہلے تو سقاریا کی جنگ میں یونانی ‘ ترکوں کے ہاتھوں پٹ گئے ۔ سمرنا کی فتح سے ان کے حوصلے بہت بڑ ھ گئے۔ یہاں ترکوں اور یونانیوں کے درمیان برپا ہونے والے انھی معرکوں کی طرف اشارہ ہے۔ ’’ ہوئے مدفونِ دریا زیردریا تیرنے والے‘‘ کا اشارہ ان یونانیوں کی طرف ہے جنھوں نے آب دوزوں کے ذریعے جنگ میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر ریاض الحسن کا خیال ہے کہ اس مصرعے میں اقبال کا اشارہ لارڈ کچنر کی طرف ہے ۔ کچنر ‘ جنگِ عظیم اول میں برطانیہ کا وزیر جنگ تھا۔ مذاکرات کے لیے‘ ایک آب دوز کے ذریعے ‘ روس جارہا تھا کہ جرمنوں نے حملہ کر کے اس کی آب دوز غرق کر دی۔ ( قومی زبان کراچی: نومبر ۱۹۸۰ئ)<br />
کیمیا پر ناز کرنے والے یونانی جدید ترین اسلحے اور جنگی سازو سامان سے لیس تھے۔ ترکوں کے پاس اسلحہ کم اور ناقص تھا‘ مگر ان کے عزم و ہمت ‘ جرأت و شجاعت اور ولولۂ تازہ نے انھیں مفتوح سے فاتح بنا دیا۔ اقبال نے ’’ خضر راہ‘‘ میں شریف مکہ کی غداری کا ذکر کیا تھا: <br />
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی<br />
یہاں دوبارہ اس کا تذکرہ ہوا ہے کہ ’’ پیرحرم‘‘ ( شریف مکہ) کی غداری کے سبب حرم رسوا ہوا۔ اس بند کے آخری شعر میں اقبال نے ایک بار پھر ایمان و ایقان کو تعمیر ملت کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے کہ ملت کی تقدیر اسی سے وابستہ ہے اور یہی اس کی اصل قو ّت ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85%D8%A7%D9%86_%DA%A9%D8%A7_%DA%A9%D8%B1%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%94_%D8%A7%DB%81%D9%85_%D8%AE%D8%B5%D9%88%D8%B5%DB%8C%D8%A7%D8%AAمسلمان کا کردار۔ اہم خصوصیات2018-07-10T11:24:46Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> مسلمان اگر اپنے مرتبے و منصب کا شعوری احساس رکھتا ہے تو پھر ان عظیم ذمہ داریوں سے عہدہ ب..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
مسلمان اگر اپنے مرتبے و منصب کا شعوری احساس رکھتا ہے تو پھر ان عظیم ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے لیے‘ جن کے تصو ّر سے زمین اور پہاڑ لرز گئے تھے اور انھوں نے خلافت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا‘ مسلمان کو اپنے عمل و کردار میں وہ پختگی اور مضبوطی پیدا کرنا ہوگی ‘ جو اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے ضروری ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمان کو اپنے عمل و کردار کے ذریعے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرنا ہوگا۔ بنیادی طور پر دنیا کی امامت کے لیے صداقت‘ عدالت اور شجاعت کی تین خصوصیات ضروری ہیں۔ مگر خلوصِ عمل اور کردار کی پختگی کے لیے اقبال نے چند اور خصوصیات کو بھی لازمی قرار دیا ہے۔ سب سے پہلی اور ضروری چیز ایمان ہے: <br />
گماں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا<br />
_______<br />
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا<br />
_______<br />
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہے زنجیریں<br />
اور:<br />
یقیں محکم ‘ عمل پیہم‘ محبت فاتحِ عالم<br />
یہاں ’’ یقیں ‘‘ سے مراد ایمان ہے۔ خدا ‘ رسولؐ‘ کتب ِ سماوی‘ جزا و سزا‘ اور ان مبادیات پر ایمان جو اسلام کی اساس ہیں۔ قرآن حکیم کے نزدیک دنیا میں سربلند ی کے لیے ایمان کی شرط لازمی ہے۔وَاَنْتُمْالْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(سورہ آل عمران: ۱۳۹) اورتم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ( صاحب ایمان ) ہو۔<br />
اس ایمان و ایقان کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان میں کردار کی بعض خوبیاں پیدا ہوں ۔ علامّہ اقبال کہتے ہیں کہ’’ جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبارسے اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِکے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا‘ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا ‘ اس وقت تک انسان اس دنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کر سکے گا اور اخو ّت‘ حریت اور مساوات کے شاندار الفاظ شرمندۂ معنی نہ ہو ں گے‘‘۔ (سال نو کا پیغام: مشمولہ: حرف اقبال ،ص۲۱۹ص ۲۲۴۔ ۲۲۵)<br />
مسلمانوں کو اپنے کردار میں زورِحیدرؓ ‘ فقرِ بوذرؓ اور صدقِ سلمانی ؓ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ دورِ حاضر کے فتنوں سے نبرد آزما ہونے اور دنیا میں ظلم و استبداد اور چنگیزیت کی بیخ کنی کے لیے ’’سیرتِ فولاد‘‘ کا ہونا ضروری ہے جو صرف انھی صفات کے ذریعے پیدا ہو سکتی ہے۔ مسلمان میں ’’ پرواز شاہین ِ قہستانی‘‘ بھی زورِحید ر کے بغیر نہیں پیدا ہو سکتی ۔ کبھی ’’سیلِ تند رو‘‘ کی ضرورت ہوتی اور کبھی ’’جوے نغمہ خواں‘‘ کی:<br />
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم<br />
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن<br />
چوتھا ‘ پانچو اں اور ساتواں بند انھی نکات کی تفسیر ہے کہ اگر مسلمان ذوقِ یقیں‘ محبت فاتحِ عالم اور عمل پیہم کی صفات کو اپنا لے تو پھر ’’ ولایت‘ بادشاہی اور علم ِ اشیا کی جہانگیری‘‘ اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ پھر وہ صرف ایک ’’نگاہ ‘‘سے ایک دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ وہ پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بن سکتا ہے۔ جہادِ زندگانی میں مسلمان کی حیثیت نہ صرف یہ کہ فاتح عالم کی ہوگی ‘ بلکہ یہ انگارۂ خاکی ‘ روح الامیں کی ہمسری کادعویٰ بھی کر سکے گا مگرشرط وہی ہے کہ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ… ورنہ اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌفطرت کی تعزیریں بہت سخت ہیں: ’’حذراپے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔‘‘<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%DA%A9%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%A7_%D8%AA_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85%D9%90_%D9%85%D8%B3%D9%84%D9%85کائنا ت میں مقامِ مسلم2018-07-10T11:22:24Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> شاعر مسلمانوں کو ان کے روشن مستقبل کی نوید سنا کر انھیں جہد و عمل پر اکسا رہا ہے۔ اس لیے..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
شاعر مسلمانوں کو ان کے روشن مستقبل کی نوید سنا کر انھیں جہد و عمل پر اکسا رہا ہے۔ اس لیے وہ یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہے کہ کائنات میں مقامِ مسلم کیا ہے؟<br />
اول : مسلمان خداے لم یزل کا خلیفہ اور نائب ہے اور اس ابراہیمی نسبت کی وجہ سے دنیا کی تہذیب و تعمیر اس کا فریضہ ہے۔<br />
دوم :مسلمان کو کائنات میں ’’مقصودِ فطرت‘‘ ہونے کے سبب جاودانی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے جہد عمل کی کوئی انتہا نہیں۔ <br />
سوم :اللہ نے اسے نیابتِ الٰہی کے بلند درجے پر فائز کیا ہے تو یہ ایک آزمایش بھی ہے۔ کائنات کے مختلف النوع امکانات کو بروے کار لانا اس کے فرائض میں داخل ہے۔ <br />
چہارم: اس مقام و مرتبے کا تقاضا یہ ہے کہ اب اسے نہ صرف ایک ملت کی حیثیت سے اپنی بقا و تحفظ کی فکر کرنی ہے بلکہ ایشیا کی پاسبانی کا فریضہ بھی انجام دینا ہے۔<br />
نظم کے تیسر ے بند میں ’’ کائنات میں مقامِ مسلم‘‘ کے یہی چار پہلو بیان کیے گئے ہیں۔ پیامِ مشرق میں یہی بات یوںبیان کی گئی ہے: <br />
ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست<br />
نشان بے نشان غیر از تو کس نیست<br />
قدم بے باک تر نہِ در رہِ زیست<br />
بہ پہناے جہاں غیر از تو کس نیست<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=(%D9%81%DA%A9%D8%B1%DB%8C_%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2%DB%81)(فکری جائزہ)2018-07-10T11:20:32Z<p>Muzalfa.ihsan: </p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
نظم میں کل نو بند ہیں ۔ نظم کے مطالب و مباحث کو مندرجہ ذیل عنوانات کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے:<br />
۱۔ جہانِ نوکی نوید<br />
۲۔ کائنات میں مقامِِ مسلم<br />
۳۔ مسلمان کا کردار اور اس کی خصوصیات<br />
۴۔ جنگِ عظیم کے نتائج اور اثرات پر تبصرہ<br />
۵۔ مغرب سے مایوسی<br />
۶۔ انسانیت کا مستقبل: مسلمان<br />
۷۔ روشن مستقبل<br />
'''٭جہانِ نو کی نوید:'''<br />
آغاز ‘عالمِ اسلام کے موجودہ حالات اور نت نئی رونما ہونے والی تبدیلیوں پر تبصرے سے ہوتا ہے۔ عالمِ اسلام پر جنگِ عظیم اول ( ۱۹۱۴ء تا ۱۹۱۸ئ) کا مثبت اثر یہ ہوا ہے کہ مسلمان طویل خواب سے بیدار ہو رہے ہیں ۔ طوفانِ مغرب نے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ستاروں کی تنک تابی صبح نو کا پیام دے رہی ہے۔ احیاے اسلام کے لیے مسلمانوں میں جو تڑپ اور لگن پیدا ہو رہی ہے‘ اسے دیکھ کر اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اقوامِ عالم کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوں گے اور ساری دنیا کی فکر ی‘ تہذیبی اور سیاسی رہنمائی کا فریضہ انجام دیں گے۔ یہ جہانِ نو کی نوید ہے۔<br />
یہاں علامّہ اقبال عالمِ اسلام کے عظیم ترین حادثے عرب ترک آویزش کی طرف اشارہ کررہے ہیں جس کے نتیجے میں : <br />
الف: عربوں نے ترکوں کو بڑے پیمانے پر تہ تیغ کیا۔<br />
ب: باہمی انتشار و افتراق سے مسلمانوں کی وحدت پارہ پارہ ہو گئی۔<br />
ج: وہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہو گئے۔ <br />
مگر اب تاریخ کے سٹیج پر منظر بدل رہا ہے۔ اگرچہ امت ِ خلیل اللہ زمانے میں رسوا ہوچکی ہے لیکن اب ا س دریا سے تابدار موتی پیدا ہوں گے کیونکہ امت ’’ آہِ سحر گاہی‘‘ کی حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے۔’’سرشکِ چشمِ مسلم‘‘ سے مراد دینی جذبہ و جوش اور احیاے اسلام کے لیے ایک ولولہ ‘سوز و تڑپ اور لگن ہے۔ <br />
اقبال کے خیال میں اب مسلمانوں کا مستقبل بہت تابناک ہے ۔ اگرچہ خلافت ِ عثمانی کا خاتمہ ہو گیا مگر ترک ایک نئے سفر اور نئی منزل کی طرف گامزن ہیں۔ باہمی اختلافات کے بھیانک نتائج سامنے آنے پر ملت ِ اسلامیہ کے دل میں اتحاد و اتفاق کی اہمیت کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ شاخِ ہاشمی سے پھوٹنے والے نئے برگ و بار اسی احساس کا سرچشمہ ہیں۔ نظم کے دوسرے بندمیں جہانِ نو کی یہ نو ید ‘ دراصل ان سوالات کا جواب ہے جو شاعر کے دل میں ’’خضر راہ‘‘ لکھتے وقت پیدا ہوئے تھے اور وہ عالم اسلام کی پریشان حالی کو دیکھ کر بے چین اور مضطرب ہو رہا تھا۔ ’’ خضر راہ‘‘ میں شاعر کہتا ہے: ؎<br />
لے گئے تثلیث کے فرزند میراثِ خلیل ؑ <br />
خشت بنیادِ کلیسا بن گئی خاکِ حجاز<br />
ہو گئی رسوا زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ<br />
جو سراپا ناز تھے ‘ ہیں آج مجبورِ نیاز<br />
یہ ایک طرح کا سوال بھی ہے اور شاعر کی دلی تڑپ اور درد و کرب کا اظہار بھی۔ ’’طلوعِ اسلام‘‘ میں اس کا جواب یوں ملتا ہے: <br />
سرشکِ چشمِ مسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا<br />
خلیل ؑ اللہ کے دریا میں ہوں گے پھر گہر پیدا<br />
’’ خضر راہ‘‘ میں سوال : <br />
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی<br />
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش<br />
’’طلوعِ اسلام‘‘ میں جواب: <br />
اگرعثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے؟<br />
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا<br />
’’خضر راہ ‘‘ میں سوال: <br />
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی<br />
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز<br />
’’طلوعِ اسلام‘‘ میں جواب: <br />
کتابِ ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے<br />
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا<br />
اسی طرح او ر بہت سے ایسے سوالوں کا جواب بھی ہمیں ’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں ملتا ہے جو ’’ خضر راہ‘‘ میں اٹھائے گئے تھے۔<br />
شاعر نے مسلمانوں کو جہانِ نو کی نوید سنائی لیکن وہ جہا نِ نو کی منزل تک تبھی پہنچیں گے جب جہد و عمل کے راستے پر ان کا سفر مسلسل جاری رہے گا۔ چنانچہ ایک طرف تو اقبال دست بدعا ہیں کہ مسلمانوں کے دل میں ’’ چراغِ آرزو‘‘ روشن ہو جائے اور ملت اسلامیہ کا ایک ایک فرد حصولِ مقصد کی خاطر سر بکف میدانِ جہاد میں نکل آئے( پہلے بند کا آخری شعر) … دوسری طرف وہ اس توقع کا اظہار کرتے ہیں کہ شاید میری نحیف آواز مسلمانوں کے لیے بانگِ درا ثابت ہو۔ <br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B7%D9%84%D9%88%D8%B9%D9%90_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85طلوعِ اسلام2018-07-10T11:18:53Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> '''٭تعارف اور پس منظر''' بانگِ دراکی یہ آخری نظم انجمن حمایت اسلام کے اڑتیسویں سالانہ ا..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
'''٭تعارف اور پس منظر'''<br />
<br />
بانگِ دراکی یہ آخری نظم انجمن حمایت اسلام کے اڑتیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ ۱۹۲۳ء میں پڑ ھی گئی۔ اس سلسلے میں قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ آخری طویل نظم ہے جو اقبال نے انجمن کے جلسے میں خود پڑ ھ کر سنائی۔ بانگِ درا کی ترتیب کے وقت ‘ بہت سی دوسری نظموں کے برعکس ،اس نظم کو بغیر کسی ترمیم کے مجموعے میں شامل کیا گیا۔<br />
’’خضرراہ ‘‘ کے آخری حصے میں اقبال نے مسلمانوں کے روشن اور پر امید مستقبل کی جو نوید سنائی دی’’ طلوعِ اسلام‘‘ اس کا تتمہ ہے۔ <br />
۱۹۲۳ء کی صورت حال گذشتہ سال کے مقابلے میں حوصلہ افزا اور اطمینان بخش تھی۔ ترکوں کو یونانیوں کے خلاف جوابی کارروائیوں میں خاصی کامیابی حاصل ہو رہی تھی۔ یہاں تک کہ ستمبر ۱۹۲۲ء میں انھوں نے عصمت پاشا کی سر کر دگی میں سمرنا پر قبضہ کر لیا۔ اس فتح پر ہندی مسلمانوں نے زبردست خوشیاں منائیں اور مساجد میں گھی کے چراغ جلائے۔ ترکوں کو مشرقی یونان اور اَدَرْنہ بھی واپس مل گئے۔ ایران بھی انقلابی تبدیلیوں کی طرف گامزن تھا۔ مصر سے برطانوی پروٹیکٹوریٹ ختم ہوا اور سعد زاغلول پاشا کی قیادت میں مصر نے آزادی کا اعلان کر دیا۔ مراکش میں ہسپانوی فوج کے مقابلے میں مجاہد ریف عبدالکریم کا پلہ بھاری تھا۔ ہندستان میں تحریک ِ ترکِ موالات زوروں پر تھی‘ جس کے متاثرین میں اسی فیصد مسلمان تھے۔ بیداری کی اس لہر نے ہندی مسلمانوں کے جذبات میں زبردست ہل چل مچادی تھی۔ غرض یوں معلوم ہوتا تھا کہ تمام مسلمان ممالک سامراجیت اور غلامی کا جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکنے کے لیے انگڑائی لے کر بیدار ہو رہے ہیں۔ <br />
علامّہ اقبال اس کیفیت سے بے خبر نہ تھے۔ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ اسی کیفیت کا پر جوش اور فن کارانہ اظہار ہے۔ غلام رسول مہرؔ کے بقول یہ نظم ’’ سراسر احیاے اسلامیت کے پرمسرت جذبات سے لبریز ہے‘‘۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%AD%D8%B1%D9%86%DA%AF%D9%90_%D8%AA%D8%BA%D8%B2%D9%84٭رنگِ تغزل2018-07-10T11:08:41Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with " <div dir="rtl"> ’’خضرراہ‘‘ اگرچہ ایک نظم ہے جس میں حیات و کائنات کے حقائق و ٹھوس مسائل کو موضوعِ سخن..."</p>
<hr />
<div> <div dir="rtl"><br />
<br />
’’خضرراہ‘‘ اگرچہ ایک نظم ہے جس میں حیات و کائنات کے حقائق و ٹھوس مسائل کو موضوعِ سخن بنایاگیا ہے مگر چونکہ اقبال کے مزاج میں شعریت اور تغزل رچابسا ہے‘ اس لیے غزلوں کے علاوہ ان کی بیشتر نظموں میں بھی تغزل کا رنگ نمایاں ہے۔ ’’خضر راہ‘‘ کے بعض حصوں اور شعروں میں ہمیں اقبال کا یہی رنگِ تغزل نظر آتا ہے: <br />
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام<br />
وہ حضر بے برگ و ساماں‘ و ہ سفرِ بے سنگ و میل<br />
تازہ ویرانے کی سوداے محبت کو تلاش<br />
اور آبادی میں تو‘ زنجیریِ کشت و نخیل<br />
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی <br />
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی<br />
جادوے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز<br />
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری<br />
ہو گئی رسوا ‘ زمانے میں کلاہِ لالہ رنگ<br />
جو سراپا ناز تھے ‘ ہیں آج مجبورِ نیاز<br />
اور اس طرح کے بہت سے دوسرے اشعار اس رنگِ تغزل کا پتا دیتے ہیں جو اقبال کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ہے اور جو کسی طر ح چھپائے نہیں چھپتا۔ ’’ خضرراہ‘‘ میں تغزل کی یہ روح جابجا آشکارا ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%86%D8%B8%D9%85_%DA%A9%D8%A7_%D8%AF%DA%BE%DB%8C%D9%85%D8%A7_%D9%84%DB%81%D8%AC%DB%81نظم کا دھیما لہجہ2018-07-10T11:00:40Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> بحیثیت مجموعی نظم کا لہجہ نرم ‘ ملائم اور دھیما ہے۔ پہلے بند کا سکوت افزا منظر اور الفا..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
بحیثیت مجموعی نظم کا لہجہ نرم ‘ ملائم اور دھیما ہے۔ پہلے بند کا سکوت افزا منظر اور الفاظ کی نرمی‘ لہجے کا دھیما پن ظاہر کر رہی ہے۔ اس حصے میں شاعر کے محتاط لہجے سے گویا’’ سرھانے میرؔ کے آہستہ بولو‘‘ والی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس کے بعد کم و بیش پوری نظم کے لہجے میں نرمی اور دھیما پن غالب ہے۔ اگر کہیں لا شعوری طور پر پُرجوش کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے تو (ہرچند کہ اس کے معقول اسباب ہوتے ہیں) شاعر اسے دوبارہ مدھم کر دیتا ہے‘ مثلاً: دوسرے ہی بند میں جہاں شاعر‘ خضر کے سامنے مختلف سوالات پیش کر رہا ہے‘ اس کے لہجے سے شدت اور جوش جھلکتا ہے: <br />
فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناو نوش<br />
_______<br />
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی<br />
خاک و خوں میں مل رہاہے ترکمانِ سخت کوش<br />
یہاں شاعر جن واقعات کی طرف اشارہ کر رہا ہے، وہ اس کے لیے شدید رنج و غم اور اضطراب کا باعث ہیں‘ اس لیے اس کے لب ولہجے میں قدرے گرمی و جوش کا پیدا ہونا فطری ہے ۔ پھر اس گرمی و جوش میں سوز وگداز بھی شامل ہے۔ ’’ صحر ا نوردی‘‘ کے حصے میں لہجہ دھیما اور نرم ہے۔’’ زندگی‘‘ چونکہ شاعر کے نزدیک’’ گردشِ پیہم‘‘ اور ’’ پیہم دواں ہر دم جواں‘‘ ہے جس میں انسان کو ’’ تیشہ و سنگِ گراں‘‘ سے سابقہ پیش آتا ہے اور اس کی ’’ قو ّتِ تسخیر‘‘ کی آزمایش بھی ہوتی ہے‘ اس لیے نظم کے اس حصے میں قدرے جوش و خروش پیدا ہو گیا ہے مگر دوسرے ہی بند میں شاعر نے :<br />
تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے<br />
اور :<br />
سوے گردوں نالہ ٔ شب گیر کا بھیجے سفیر<br />
رات کے تاروں میں اپنے رازداں پیدا کرے<br />
کہہ کر پُرجوش لب و لہجے (Tone)کو مدھم کر دیا ہے۔ یہ مدّ و جزر اور اتار چڑھاؤ نظم کے باقی حصوں میں بھی موجودہے ۔<br />
بحیثیت مجموعی نظم پر دھیما پن غالب ہے۔ اختتام بھی ناصحانہ ہے اور نصیحت نرم لہجے میں ہی کی جاتی ہے۔ لہجے کی نرمی اور دھیمے پن کا سبب ’’ خضر راہ‘‘ کے کرداروں ( شاعر اور خضر )کی حیثیت اور ان کا مقام و مرتبہ بھی ہے۔ شاعر کی حیثیت ایسے جویاے حق انسان کی ہے جو کائنات کے ان اسرار و رموز اور بین الاقوامی مسائل اور پیچیدگیوں کا حل چاہتا ہے جو اس کے ذہن کو الجھائے ہوئے ہیں۔ گویا خضر کے سامنے اس کی حیثیت ایک طالب علم کی ہے اور ظاہر ہے کہ طالب علم کا لہجہ جوش و خروش اور تندی و تیزی کا نہیں ‘ بلکہ نرمی اور ملائمت کا اور مؤدبانہ ہوتا ہے۔ دوسری طرف خضرؑ ایک صاحب علم اور صاحب نظر بزرگ ہیں۔ اس لیے ’’ اسرارِازل‘‘ کے لہجے میں نرمی او ر دھیما پن ‘ مقامِِ استاد کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔ جہاں ان کا لہجہ قدرے پرجوش ہوتا ہے ‘ وہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک استاد کوئی عالمگیرسچائی بیان کر رہا ہوتو دلائل و براہین کے ساتھ اس کے جذبات بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ <br />
’’ خضر راہ‘‘ میں لہجے کی نرمی اور دھیمے پن کے ساتھ بیان کی متانت اور سنجیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ اقبال نے سید سلیمان ندوی کے نام ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ لہجے میں دھیمے پن اور بیان میں متانت کا سبب خضر کا وہ کردار ہے جس کا تصو ّر ہم سورۃ الکہف کے مطالعے سے حاصل کرتے ہیں ۔ (اقبال نامہ‘ اول: ص ۱۱۹)<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%DA%88%D8%B1%D8%A7%D9%85%D8%A7%D8%A6%DB%8C_%DA%A9%DB%8C%D9%81%DB%8C%D8%AA*ڈرامائی کیفیت*2018-07-10T10:53:42Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> ’’خضرراہ‘‘ میں اقبال جو باتیں کہنا چاہتے ہیں ‘ قارئین ( یا سامعین ) کے لیے انھیں زیادہ..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
’’خضرراہ‘‘ میں اقبال جو باتیں کہنا چاہتے ہیں ‘ قارئین ( یا سامعین ) کے لیے انھیں زیادہ باوزن اور مؤثر بنانے کی خاطر انھوں نے خضر کے کردار کا سہارا لیا ہے اور اس طرح نظم میں ایک ڈرامائی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ <br />
ڈرامے کا پہلا سین ساحلِ دریا کا وہ منظر ہے جہاں شاعر دلِ مضطرب کے ساتھ محو نظارہ ہے۔ پورے ماحول پر ایک گہراسکوت چھایا ہوا ہے۔ جس کا حیرت افزا تأثر قاری میں تجسس پیدا کرتا ہے۔ وہ گہرے سکوت کے اس سمندر میں چھپے ہوئے کسی طوفان کا منتظر ہے‘ یہاں تک کہ خضر اسٹیج پر نمودار ہو کر مکالمے کی ابتدا کرتا ہے: <br />
…… اے جویاے اسرارِ ازل<br />
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب<br />
جواباً شاعر خضر سے مختلف سوالات پوچھنا شروع کرتا ہے۔ اس کے پاس سوالات کی ایک طویل فہرست ہے۔ شاعر کے ’’ جہانِ اضطراب‘‘ میں ایسی شدت ہے کہ وہ ایک سوال کرکے اس کے جواب کا انتظار نہیں کر سکتا بلکہ بیک وقت سارے سوالات خضر کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ ڈرامے کا باقی حصہ خضر کے طویل جواب پر مشتمل ہے۔ شاعر نے جس ترتیب کے ساتھ خضر کے سامنے حیات و کائنات اور بین الاقوامی سیاست کے بارے میں سوالات پیش کیے ہیں‘ وہ اسی ترتیب سے ان کے تفصیلی جوابات دیتے چلے جاتے ہیں ۔ حتیٰ کہ خضر کے جوابات کے دوران میں نظم کے اختتام تک شاعر کوئی مزید سوال نہیں کرتا۔ خضر کے جوابات اتنے جامع‘ مفصل اور شافی و کافی ہیں کہ شاعر کا ہمہ پہلو اضطراب پوری طرح رفع ہو جاتا ہے اور اسے مزید کوئی سوال حل کرنے کی حاجت نہیں رہتی۔ اس ڈرامائی کیفیت نے شاعر کے بیان کو زیادہ جاندار اور مؤثر بنا دیا ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=*%D9%81%D9%86%DB%8C_%D8%AA%D8%AC%D8%B2%DB%8C%DB%81**فنی تجزیہ*2018-07-10T10:29:47Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> ’’خضرراہ‘‘ ترکیب بند ہیئت کے گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ نظم بحر رمل مثمن محذوف الآخ..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
<br />
’’خضرراہ‘‘ ترکیب بند ہیئت کے گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ نظم بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کا وزن اور ارکان یہ ہیں: فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلْنَ<br />
٭نظم میں خضر کی کردار کی اہمیت:<br />
’’ خضرراہ‘‘ میں حیات انسانی اور دورِ حاضر کے چند مسائل پر بحث کی گئی ہے ۔ اقبالؔ نے نظم کے آغاز ہی میں خضر کے سامنے چند سوالات پیش کر کے قاری کی دلچسپی اور تجسس کو ابھارا ہے۔ سوالات کا خاتمہ اس شعر پر ہوتا ہے:<br />
آگ ہے ‘ اولادِ ابراہیم ہے ‘ نمرود ہے <br />
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے<br />
اب خضر سے جوابات سننے کا اشتیاق تمام حسیات کو سمیٹ کر سماعت کے مرکز پر لے آتا ہے اور قاری کویوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا پیغمبر یا فلسفی‘ کائنات اور زندگی کے اہم گوشوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اسٹیج پر آ کھڑا ہوا ہے۔ نظم میں یہ ڈرامائی کیفیت جس نے بیان کو زیادہ مؤثر‘ با وزن اور بھر پور بنا دیا ہے ‘ صرف اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ شاعر نے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خضر کے کردار کو ذریعہ یا واسطہ بنایا ہے۔ اگر اقبال زیر بحث مسائل پر سیدھے سادے طریقے سے ( بزبانِ خویش) اظہارِ خیال کر دیتے ( اور خضر کا کردار معرض گفتگو میں نہ لاتے ) تو ایک طرف تو نظم بالکل سپاٹ رہ جاتی اور دوسری طرف ان کے افکار و خیالات میں پیغمبرانہ فرمان کی وہ شان پیدا نہ ہوتی جو ہمیں نظم کی موجودہ صورت میں ملتی ہے۔ کیونکہ پہلی صورت میں اقبال جن خیالات کا اظہار کرتے وہ ایک انسان کا نتیجۂ فکر ہوتے ( جس کا علم بھی محدود ہے اور نظر بھی ) مگر موجودہ صورت میں خیالات ایک ایسی ہستی( خضر ) کے ہیں جو ’’ چشم ِ جہاں بیں ‘‘ ہے اور جس کے علم کا یہ حال ہے کہ : <br />
علم موسیٰ ؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش<br />
نظم میں اقبال نے اپنے افکار و خیالات کو جس تیقن ‘ اعتماد اور زورد ار طریقے سے پیش کیا ہے‘ اس کا سبب خضر کا کردار ہے اور نظم میں خضر کے کردار کی یہی اہمیت ہے۔<br />
مگر اس اہمیت کا ایک سبب اور بھی ہے ۔ نظم کے ابتدا میں ایک پر اسرار کیفیت طاری ہے جیسے ابھی ہمارے سامنے کسی طلسماتی دنیا کے اوراق کھلنے والے ہیں۔ یہاں قاری کی ذہنی کیفیت روایتی داستان سننے والے سامع سے مختلف نہیں۔ وہ پورے اشتیاق ‘دلچسپی اور انہماک کے ساتھ نظم کی طرف متوجّہ ہو جاتا ہے۔ اس کا سبب بھی خضر کا کردار ہے۔ اگر اقبال خضر کے کردار کا سہار ا نہ لیتے تو نظم کی طر ف قاری کو یوں متوجّہ کرنا اور اس کے لیے نظم میں اس درجہ انہماک پیدا کرنا ممکن نہ تھا۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B9%D8%A7%D9%84%D9%85_%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85عالم اسلام2018-07-10T10:27:17Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> ’’دنیاے اسلام‘‘ کے تحت اقبال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس کا پس منظر عالم اسلام ک..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
<br />
’’دنیاے اسلام‘‘ کے تحت اقبال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس کا پس منظر عالم اسلام کی وہ صورت حال ہے جس کاذکر ابتدا میں کیاگیا ہے۔ خضر سے شاعر کا سوال ہے: <br />
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفیٰ<br />
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش<br />
جواب میں خضر کہتے ہیں: <br />
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستاں<br />
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز<br />
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال عربوں اور ترکوں کی باہمی آویزش کے اسباب و علل اور نتائج و عواقب سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ اس کے بارے میں انھیں سخت تشویش تھی۔ پہلے شعر میں ’’ہاشمی ‘‘سے مراد مکہ کا شریف ( یعنی حکمران) حسین ہے۔ علامّہ کو اس بات کا سخت قلق تھا کہ عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کرکے ان کے خونِ ناحق سے ہاتھ رنگے۔ مغربیوں نے بھی پہلے جنگِ بلقان اور پھر جنگِ عظیم میں ترکوں کی قتل و غارت گری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا: <br />
ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو<br />
’’کلاہ ِلالہ رنگ‘‘ سے مراد خلافت ہے ۔ اس زمانے ( ۱۹۲۲ئ) میں ’’ نوجوان ترکوں ‘‘ خاص طور پر کمال اتاترک اور اس کے ہم خیال ساتھیوں نے ’’ خلافت‘‘ کے ادارے کو عضوِمعطل بنا کر رکھ دیا تھا۔ ان کے تیور بتارہے تھے کہ وہ خلافت کو، جوپہلے ہی براے نام تھی ‘ زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کریں گے۔ خلافت کی اس بے وقعتی پر اقبال ہی نہیں، ہندستان کے تمام زعما اور درد مند مسلمان بے چین تھے۔ تحریک خلافت اسی بے چینی ‘ ملی احساس اور درد مندانہ تڑپ کا نتیجہ تھی۔ اس اضطراب کے نتیجے میں ہندستان سے سیدامیر علی اور سر آغا خاں نے ترک لیڈروں کو خط لکھا کہ دنیا بھر کے مسلمان، خلیفہ کی موجودہ غیر موثر حیثیت سے مطمئن نہیں لہٰذا خلافت کو پورے اختیارات کے ساتھ بحال کیا جائے۔ مگر اتاترک نے ۱۹۲۴ء میں خلافت کی بساط لپیٹ دی۔ اقبال کے نزدیک حکمت مغرب ( عیارانہ ڈپلومیسی یا سیاسی چال بازی) زوال مسلم کا ایک سبب ہے اور دوسری وجہ خود مسلمانوں کا اپنے مذہب و اخلاق سے انحراف ہے۔ <br />
اقبال مسلمانوں کی اس حالت زار پر سخت متاسف ‘ بے چین اور مضطرب ہیں۔ وہ پھر اسی سنہرے دور کے منتظر ہیں جب دنیا کے ایک بڑے حصے پر اسلام کی حاکمیت قائم تھی۔ مگر اس کی واپسی کے لیے ضروری ہے کہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں نے اپنا جو (Image) بنا رکھا ہے ‘ اسے تبدیل کیا جائے مغربی تہذیب کی نقالی ‘ یورپ کی ذہنی غلامی اور اسلام کے بارے میں معذرت خواہانہ فرومایگی اسی کے مظاہر ہیں۔ یہ سب باتیں ’’ زمین و آسمانِ مستعار‘‘ کے ذیل میں آتی ہیں۔ جب تک مسلمان اسے پھونک نہیں ڈالتا اس وقت تک ’’ جہانِ نو‘‘ تعمیر ہونا ممکن نہیں ۔ نظم کے اس حصے میں اقبال نے فارسی کو فلسفۂ خودی کی طرف متوجہ کیا ہے۔ <br />
پھر مسلمانوں کی سربلندی ‘ دین کے تحفظ اور نظامِ اسلامی کے قیام کے لیے اتحادِ اسلامی ناگزیر ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا باہمی اتحاد فکرِ اقبال کا اہم پہلو ہے۔ اس کی بنیاد اسلام ہے نہ کہ وطن ‘ نسل ‘ رنگ یا زبان ۔ فکر اقبال کا یہ پہلو‘ قرآنی تعلیمات سے ماخوذ ہے:<br />
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا َتفَرَّقُوْا( آل عمران: ۱۰۳)سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔<br />
وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ (آل عمران: ۱۰۵) کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایات پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔<br />
علامّہ اقبال نے مسلمانوں کو ’’بتانِ رنگ و بو‘‘ کو توڑنے کا مشورہ دیا اس لیے کہ یورپ میں نسلی اور وطنی امتیاز کی بنیاد پر فروغ پانے والی قوم پرستی کے مہلک نتائج وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے۔ جناب وحید احمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’ اس زمانے میں سب سے بڑا دشمن‘ اسلام اور اسلامیوں کا، نسلی امتیاز و ملکی قومیّت کا خیال ہے۔ پندرہ برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا، اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلابِ عظیم پیدا کر دیا‘‘۔ ( انوار اقبال: ص ۱۷۶)<br />
عرب ترک آویزش کا سبب عصر نو کا یہی فتنہ ہے جس سے عرب دھوکا کھا گئے، مگر انھوں نے ابھی تک اس سے سبق نہیںسیکھا۔ اپنی داستانِ عبرت آج تقریباً ایک صدی بعد بھی عربوں کو متحد نہیں کر سکی۔ علامّہ اقبال کا یہ شعر عربوں کی موجودہ حالت کی تفسیر ہے: <br />
نسل اگر مسلم کی ‘ مذہب پر مقد م ہو گئی<br />
اڑ گیا دنیاسے تو مانندِ خاکِ رہ گزر<br />
یہ شعر اور اس بند کا آخر ی شعر: <br />
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش <br />
اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہشیار باش<br />
اسی آیت کریمہ ( وَ لَا تَفَرَّقُوْا…)کی تشریح ہے ۔ سیاسی اور بین الاقوامی سطح سے قطع نظر ‘ مسلمان دین و شریعت کی فروعی باتوں اور معمولی مسائل پر آپس میں الجھے ہوئے ہیں۔ مناظر ہ بازی اور شغلِ تکفیر مولویوں کا شیوہ بن چکا ہے ۔ ان کا سارا زور ایسے مسائل پر صرف ہو رہا ہے کہ حضراتِ صحابہؓ میں سیدنا ابوبکرؓ افضل تھے یا سیدنا علیؓ؟ اقبال مسلمانوں کو اس غلط روش سے محترز اور ہوشیار رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔آخری بند اختتامیہ ہے۔<br />
خضر نے اس سے پہلے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ عالم اسلام کے لیے سب سے بڑا فتنہ مغرب کی سرمایہ دارانہ تہذیب اور فرنگی سامراج ہے جس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی و اقتصادی اور ذہنی طور پر مسلمانوں کو تباہ کیاہے۔ دوسری طرف مغرب نے سائنسی ترقی کے سبب اپنی ہلاکت کا سامان خود مہیا کر لیا ہے۔ اب صورت حال بدل رہی ہے ۔ صیاد خود اپنے ہی دام میں الجھنے والا ہے۔ وہ زمانہ بہت قریب ہے جب سرمایہ دارانہ تہذیب اپنی موت آپ مرجائے گی۔ استعارے کی زبان میں یہ بات یوں بیان کی ہے: <br />
تو نے دیکھا سطوتِ رفتارِ دریا کا عروج<br />
موجِ مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ<br />
اس سے پہلے ’’شمع اور شاعر‘‘ میں اقبال کہہ چکے ہیں:<br />
دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل<br />
موجِ مضطر ہی اسے زنجیرِ پا ہو جائے گی<br />
اقبال کو یقین ِ کامل ہے کہ دنیا کی امامت کا منصب یورپی تہذیب کی خود کشی کے سبب خالی ہونے والا ہے ۔ مسلمان اپنی خاکستر سے ایک جہانِ نو تخلیق کرکے اس منصب کو سنبھالیں گے۔اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر وہ صراطِ مستقیم پر چلتے رہے تو یقیناً دنیا میں انھیں غلبہ و اقتدار حاصل ہو کر رہے گا۔ <br />
اَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (سورہ آل عمران: ۱۳۹)غلبہ و اقتدار تمھیں ہی حاصل ہوگا اگر تم مومن ہو۔<br />
اور اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد (سورہ آل عمران :۹) اللہ تعالیٰ اپناوعدہ کبھی خلاف نہیں کرتا۔<br />
ہر زماں پیش نظر لا یخلف المیعاد دار<br />
میں اسی آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%AD%D8%B3%D8%B1%D9%85%D8%A7%DB%8C%DB%81_%D8%AF%D8%A7%D8%B1%DB%8C٭سرمایہ داری2018-07-10T07:11:19Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> یورپ میں سرمایہ داری.ٗ تحریک نشأت ثانیہ ‘ لبرل ازم اور روشن خیالی کے پس منظر میں ابھر ی..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
یورپ میں سرمایہ داری.ٗ تحریک نشأت ثانیہ ‘ لبرل ازم اور روشن خیالی کے پس منظر میں ابھر ی تھی۔ مگر سرمایہ داروں نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیا کہ ان کی روشن خیالی دراصل خود غرضی تھی۔ انھوں نے صنعتی انقلاب کے فوائد لوٹنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ معاشیات کا باوا آدم، آدم سمتھ آزاد معیشت کا سب سے بڑا وکیل تھا مگر اسے بھی تسلیم کرنا پڑ ا ۔ کہ کاروباری لوگ جب کہیں باہم جمع ہوتے ہیں تو ان کی صحبت پبلک کے خلاف سازش پر اور قیمتیں چڑ ھانے کے لیے کسی قرارداد ہی پر ختم ہوتی ہیں۔حد یہ ہے کہ تقریبات میں بھی مل بیٹھنے کا جو موقع مل جاتا ہے ‘ اس کو بھی یہ حضرات اس جرم سے خالی نہیں جانے دیتے۔<br />
صنعتی انقلاب اور مشینوں کے فروغ سے دستی کاری گری کا خاتمہ ہوا اوربے روز گاری بڑھی۔’’بے روزگاری کسی ایک مسئلے کا نام نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی مادّی ‘ روحانی ‘ اخلاقی اور تمدنی زندگی کے بے شمار پیچیدہ مسائل کا مورثِ اعلیٰ ہے‘‘۔ اس بے روز گاری کے سبب سودا چکانے کی ساری طاقت سرمایہ دار کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی۔ افلاس اور خستہ حالی سے تنگ آکر مزدوروںکو کم اجرتوں پر بہت زیادہ وقت اور محنت کرنے پر راضی ہونا پڑا۔ وہ جانوروں کی طرح کام کرنے لگے۔ تنگ و تاریک مکانات میں رہنے لگے۔ ان کی صحتیں تباہ اور ذہنیتیں پست ہو گئیں۔ اخلاق بری طرح بگڑنے لگے۔ ( اسلام اور جدید معاشی نظریات: ص ۲۹- ۳۳)<br />
اقبال کہتے ہیں کہ سرمایہ دار، صدیوں سے مزدور کا استحصال کرتا چلا آرہا ہے۔ ’’ساحرِالموط‘‘ کا اشارہ حسن بن صباح ( م: ۱۱۲۴ئ) کی طرف ہے۔ یہاں اقبال واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ایک سرمایہ دار بھی حسن بن صباح ہی کی طرح مزدور کا استحصال کرتا ہے اور مزدور کے لیے اس کے ظلم و استحصال سے بچ نکلنا اتنا ہی مشکل ہے جس قدر کسی باطنی یافدائی کے لیے حسن بن صباح کے چنگل سے نکل بھاگنا۔ یہاں اقبالؔ نے مزدور کی سادگی اور سرمایہ دار کی مکاری او ر حیلہ سازی کی طرف بلیغ اشارے کیے ہیں۔ اب نانِ جویں کو ترسنے والا مزدور مظلومیت کی تصویر بنا مایوسی کے عالم میں کھڑا ہے ، اقبالؔ اسے نوید سناتے ہیں: <br />
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے<br />
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے<br />
اور:<br />
آفتابِ تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا<br />
یہاں اقبال کا اشارہ ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کی طرف ہے۔ چونکہ دعویٰ یہ کیا جارہا تھا کہ اب روس میں مزدوروں کی حکومت قائم ہو گئی ہے، ا س لیے اقبال مزدور سے مخاطب ہوتے ہیں کہ ’’ تیرے دور‘‘ کا آغاز ہو چکاہے۔ <br />
بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط تھا اور ہر جگہ مزدوروں کا استحصال ہو رہا تھا، اس لیے روس میں’’ مزدوروں کی حکومت‘‘ قائم ہونے کا تاثر پھیلا اور سرمایہ داری اور مغربی سامراج کے جبر و استبدادکے مقابلے میں روسی انقلاب کو بالعموم سراہا گیا۔ اقبال نے بھی اسی تاثر کے تحت مزدور کو ’’آفتاب تازہ ‘‘ کی نوید سنائی، تاہم ابھی روسی اشتراکیت کے حقیقی خدوخال سامنے نہیں آئے تھے اور بعد میں جب اس کے بھیانک چہر ے سے نقاب ہٹی تو اقبال یہ کہنے پر مجبور ہوئے: <br />
زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا<br />
طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی<br />
بنابریں یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ اقبال نے روسی انقلاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ انقلاب مزدوروں کے لیے مفید ثابت ہوگا مگر یہ کہنا درست نہیں ( جیسا کہ اقبال کے بعض مفسّروں کو غلط فہمی ہوئی ہے) کہ یہاں اقبال نے اشتراکی انقلاب کی تحسین و توصیف کی ہے یا انھوں نے مزدوروں کو اشتراکیت اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ ( یوں بھی یہ بات اقبال کے بنیادی افکا ر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ معاً بعد اگلی ہی نظم میں اقبال نے ’’ طلوعِ اشتراکیت‘‘ کی نہیں ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کی نویدسنائی ہے۔)<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%AD%D8%AC%D9%85%DB%81%D9%88%D8%B1%DB%8C%D8%AA:٭جمہوریت:2018-07-10T07:09:22Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> پانچویں صدی عیسوی میں رومن امپائر کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ یورپ کی تمدنی و سیاسی اور مع..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
پانچویں صدی عیسوی میں رومن امپائر کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ یورپ کی تمدنی و سیاسی اور معاشی وحدت بالکل پارہ پارہ ہو گئی۔ یورپ چھوٹے چھوٹے اجزا میں بٹ گیا اور نظام جاگیر داری (Feudal System)کا آغاز ہوا۔ کلیسا نے نوخیز نظامِ جاگیرداری سے موافقت کر لی (اور اس کا پشت پناہ بن گیا۔ یہ گویا ملوکیت کی نئی شکل تھی) پھر نشأت ثانیہ (Renaissance)کی ہمہ گیر تحریک سے یہ جمود ٹوٹا۔ خیالات‘ معلومات اور ترقی یافتہ طریقوں سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف کشمکش شروع ہوگئی۔ ان دونوں کے خلاف قوم پرستی کا بت تراشا گیا۔ دین و سیاست میں تفریق پیدا ہوئی۔ اخلاقی اقدار کمزور ہو گئیں۔ زندگی کے ہر شعبے اور راہِ عمل میں مکمل آزادی کا پرچار ہونے لگا۔ یہی خیالات جدید جمہوریت کی بنیاد بنے۔ <br />
جدید مغربی جمہوریت کو اقبال نے اسی لیے قدیم ملوکیت کی نئی شکل قرار دیا کہ نتائج کے اعتبارسے یہ بھی قیصریت سے مختلف نہ تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں دین و اخلاق کو سیاست سے بے دخل کر دیا گیا۔ تحریک نشأت ثانیہ کی انتہا پسندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ میکاولی جیسے لوگوں نے کھلم کھلا کہا کہ سیاست میں اخلاقی اصولوں کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں (اسی لیے علامّہ نے میکاولی کو ’’ مرسلے از حضرتِ شیطان‘‘ کہا ہے) اقبالؔ نے ’’ خضر راہ‘‘ میں دین و سیاست کی علاحدگی سے پیدا ہونے والے مفاسد کا ذکر اگرچہ بہت ہی اختصار کے ساتھ کیا ہے‘ مگر اس سلسلے میں اقبال کے نقطۂ نظر کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں : <br />
نظامِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو <br />
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی<br />
اور سیاست اگر’’لا دیں‘‘ ہو تووہ زہرِ ہلاہل سے بھی بڑ ھ کرخطرناک ہو گی۔<br />
جمہوریت کااستبدادی نظام ‘ جسے اقبال نے ایک جگہ ’’دیو بے زنجیر‘‘ کہا ہے ‘ نتائج کے لحاظ سے ملوکیت اور شہنشاہی کے نظام سے بھی بد تر اور سخت گیر ثابت ہوا۔<br />
اقبال کے نزدیک مغرب کے ظاہر و باطن میں واضح تفاوت ہے ۔ پیشانی پر رعایات‘ حقوق اور حمہوریت کے سائن بورڈلگے ہیں، قیامِ امن ‘ خوش حالی‘ ترقی اور آزادی کے فروغ کے لیے انجمنیں اور مجالس بنائی جاتی ہیں مگر جمہوری قبا میں ملبوس یہ ’’ دیو استبداد‘‘ اپنے پنجۂ ہوس سے کمزور قوموں کا شکار کھیلنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔ ’’ سرمایہ و محنت‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال کہتے ہیں : <br />
نسل ‘ قومیّت‘ کلیسا‘ سلطنت‘ تہذیب‘ رنگ<br />
خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات<br />
اس بلیغ شعر میں اقبال نے مغربی جمہوریت اور سامراجی نظام کے تلخ ثمرات (دین وسیاست کی علاحدگی ‘ نو آبادیاتی نظام ‘ نسلی امتیاز اور نیشنلزم کی لعنتوں) کی نشان دہی کی ہے۔<br />
آگے بڑ ھنے سے پہلے عام قاری کی ایک ذہنی خلش دور کرنا ضرور ی ہے۔ جمہوریت بظاہر کوئی بری شے نہیں تو پھر اقبال باربار مغربی جمہوریت کی برائیاں کیوں گنواتے ہیں اور اس کی مذمت کیوں کرتے ہیں؟<br />
مغربی جمہوریت کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ حاکمیت کا اختیار عوام کو ہے اور کثرتِ راے سے وہ جو فیصلہ چاہیں ‘ کر سکتے ہیں، یعنی حق و صداقت اور خوب و ناخوب میں تمیز کرنا عوام کا کام ہے ۔ گویا انھیں مادر پدر آزادی میسر ہوتی ہے۔ مگر انسانی معاملات اور مسائل بہت پیچیدہ ہیں اور اس کے مقابلے میں انسان کا علم محدود ہے ۔ اس کی ظاہر بیں نظریں ہر معاملے کی تہ اور اس میں پوشیدہ نتائج و اثرات تک نہیں پہنچ پاتیں۔ بسا اوقات وہ ’’جمہوری حق‘‘ کے بل بوتے پر ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جس میں اسے اپنا فائدہ نظر آتا ہے مگر وہ اس کے لیے کسی گڑ ھے میں گرنے کے مترادف ہوتی ہے، مثلاً: یہ جمہوریت ہی کا کرشمہ ہے کہ برطانیہ میں ہم جنسیت (Homo-sexuality)کو جائز ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ قانونی تحفظ موجود ہے اور اب امریکہ کی بعض ریاستوں میںہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی جواز مل گیا ہے۔ اسی طرح شراب نوشی طبی لحاظ سے صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ امریکی حکومت نے ۱۹۳۳ء میں شراب کی خرید و فروخت ‘ درآمد و برآمد‘ ساخت و پرداخت اور استعمال پر پابندی لگادی تھی، مگر امریکہ کے ’’ جمہور‘‘ نے شراب کی بندش کے قانون کو منسوخ کر ا دیا۔ وجہ کیا ہے؟ معاشرے میں اہل الراے ‘ فہمیدہ‘ جہاں دیدہ اور ملکی مسائل پر گہری نظر اور وقیع راے رکھنے والے لوگ ان لوگوں کے مقابلے میں اقلیت میں ہوتے ہیں جن کی اپنی کوئی راے نہیں ہوتی اور جنھیں کسی بھی فوری جذبے ‘ٖ اشتعال‘ لالچ ‘ خوف، ظاہر ی نفعے یا پرو پیگنڈے کے زور سے کسی ناجائز بات کے حق میں ہموار کرنا آسان ہوتا ہے۔ ’’ معیار‘‘ کو نظر انداز کرکے محض’’گنتی‘‘ کی بنیا د پر کیے جانے والے فیصلے بسا اوقات قوموں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ رائج الوقت جمہوریت کے اصول (One man one vote)کی رو سے تو قائد اعظم یا علامّہ اقبال جیسا صاحب ِ فہم و بصیرت شخص اور ایک ان پڑھ دیہاتی برابر کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی راے (ووٹ) کا وزن برابر ہے مگر دونوں کی تعلیم ‘ فہم و عقل‘ بصیرت و دانائی اور شعور و دانش میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان پڑھ دیہاتی بھی بطور انسان بلاشبہہ واجب الاحترام ہے مگر دستور و قانون‘ اور دانش و حکمرانی کے امور و معاملات بہرحال اسے نہیں سونپے جاسکتے خواہ وہ کتنی ہی کثیر تعداد میں ووٹ کیوں نہ لے لے۔ اس لیے محض کثرت ‘ کوئی پایدار بنیاد نہیں ہے۔ہٹلر کثرتِ راے والی جمہوریت کے خلاف یہ دلیل دیا کرتا تھا کہ اگر سو گدھے ایک طرف ہوں اور ایک انسان دوسری طرف… تو ایک انسان کی بات صائب سمجھی جائے گی‘ نہ کہ ( جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے ) سو گدھوں کی بات لائقِ ترجیح ہوگی۔ اقبال نے بھی یہی بات کہی ہے: <br />
گریز از طرز جمہوری غلامِ پختہ کارے شو<br />
کہ از مغزِ دو صد خر ‘ فکر انسانی نمی آید<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%82%D8%AF%DB%8C%D9%85_%D9%85%D9%84%D9%88%DA%A9%DB%8C%D8%AA_%D9%88%D8%B4%DB%81%D9%86%D8%B4%D8%A7%DB%81%DB%8C%D8%AAقدیم ملوکیت وشہنشاہیت2018-07-10T07:07:26Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> اقبال ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر یقین رکھتے تھے..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
اقبال ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت پر یقین رکھتے تھے۔ اقبال تمہیداً سلطانی و حاکمیت کے اس بنیادی اصول اور انسانی برہمنیت کے مختصر تذکرے کے بعد خواجگی کی قدیم صورت ( شہنشاہیت اور ملوکیت) کے بیان کی طرف آتے ہیں۔<br />
قدیم ملوکیت کی بنیاد ہوس کے ’’پنجۂ خونیں‘‘ اور جبر و استبداد پر استوار تھی۔ وضاحت کے لیے اقبال نے ’’رمز آیہ اِنَّ الْمَلُوْکَ‘‘کہہ کر قرآنی تلمیح کاسہارا لیا ہے۔ سورۃ النمل میں آتا ہے:<br />
اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا وَ جَعَلُوْا اَعِزَۃَّ اَہْلِہَا اَذِلَّۃٌ (سورۃالنمل: ۳۴)بادشاہ جب کسی ملک میں گھس آتے ہیں تو اسے خراب اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔<br />
علامّہ اقبال، قرآنی تلمیح کے حوالے سے جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، مولانا مودودی نے بہت عمدہ پیراے میں اس کی وضاحت کی ہے۔ مذکورہ قرآنی آیت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا لکھتے ہیں:<br />
’’ اس ایک فقرے میں امپیریلزم اور اس کے اثرات و نتائج پر مکمل تبصرہ کر دیا گیا ہے۔ بادشاہوں کی ملک گیری اور فاتح قوموں پر دست درازی کبھی اصلاح اور خیر خواہی کے لیے نہیں ہوتی ۔ اس کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ دوسری قوم کو خدانے جو رزق دیا ہے اور جو وسائل و ذرائع عطا کیے ہیں ، اس سے وہ خو د متمتع ہو ں اور اس قوم کو اتنا بے بس کر دیں کہ وہ کبھی ان کے مقابلے میں اپنا سر اٹھا کر اپنا حصہ نہ مانگ سکے ۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی خوش حالی اور طاقت اور عزت کے تمام ذرائع ختم کر دیتے ہیں۔ اس کے جن لوگوں میں بھی اپنی خودی کا دم داعیہ ہوتا ہے، انھیں کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ اس کے افراد میں غلامی، خوشامد ، ایک دوسرے کی کاٹ ، ایک دوسرے کی جاسوسی ، فاتح کی نقالی ، اپنی تہذیب کی تحقیر، فاتح تہذیب کی تعظیم اور ایسے ہی دوسرے کمینہ اوصاف پیدا کردیتے ہیں اور انھیں بتدریج اس بات کا خوگر بنا دیتے ہیں کہ وہ اپنی کسی مقدس سے مقدس چیز کو بیچ دینے میں تأمّل نہ کریں اور اجرت پر ہر ذلیل سے ذلیل خدمت انجام دینے کے لیے تیار ہو جائیں‘‘۔ (تفہیم القرآن:حصہ سوم: ص ۵۷۳)<br />
ملوکیت کی انھی چالبازیوں اور مکاریوں کو اقبال نے جادو گری، ساحری، سازِ دلبری اور طلسم ِ سامری کا نام دیا ہے۔ سراج الدین پال کے نام ایک خط میں ’’ حکمران کی ساحری‘‘ کی تشریح وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:’’ انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہے کہ یہ اپنے صید پر ایسا اثرڈالتا ہے ، جس سے انحطاط کا مسحور اپنے قاتل کو اپنا مربی تصو ّر کرنے لگ جاتا ہے ۔ یہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے‘‘۔<br />
مطلق العنان حکمرانوں نے ہر دور میں بے بس اور کمزور انسانوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا۔ فراعنۂ مصر ، تیمور ، چنگیز خان ، ہلاکو خان اور قدیم شاہانِ روم اس کی ادنیٰ مثالیں ہیں۔ دنیا کی کوئی قوم ملوکانہ چنگیزیت سے محفوظ نہیں رہی۔ بقول اقبالؔ: <br />
ازو ایمن نہ رومی نے حجازی است!<br />
شخصی حکومتوں میں بادشاہ اپنے سحر کو قائم رکھنے کے لیے اشرفیوں اور جاگیروں کی تقسیم اور لکھ ہزاری مناصب اور خلعتوں کے عطا ایسے حربوں سے کام لیتے تھے جبکہ جدید دور میں تمغے ، اعزازات اور اونچے مناصب اسی مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں ’’سازِدلبری‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں: <br />
شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو<br />
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوق ِ نخچیری<br />
ان ’’ساز ہاے دلبری ‘‘کو انسان کے حلقۂ گردن میں ڈال کر اسے رسوا کیا گیا۔ حالانکہ وہ فطرتاً آزاد پیدا کیا گیاہے۔ اس عالم میں ملوکیت کے لیے جبر و استبداد کا کھیل جاری رکھنا مشکل نہیں ہوتا : <br />
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی<br />
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوے غلامی میں غلام<br />
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جبر و استبداد کایہ سلسلہ جب ایک خاص حد سے آگے بڑ ھ جاتا ہے توفطرت مداخلت کرکے ظالم کا ہاتھ روک دیتی ہے اور اسی قوم سے کوئی ایسافر د پیدا ہوتا ہے یا کوئی ایسی تحریک اٹھ کھڑی ہوتی ہے جو استبداد کا تختہ الٹ کر ملوکیت کو اس کی قبر میں دفن کر دیتی ہے:<br />
خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں<br />
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسمِ سامری<br />
فراعنۂ مصر‘ قیصرانِ روم ‘ اکاسرۂ ایران ‘ شاہانِ یونان اور دنیا کے دوسرے جابر حکمرانوں اور شخصی ملو کیتوں کا زوال اسی شعر کی ادنیٰ تفسیر ہے۔ اس شعر میں جو تلمیحات استعمال ہوئی ہیں‘ ان کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ فرعون کے گھرانے میں پرورش پا کر جوان ہوئے ۔ ایک روز شہر میں گھوم رہے تھے کہ ایک جگہ انھوں نے ایک اسرائیلی اور قبطی کو دست و گریبان دیکھا۔ قبطی حکمران قوم سے تعلق رکھتا تھا اور اسرائیلی رعایاتھے۔ فرعون کی سلطنت میں ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے تھے ۔ حضرتِ موسیٰ ؑ یہ منظر دیکھ کر اپنے جذبات پر قابونہ رکھ سکے اور انھوں نے اسرائیلی کو پٹتا دیکھ کر اس کے مد ِ ّ مقابل قبطی کو ایک زوردار گھونسا رسید کیا‘جس سے وہ موقع ہی پرہلاک ہو گیا: ’’خونِ اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں‘‘کا ایک اشارہ تو اسی واقعے کی طرف ہو سکتا ہے۔<br />
دوسرے مصرعے میں ’’ طلسم سامری‘‘ کی تلمیح استعمال کی گئی ہے۔ یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ بنی اسرائیل کو لے کر جزیرہ نماے سینا میں پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیس شب و روز کے لیے کوہِ طور پر طلب کیا ۔ آپ کی غیر حاضری میں ’’سامری‘‘ نامی ایک شخص نے سونے کو پگھلا کر ایک بچھڑے کی شکل بنائی ۔ یہ بچھڑا زندہ بیلوں کی سی آواز نکالتا تھا۔ بنی اسرائیل اس بچھڑے کی پرستش کرنے لگے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے واپسی پر یہ ماجرا دیکھا تو انھیں سخت غصہ آیا۔ انھوں نے اپنی قوم کو لعنت و ملامت کی۔ سامری کا معاشرتی مقاطعہ کیا گیا یا وہ کوڑھ ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C_%DA%A9%DB%8C_%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%D8%AAزندگی کی حقیقت2018-07-10T07:05:42Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> شاعر کا دوسرا سوال انسانی زندگی کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں ہے۔ انسانی زندگی کی حقیقت ا..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
شاعر کا دوسرا سوال انسانی زندگی کی حقیقت و ماہیت کے بارے میں ہے۔ انسانی زندگی کی حقیقت اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتی جب تک اس کائنا ت اور دنیاکی تخلیق کی اصل غرض و غایت کا پتا نہ چلے۔ کائنات اور انسان کے بارے میں دو نظریے اہم اور قابلِ لحاظ ہیں:<br />
ایک نظریے کے مطابق کائنا ت کی تخلیق محض اتفاقی ہے۔ کائنات کی تمام چیزیں جن میں ہماری دنیا اور اس کے باسی بھی شامل ہیں خود بخود وجود میں آگئی ہیں۔ اور ان کی خلقت کا سبب مادّے کے سوا کوئی اور شے نہیں۔ ڈاکٹر یوسف حسین خاں نے اسے حیات و کائنات کی ’’ فطری توجیہ‘‘ کا نا م دیا ہے۔ قدیم ملوکیت اور شاہی نظام، تہذیب ِ مغرب اور سرمایہ داری ، مارکسی فکر اور کمیونزم … سب اسی نظریے کی پیداو ار ہیں۔ اقبال کے خیال میں ان سب نظاموں نے انسانیت کو دہکتے ہوئے جہنم کے کنار ے پہنچا دیا ( علامّہ اقبال کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا نشری پیغام: حرفِ اقبال، ص ۲۲۴- ۲۲۵) دوسرے گروہ نے انسان کو لاچار و بے بس ، مجبور ، عاجز اور مسکین قرار دیا۔ زندگی ایک وبال ٹھہری۔ ارسطو کا قول ہے: ’’پیدا نہ ہونا سب سے اچھا ہے اور موت زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ رواقیت (Stoicism) کے نظریات پیدا ہوئے ۔حکما و رواقیّین کے نزدیک انسان کا خود اپنے آپ کو قتل کرنا کوئی برا کام نہیں تھابلکہ ایک ایسا باعزت فعل تھا کہ لوگ جلسے کرکے ان میں خودکشیاں کیا کرتے تھے۔ حد یہ ہے کہ افلاطون جیسا حکیم بھی اسے کوئی معصیت نہیں سمجھتا تھا۔ ( سید ابوالاعلیٰ مودودی: الجہادفی الاسلام: ص ۱۹) شوپن ہار کے فلسفے کاخلاصہ یہ ہے کہ دنیا ایک خراب آباد یا زندوں کی دوزخ ہے۔ تیاگ، رہبانیت، ترکِ دنیا اور عجمی تصو ّف کو انھی بنیادوں پر فروغ ہوا۔ یہ نظریہ دنیا میں امن و سلامتی اور خوش حالی کا موجب نہیں ہو سکتا۔ <br />
حیات و کائنات کے بارے میں دوسرا نظریہ اسلام کا ہے ۔ جس کے مطابق اس کائنات کو ایک بلند و برتر ہستی نے ،جور ب العالمین ہے،تفریح طبع کی خاطر نہیں بلکہ ایک خاص مقصد کے پیش ِ نظر تخلیق فرمایا ہے۔ کائنات کا نظام اس کے مقررہ اصولوں کے مطابق چل رہا ہے۔ کائنات کی کوئی شے رب العالمین کے حکم سے سر مو انحراف نہیں کر سکتی۔ اس نظام میں انسان کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ دیگر مخلوقات کو اس کی خدمت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ انسان قدرت کے مخفی خزانو ںکو اپنے کام میں لاتے ہوئے زندگی کونہ صرف بہتر اور خوش حال بناسکتا ہے بلکہ اسے ایسا کرنے کی تاکیدکی گئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ وہ چند اصولوں اور قوانین کی پابندی کرے ۔ احکام و فرائض کا خیال رکھے اور اوامر و نواہی کو بجالائے۔ ان کے بارے میں وہ جوا ب دہ ہے ۔ یہی تصو ّرآخرت ہے۔ جواب دہی کی پابندی انسان پر اس لیے عائد کی گئی کہ اس کی سر گرمیوں میں تواز ن قائم رہے۔ اسی کو ’’ فلاح و کامرانی‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ <br />
مختصر اً، اس قرآنی فکر کو ہم تین پہلوؤں میں تقسیم کر سکتے ہیں:<br />
۱۔ انسانی شرف و فضیلت اور عظمت آدم<br />
۲۔ انسانی زندگی میں عمل و حرکت کی اہمیت اور اس کی قو ّت تعمیر و تسخیر( خودی) <br />
۳۔ زندگی کی ناپایداری اور امتحان گاہ( تصو ّرِآخرت) <br />
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے اقبال کے نزدیک انسانی زندگی ا ور اس کے شرف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے اندر جرأت و بے باکی ، وسیع النظری، بلندہمتی، استقلال اور ’’گرم دم جستجو‘‘ ’’ نرم دم گفتگو‘‘ جیسی خصوصیات و کیفیات پیدا ہوں ۔ وہ امروز و فردا کے چکر میں الجھے نہ سود و زیاں کے اندیشے میں مبتلا ہو۔ یہ سب باتیں اس لیے ضروری ہیں کہ انسان کے لیے کارِجہاں بہت دراز ہے۔ اس مصرعے: ’’جاوداں، پیہم دواں، ہردم جواں ہے زندگی‘‘ کی تشریح اقبال کے ہاں جابجا ملتی ہے: <br />
ستار وں سے آگے جہاں او ر بھی ہیں<br />
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں<br />
ہر لحظہ نیا طور ، نئی برق تجلی<br />
<br />
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے<br />
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا<br />
<br />
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں<br />
زندگی کے اسی تحرک میں سرِّآدم مضمر ہے۔ یہ سر آدم کیا ہے؟ تسخیر و تعمیرکائنات کی وہ قوّت جو انسانی زندگی میں پنہاں ہے ۔یہ قو ّت اسی صورت پیدا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے اندر خدا کی ودیعت کر دہ خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرے۔ یہ دوسری چیز ہے جس پر نظم کے اس حصے میں اقبال نے زور دیا ہے۔ <br />
۲۔ تسخیر و تعمیر کائنات، فکر اقبال کا ایک اہم پہلو ہے جو براہِ راست قرآ ن پاک سے ماخوذ ہے۔ دراصل انسان کو کائنات کی مخلوقات پر جو فضیلت عطاکی گئی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی پوری صلاحیت اور استعداد کو بروے کار لاکر زندگی کو اسلامی معیاروں کے مطابق بہتر اور حسین بنانے کے لیے پیہم جدوجہد کرے اور اسی کا نام جہاد ہے ۔ اسلام میں جہاد پر جس قدر زور دیا گیا ہے، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے انسان کی قو ّتِ تعمیر و تسخیر کے ذکر کو انتہائی مربوط شکل میں پیش کیا ہے۔<br />
۳۔حیات و کائنات کا تیسراپہلو یہ ہے کہ دنیا ایک ناپایدار چیز ہے اور یہ انسان کے لیے دارالامتحان ہے۔ اس سلسلے میں قرآنی فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس کے اعمال کاحسا ب لیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ ملے گا۔ زندگی کے اس تیسرے پہلو کو اقبال نے صرف ایک شعر میں بیان کر دیا ہے: <br />
قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانندِ حباب<br />
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی<br />
اقبال چاہتے ہیں کہ انسان دنیا کی اس آزمایش گاہ سے، جو اس کے لیے دارالامتحان ہے ، کندن بن کر نکلے۔ امتحان کی اس تیاری کے لیے وہ انسان کو باربار اس کے امتیازوشرف کا احساس دلاتے، اس کے ذوقِ عمل و جدوجہد کو ابھارتے اور خاتمے پر ایک بار پھر اسے آزمایش کے لیے تیار ہونے کی ہدایت کرتے ہیں: <br />
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے<br />
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے<br />
اس شعر کی تنبیہ نما نصیحت کا مخاطب بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان اور ضمناً ہندی مسلمان ہے۔ ۲۲- ۱۹۲۱ء میں عالم اسلام کے سیاسی و تہذیبی حالات کا مطالعہ کیاجائے تو ’’ یہ گھڑی محشر کی ہے‘‘ کی صداقت سمجھ میں آتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ابھی تک غفلت کی نیند سور ہا ہے۔ <br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%AD%D8%B5%D8%AD%D8%B1%D8%A7_%D9%86%D9%88%D8%B1%D8%AF%DB%8C_%D8%A7%D9%88%D8%B1_%DA%AF%D8%B1%D8%AF%D8%B4%D9%90_%D9%BE%DB%8C%DB%81%D9%85٭صحرا نوردی اور گردشِ پیہم2018-07-10T07:04:24Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> خضر سے شاعر کا پہلا سوال یہ ہے : چھوڑ کر آبادیاں، رہتا ہے تو صحرا نورد زندگی تیری ہے بے ر..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
خضر سے شاعر کا پہلا سوال یہ ہے : <br />
چھوڑ کر آبادیاں، رہتا ہے تو صحرا نورد<br />
زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش<br />
یعنی خضر کو صحرا نوردی اس قدر عزیز کیوں ہے؟<br />
دراصل اقبال طبعاً صحرائیت اور بدویت پسند ہیں اور اپنی اس پسندیدگی کے اظہار و بیان کے لیے ایک سوال کی صورت میں وجہ جواز پیدا کی ہے۔ صحرا نوردی کا اقبال کے بنیادی فلسفے سے گہرا تعلق ہے۔<br />
اقبال کی شاعری کی بنیاد ان کا انقلابی فکر ہے ۔ ان کے نزدیک فرد کی بقا، قوموں کی تعمیر و ترقی اور تسخیرِ کائنات کے لیے محنت ِ پیہم، جہدِ مسلسل، کشمکش و معرکہ آرائی، سعی و عمل اور سخت جانی و سخت کوشی کی خصوصیات بہت ضروری ہیں۔ چونکہ ان اوصاف کی پختگی میں صحرانوردی سے مدد ملتی ہے، اس لیے انھیں صحرا نوردی عزیز ہے۔ جب انسان صحر ا نوردی کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے تو وہ ایسے ذوق و شوق سے آشنا اور ایسی لذت سے ہم کنار ہوتا ہے جو اسے راحت و اطمینان اور عیش کوشی کی زندگی میں کبھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ صحرا نوردی کو پرکشش بنانے کے لیے اقبال اب ایک پر لطف صحرائی منظر کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔ اس منظر کا نقشہ یہ ہے: <br />
صحرا میں کسی نخلستان کے آس پاس کوئی قافلہ اترا ہوا ہے۔ یہ قافلہ ہماری دنیا کے لوازمات سے بے پروا اور سفر کے دنیاوی پیمانوں سے بے نیاز ہے۔ نخلستان کے چشمے پر اہل کرواں کا جمگھٹا دیکھ کر جنت کے کوثر و تسنیم اور سلسبیل کی یاد تازہ ہوتی ہے جس کے گرد مومنین ساقی ِ کوثر کے ہاتھوں آبِ حیات پینے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ نخلستان کے گرد، دور دور تک ریت کے ٹیلے بکھرے ہوئے ہیں اور ان پر آہوانِ صحرائی ایک شانِ بے نیازی اور اندازِ دل ربائی کے ساتھ محو خرام ہیں اور اب شام ہو گئی ہے۔ صحرا میں چاروں طرف کامل سکوت چھایا ہوا ہے۔ ایسے میں غروبِ آفتاب کامنظر کس قدر دل فریب و دل آویز ہے۔ سیکڑوں سال پہلے غروبِ آفتاب کا ایسا ہی منظر حضرت ابراہیم ؑ کے لیے بصیرت افروزی اور خداشناسی کا پیغام لایاتھا۔ (قرآن پاک کی سورۃ الانعام میں یہ واقعہ تفصیل سے مذکور ہے) اسی صحرا میں شام کے وقت جب آفتاب بالکل غروب ہونے کو ہے ، ایک قافلہ اپنا سامانِ سفر تازہ کرنے کے بعد اگلی منزل کے لیے روانہ ہو رہاہے۔ فضاے دشت میں بانگ ِ رحیل بلند ہو رہی ہے ۔ رات ڈھل رہی ہے۔ صبح صادق قریب ہے۔ مشرق سے ستارۂ سحری نمودار ہوا ہے۔ اس کی نمود میں ایسا حسن ، رعنائی اور لطافت ہے کہ بامِ گردوں سے جبریلِ امین جھانکتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان حسین مناظر اور پاکیزہ کیفیات کی دل آویزی میں کچھ ایسی کشش ہے کہ محبت کے سودائی ،مادّی زندگی کی آلودگیوں سے فرار ہو کر ویرانوں (بالفاظ دیگر دل فریب صحراؤں) کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں۔<br />
بدویت کا ایسا بھر پور مرقع پیش کرنے کے بعد وہ قاری کو اس نتیجے تک لے آتے ہیں کہ کسی کو اس صحرا نوردی پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ انسانی زندگی اسی صحرا نوردی ، تگاپوے دمادم، سخت جانی اور سرگرانی سے عبارت ہے اور حیاتِ انسانی کاوجود انھی خصوصیات کا مرہونِ منت ہے۔ <br />
مگر اس سے قطع نظر اقبال کی صحرائیت پسندی کے کچھ اور وجوہ بھی ہیں :<br />
ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کا کہنا بالکل بجا ہے:’’ اقبال دشت ِ حجاز پر مٹا ہوا ہے‘‘ عبدالسلام ندوی کے خیال میں اس کا سبب یہ ہے کہ دورِ اول کے مسلمانوں کا اصلی مولدومنشا ہی صحراے عرب ہے… عرب کی سادہ، صحرائی اور بدویانہ زندگی ہی نے دورِ اول کے مسلمانوں میں فاتحانہ اخلاق پیدا کیے تھے… پھر یہ کہ صحرائی زندگی میں …تکلف و تصنع کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے اخلاق ، مذہب اور معاشرت سب اپنی اصلی حالت پر قائم رہتے ہیںاور فطرت کا جو منشاہے ، وہ پورا ہوتا رہتا ہے… صحرا نشین آدمی میں قو ّتِ برداشت بہت زیادہ ہوتی ہے اور قناعت پسندی کے سبب اس کی ضروریات اور مطالبے نسبتاً بہت کم ہوتے ہیں۔ کسی بڑے شہر کے باسی یک متمدن انسان میں وہ جوش و لولہ نہیں ہوتاجو عام طورپرصحرا نشینوں میں پایا جاتا ہے: <br />
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی<br />
یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی<br />
صحرا کی بے سروسامانی اور خود دارانہ زندگی کا نام اقبال کی اصطلاح میں ’’ فقر‘‘ ہے ۔ فقر کی بدولت صحرائی علاقوں سے مجدد ، رفارمر اور پیغمبر اٹھتے رہے ہیں۔ اقبال روحانی اور جسمانی قو ّتوں کے حصول کے لیے صحرائیت و بدویت کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ یہی قو ّت دین و دنیا کی سعادتوں کا سنگ بنیاد ہے۔ ( اقبال کامل: ص ۲۸۱- ۲۸۲)<br />
پروفیسر آسی ضیائی کے خیال میں اقبال کی بدویت پسندی کا ایک اہم نفسیاتی سبب ان کے ’’اس ردّ ِ عمل میں دیکھا جا سکتا ہے جو ان کے ذہن میں فرنگی تہذیب کے خلاف پیدا ہوا۔ چونکہ یورپ کی سائنسی اور علمی سرگرمیوں کے سوا، انھیں یورپ کی ہر چیز سے تنفّر ہو گیا تھا، اس یورپ کی تمدنی زندگی کی سطحیت ، تصنع اور عافیت سوزی بھی بری طرح کھٹکنے لگی اور انھوں نے محسوس کیا کہ تمدن کی اس انتہا پر پہنچنے کے بعد انسان کے لیے تباہی ہی تباہی ہے جس سے پناہ، صحرا و کوہساری کے پرسکون ماحول میں مل سکتی ہے۔ ( کلام اقبال کا بے لاگ تجزیہ: ص ۱۶۹۔۱۷۰) <br />
اقبال خودکو ’’لالۂ صحرایم‘‘ کہتے ہیں۔ انھیں لالۂ صحرا سے خاص انس ہے۔ وہ بار بار اس کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ یہ بھی ان کی بدویت پسندی کی دلیل ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=*%D9%81%DA%A9%D8%B1%DB%8C_%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2%DB%81**فکری جائزہ*2018-07-10T07:01:02Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے، مختلف مسائل اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خضر کے روایتی کردا..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
زیر مطالعہ نظم میں اقبال نے، مختلف مسائل اپنے خیالات کے اظہار کے لیے خضر کے روایتی کردار کا سہارا لیا ہے۔ <br />
'''٭خضر کی شخصیت'''<br />
<br />
خضر کی شخصیت کے بارے میں تاریخی اور ادبی روایات معروف تو ہیں مگر مستند نہیں اور ان کی روشنی میں کسی واضح نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں۔ قرآن و حدیث میں خضر کا تذکرہ موجود ہے اور یہ ماخذ زیادہ یقینی ، مستند اور معتبر ہے۔<br />
قرآن پاک کی سورۃ الکہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعے کا تعلق اس دور سے ہے جب مصر میں بنی اسرائیل پر فرعون کے مظالم کا سلسلہ جاری تھا۔ قرآن پاک کے مطابق یہ واقعہ اس طرح ہے: <br />
’’ (ذرا ان کو وہ قصہ سناؤ جو موسیٰ ؑ کو پیش آیا تھا )جبکہ موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا تھاکہ’’میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک کہ دونوں دریاوں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں، ورنہ میں ایک زمانۂ دراز تک چلتا ہی رہوںگا‘‘۔ پس جب وہ ان کے سنگم پر پہنچے[غالباً موسیٰ ؑ کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریاے نیل کی دو بڑی شاخیں البحرالابیض اور البحر الارزق آکر ملتی ہیں۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ: تفیہم القرآن، جلد سوم، ص ۳۵]تو اپنی مچھلی سے غافل ہو گئے اور وہ نکل کر اس طرح دریا میں چلی گئی جیسے کہ کوئی سرنگ لگی ہو۔ آگے جاکر موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا:’’ لاؤ ہمارا ناشتا، آج کے سفر میں تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں‘‘۔ خادم نے کہا: ’’آپ نے دیکھایہ کیا ہوا؟جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے تھے، اس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کاذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا۔ مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی‘‘۔ موسیٰ نے کہا’’اس کی تو ہمیں تلاش تھی‘‘۔ چنانچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر پھرواپس ہوئے اور وہاں انھوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا، جسے ہم نے اپنی رحمت سے نوازا تھا اور اپنی طرف سے ایک خاص علم عطا کیا تھا۔ <br />
’’ موسیٰ نے اس سے کہا:’’ کیا میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ آپ مجھے بھی اس دانش کی تعلیم دیں جو آپ کو سکھائی گئی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کرسکتے اور جس چیز کی آپ کو خبر نہ ہو، آخر آپ اس پر صبر کربھی کیسے سکتے ہیں۔‘‘ موسیٰ نے کہا:’’ ان شاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ ‘‘ اس نے کہا:’’ اچھا ، اگر آپ میرے ساتھ چلتے ہیں تو مجھ سے کوئی بات نہ پوچھیں، جب تک کہ میں خود اس کا آپ سے ذکر نہ کروں‘‘۔<br />
اب وہ دونوں روانہ ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ ایک کشتی میں سوار ہوگئے تو اس شخص نے کشتی میں شگاف ڈال دیا۔ موسیٰ نے کہا :’’آپ نے اس میں شگاف ڈال دیا تاکہ سب کشتی والوں کو ڈبودیں؟ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی‘‘۔ اس نے کہا:’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ‘‘؟ موسیٰ نے کہا:’’بھول چوک پر مجھے نہ پکڑیے ، میرے معاملے میں آپ ذرا سختی سے کام نہ لیں‘‘۔<br />
’’ پھر وہ دونوں چلے۔ یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اس شخص نے اسے قتل کردیا۔ موسیٰ نے کہا:’’ آپ نے ایک بے گناہ کی جان لے لی، حالانکہ اس نے کسی کا خون نہ کیا تھا۔ یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا‘‘ ۔اس نے کہا:’’ میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے‘‘۔ موسیٰ نے کہا:’’ اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ پوچھوں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھیں۔ لیجیے، اب تو میری طر ف سے آپ کو عذر مل گیا‘‘۔<br />
’’ پھر وہ آگے چلے، یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور وہاں کے لوگوں سے کھانا مانگا۔ مگر انھوں نے ان دونوں کی ضیافت سے انکار کر دیا۔ وہاں انھوں نے ایک دیوار دیکھی جو گراچاہتی تھی۔ اس شخص نے اس دیوار کو پھر قائم کر دیا۔ موسیٰ نے کہا: ’’ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی اجرت لے سکتے تھے‘‘۔ اس نے کہا: ’’ بس ، میرا تمھارا ساتھ ختم ہوا۔اب میں تمھیں ان باتوں کی حقیقت بتاتاہوں ، جن پر تم صبر نہ کر سکے۔ اس کشتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ چند غریب آدمیوں کی تھی جو دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں کیونکہ آگے ایک ایسے بادشاہ کا علاقہ تھا جو ہر کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ رہا وہ لڑکا تو اس کے والدین مومن تھے، ہمیں ا ندیشہ ہوا کہ یہ لڑکا اپنی سرکشی اور کفر سے ان کو تنگ کرے گا۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ ان کا رب اس کے بدلے ان کو ایسی اولاد دے جو اخلاق میں بھی اس سے بہتر ہو اور جس سے صلہ رحمی بھی زیادہ متوقع ہو اور اس دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ یہ دو یتیم لڑکوں کی ہے جو اس شہر میں رہتے ہیں۔ اس دیوار کے نیچے ان بچوں کے لیے ایک خزانہ مدفون ہے اور ان کاباپ ایک نیک آدمی تھا، اس لیے تمھارے رب نے چاہا کہ یہ دونوں بچے بالغ ہو ں اور اپنا خزانہ نکال لیں۔ یہ تمھارے رب کی رحمت کی بنا پر کیا گیا ہے۔ میں نے کچھ اپنے اختیار سے نہیں کر دیا ہے۔ یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر تم صبر نہ کر سکے‘‘۔ ( سورۃ الکہف: ۶۰۔۸۲ ترجمہ قرآنِ مجید از سیّد ابوالاعلیٰ مودودی: ص۷۶۹۔۷۷۳)<br />
اس واقعے میں محض ایک ’’ بندے ‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام نہیں بتایا گیا مگر معتبر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کانام خضر ہے۔<br />
قرآن پاک کے بیان کردہ مندرجہ بالا واقعے کے مطابق حضرت خضرؑ کے بارے میں یہ وضاحت نہیں ملتی کہ وہ انسان تھے یا کوئی غیرانسانی مخلوق؟ البتہ یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں عقل و دانش کی غیر معمولی صلاحیت عنایت کی تھی۔ اسی لیے حضرت موسیٰ ؑ بھی دانش کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس پہنچے۔<br />
علما کا رجحان یہ ہے کہ خضر ایک غیر انسانی شخصیت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے تفویض کردہ امور و افعال کی انجام دہی کے لیے مقرر ہے۔ بھولے بھٹکوں کی راہنمائی بھی ان میں سے ایک کام ہو سکتا ہے۔<br />
<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D8%AE%D8%B6%D8%B1_%D8%B1%D8%A7%DB%81خضر راہ2018-07-10T06:57:54Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> '''٭تعارف اور پس منظر''' ’’خضر ِراہ‘‘ علامّہ اقبال نے انجمن حمایت ِاسلام لاہور کے..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
'''٭تعارف اور پس منظر''' <br />
<br />
’’خضر ِراہ‘‘ علامّہ اقبال نے انجمن حمایت ِاسلام لاہور کے ۳۷ ویں سالانہ جلسے، منعقدہ ۱۶ اپریل ۱۹۲۲ئ، میں ترنم سے پڑ ھ کر سنائی ۔ یہ جلسہ اسلامیہ ہائی سکو ل شیراں والا گیٹ میں منعقد ہوا تھا۔ چودھری محمد علی بتاتے ہیں: ’’ جلسے سے چند روز قبل ان کی طبیعت ناساز تھی، مگر عین جلسے کے دن ان کی طبیعت سنبھل گئی۔ جلسے میں تشریف لائے۔ اگرچہ بوجہ نقاہت مسند پر بیٹھ کر نظم ’ خضر راہ ‘ سنائی لیکن آواز میں وہی سوزر اور لہجے میں وہی تاثیر تھی‘‘۔ ( سیارہ : اقبال نمبر۱۹۶۳ئ: ص۳۰)<br />
’’خضرراہ‘‘ کو اقبال نے نہایت دردر انگیز لَے میں پڑ ھا تھا۔ غلام رسول مہر کا بیان ہے کہ :’’ یہ نظم سننے کے لیے بے شمار آدمی جمع ہو گئے تھے… پورا مجمع بیس ہزار سے کم نہ ہوگا۔ بعض اشعار پر اقبال خودبھی بے اختیار روئے اور مجمع بھی اشک بار ہو گیا۔ بیان کیا جاتاہے کہ اقبال پر جتنی رقت ’’ خضر راہ ‘‘ پڑ ھنے کے دوران میں طاری ہوئی ،اتنی کسی نظم کے دوران میں نہ ہوئی ‘‘۔ ( مطالب بانگِ درا: ص ۳۰۶) بعض دوسری نظموںکے برعکس ’’ خضرراہ‘‘پہلے سے شائع نہیں کی گئی۔ اقبال کے پاس نظم کا ایک قلمی نسخہ موجود تھا، تاہم نظم کا زیادہ ترحصہ انھوں نے حافظے کی مدد سے زبانی سنایا۔ نظم کی ابتدائی شکل میں چھٹے بند کا چوتھا شعر: <br />
نوعِ انسانی کے لیے سب سے بڑی لعنت یہ ہے<br />
شاہ راہِ فطرت اللہ میں یہ ہے غارت گری<br />
بانگِ درا کی ترتیب کے وقت اقبال نے اس شعر کو نظم سے حذف کر دیا۔ ’’صحرا نوردی‘‘ کے تحت تیسرا شعر ، ابتدائی صورت میں یوں تھا: <br />
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام<br />
وہ گداے بے برگ و ساماں ، وہ سفر بے سنگ و میل<br />
’’زندگی ‘‘ کے تحت آخری شعر( یہ گھڑی محشر کی ہے …) ’’ خضر راہ‘‘ کے ابتدائی متن میں موجود نہیں تھا۔یہ ایک اور نظم ’’ کلاہِ لالہ رنگ‘‘ کاآخری شعر تھا۔ بعد میں نظم کو متروک قرار دے کر یہ شعر ’’ خضر راہ ‘‘ میں شامل کر دیا گیا۔<br />
’’خضرراہ‘‘ اقبال نے ۱۹۲۲ء میں لکھی۔ اس زمانے میں دنیاے اسلام کی حالت بد سے بد تر ہو چکی تھی۔ جنگ ِ عظیم دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے تباہی و مصیبت کا پیغام لائی تھی۔ سلطنت ِ عثمانیہ بکھر گئی تھی، عرب دنیا مختلف ٹکڑ وں میں بٹ چکی تھی، جن پر استعماری طاقتوں کے کٹھ پتلی شاہ حسین اور اس کے بیٹے دادِ حکمرانی دے رہے تھے۔ اعلانِ بالفور (۱۹۱۷ئ) کے ذریعے برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کے لیے بنیاد فراہم کر دی تھی۔ ترکی کا اندرونی خلفشار بڑ ھ گیا تھا۔ مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں نے انقرہ میں متوازی حکومت قائم کر لی تھی۔ براے نام خلافت چند دنو ں کی مہمان نظر آتی تھی۔ بیرونی دباؤ بھی کم نہ تھا۔<br />
ادھر ہندستان میں مسلمانوں کی حالت بہت قابلِ رحم تھی کیونکہ بہت سے لوگ تحریک ہجرت کی بے نظمی او رراہ نمائوں کی بے تدبیری کا نتیجہ بھگت رہے تھے۔ ۱۹۱۹ء میں جلیانوالہ باغ امرتسر کے الم ناک سانحے میں جنرل ڈائر کی وحشیانہ فائرنگ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے اور پنجاب میں مارشل لا نافذ ہو ا، اس سے ہندستانیوں کی مشکلا ت میں اور اضافہ ہوا۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%AD%D8%AD%D8%B3%D9%86_%D9%90_%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D9%86_%DA%A9%DB%92_%DA%86%D9%86%D8%AF_%D9%BE%DB%81%D9%84%D9%88٭حسن ِ بیان کے چند پہلو2018-07-10T06:55:47Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> فنی اعتبار سے یہ مرثیہ حسن بیا ن کا ایسا خوب صورت نمونہ ہے جس کی مثال اردو شاعری میں شاید..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
فنی اعتبار سے یہ مرثیہ حسن بیا ن کا ایسا خوب صورت نمونہ ہے جس کی مثال اردو شاعری میں شاید ہی ملے گی۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے ’’ والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :’’ فن کا کمال ہی یہ ہے کہ فن کے سارے وسائل کام میں لائے گئے ہوں لیکن ان میں ایک بھی توجّہ پر بار نہ ہو‘‘۔ زیر مطالعہ نظم میں زبان و بیان اور صنائع بدائع کے وسائل غیر شعوری طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ حسن بیان کے چندپہلو ملاحظہ ہوں:<br />
الف: تشبیہات:<br />
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے<br />
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمور ہے<br />
______<br />
تجھ کو مثلِ طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ <br />
ب: صنعتِ گری: <br />
۱: صنعتِ مراعاۃ النظیر: <br />
آسماں مجبور ہے ، شمس و قمر مجبور ہیں<br />
انجمِ سیماب پا رفتار پر مجبور ہیں <br />
______<br />
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں ، قحط ہیں ، آلام ہیں<br />
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایّام ہیں<br />
۲۔ صنعتِ طباق ایجابی : (دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبارسے ایک دوسرے کی ضد ہوں) :<br />
علم کی سنجیدہ گفتاری ، بڑھاپے کا شعور<br />
دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور<br />
۳۔ صنعتِ تجنیس مضارع: ( دو ایسے متجانس الفاظ کا استعمال جن میں صر ف قریب المخرج یا متحد المخرج حرف کا اختلاف ہو۔) <br />
جانتا ہو ں آہ! میں آلامِ انسانی کا راز<br />
ہے نواے شکوہ سے خالی مری فطرت کا ساز <br />
۴۔ صنعتِ ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں ،پہلے پڑ ھیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے): <br />
دفترِ ہستی میں تھی زرّیں ورق تیری حیات<br />
تھی سراپا دین و دنیا کا سبق تیری حیات<br />
۵۔ صنعتِ ایہام تضاد:<br />
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا<br />
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا<br />
ج:نئی اور خوب صورت تراکیب : دخترانِ مادرِ ایام۔ ماتم خانہ برنا و پیر۔ مایہ دار اشکِ عنابی ۔ طوقِ گلو افشار ۔ تجدیدِ مذاقِ زندگی ۔ سبزۂ نورُستہ۔<br />
د ۔ قافیوں کی تکر ار اور نغمگی :<br />
دل مرا حیراں نہیں، خنداں نہیں ، گریاں نہیں<br />
______<br />
خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رود بار<br />
ہ ۔ محاکات: <br />
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم<br />
صحبت ِ مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم<br />
______<br />
مرثیے کا اختتام دعائیہ ہے۔ اقبال ایک مفکر و فلسفی کی نظر سے زندگی و موت اور جبر و قدر کے مسئلے پر اظہارِ خیال کرتے ہیں اور ساتھ ہی دنیا میں اپنی عزیز ترین ہستی ماں کی یاد میں مغموم اور مجبور انسان کی طرح آنکھوں کے سرشک آباد سے آنسو بھی بہاتے ہیں۔ بقول پروفیسر سیّد وقار عظیم یہاں :’’اقبال کی شخصیت دو مختلف اندازوں میں جلوہ گر ہوئی۔ ایک شخصیت تو اقبال کی وہی فلسفیانہ شخصیت ہے۔ جس کی بدولت اقبال کو اردو شاعری میں ایک منفرد حیثیت ملی ہے۔ اور دوسری شخصیت اس مجبور و مغموم انسان کی ہے جو ماں کی یاد میں آنسو بہاتے وقت یہ بھو ل جاتا ہے کہ وہ ایک مفکر اور فلسفی بھی ہے‘‘۔ ( اقبال، شاعر اور فلسفی: ص ۱۶۳؟ ۱۶۴)<br />
آخر میں والدہ ٔ مرحومہ کو خدا کے سپرد کرتے ہوئے اقبال دست بدعا ہیں کہ باری تعالیٰ مرحومہ کی قبر کو نور سے بھر دے اور اس پر اپنی رحمت کی شبنم افشانی کرتا رہے۔ غالباُ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جدا ہونے والی کسی عزیز ہستی کے بارے میں، پسماندگان کی دعا اور خواہش اس سے مختلف نہیں ہو تی ۔ یہاں اقبال کا طرز فکر اور پیرایۂ اظہار ایک سچے مومن اور راسخ العقیدہ مسلمان کا ہے۔ <br />
<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%81%D8%A7%D8%B1%D8%B3%DB%8C%D9%91%D8%AAفارسیّت2018-07-10T06:53:46Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> یہ مرثیہ بھی اقبال کی ان نظموں میں سے ہے جن پر فارسی کا غالب اثر ہے۔ بحیثیت ِ مجموعی پوری..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
یہ مرثیہ بھی اقبال کی ان نظموں میں سے ہے جن پر فارسی کا غالب اثر ہے۔ بحیثیت ِ مجموعی پوری نظم پر ایک نظر دوڑانے سے یہی احساس ہوتا ہے۔ مصرعوں کی تراش اور تراکیب کی بناوٹ بھی اسی پر شاہد ہے۔ بعض مصرعے ایک آدھ حرف یا لفظوں کے سوا فارسی میں ہیں: <br />
پردۂ مجبوری و بیچارگی تدبیر ہے<br />
______<br />
علم و حکمت رہزنِ سامانِ اشک و آہ ہے<br />
______<br />
خفتگانِ لالہ زار و کوہسار و رود بار<br />
______<br />
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا<br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%AD%D8%B3%D9%88%D8%B2_%D9%88_%DA%AF%D8%AF%D8%A7%D8%B2٭سوز و گداز2018-07-10T06:18:58Z<p>Muzalfa.ihsan: Created page with "<div dir="rtl"> زیر ِمطالعہ مرثیہ اپنے تأثر کے اعتبار سے اقبال کے تمام مرثیوں میں ایک جداگانہ حیثیت رکھ..."</p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
زیر ِمطالعہ مرثیہ اپنے تأثر کے اعتبار سے اقبال کے تمام مرثیوں میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے ۔ غلام رسول مہر کے بقول اس کے اشعار ’’اتنے پر تاثیر ہیں کہ الفاظ میں ان کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ غالباً یہ مرثیہ شعر و ادب کی پوری تاریخ میں بالکل یگانہ حیثیت رکھتا ہے اور شاید ہی کوئی دوسری زبان اس قسم کی نظم پیش کرسکے۔‘‘ (مطالبِ بانگِ درا: ص۲۷۹) اس انفرادیت اور اثر انگیزی کا سبب اس کا وہ سوز و گداز ہے جس سے نظم کے کسی قاری کا غیر متاثر رہنا ممکن نہیں۔ علامّہ اقبال نے اس کی ایک نقل اپنے والد محترم شیخ نور محمد کو بھیجی تھی۔ روایت ہے کہ مرثیہ پڑھتے ہوئے اس کے سوز وگداز سے ان پر گریہ طاری ہو جاتا اور وہ دیر تک روتے رہتے۔ مرثیے میں یہ سوز و گداز اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اقبال کے پیش نظر ایک جذباتی موضوع تھا۔ ایک ایسے موضوع پر شعر کہتے ہوئے، جس کا انسان کے جذبات سے گہرا تعلق ہو، سوز وگداز کا پیداہونا ایک فطری امر ہے۔ <br />
</div></div>Muzalfa.ihsanhttp://iqbal.wiki/index.php?title=%D9%81%D9%86%D9%91%DB%8C_%D8%AA%D8%AC%D8%B2%DB%8C%DB%81فنّی تجزیہ2018-07-10T06:12:05Z<p>Muzalfa.ihsan: </p>
<hr />
<div><div dir="rtl"><br />
<br />
’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ درحقیقت ایک مرثیہ ہے۔ اس کی ہیئت ترکیب بندکی ہے۔ مرثیہ بحر رمل مثمن محذوف الآخر میں ہے۔ بحر کے ارکان یہ ہیں:<br />
فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلَاتُنْ فَاعِلُنْ<br />
<br />
'''٭لہجے کا تنوع'''<br />
<br />
’’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘‘ ایک مرثیہ ہونے کی بنا پر اپنے موضوع کی مناسبت سے معتدل، نرم اور دھیما لہجہ رکھتا ہے۔ جن مقامات پر انسان کی بے بسی ، قدرت کی جبریت اور زندگی کی بے ثباتی کا ذکر ہوا ہے، وہاں لہجے کا سخت اور پرجوش ہونا ممکن ہی نہیں۔ جن حصوں میں شاعر نے والدہ سے وابستہ یادِرفتہ کو آواز دی ہے، وہاں اس کے لہجے میں در د و کرب اور حسرت و حرماں نصیبی کی ایک خاموش لہر محسوس ہوتی ہے۔ اس حسرت بھری خاموشی کو دھیمے پن سے بڑی مناسبت ہے۔ شاعر کے جذبات کے اتار چڑ ھاو نے بھی اس کے دھیمے لہجے کا ساتھ دیا ہے۔ پھر الفاظ کے انتخاب، تراکیب کی بندش اور مصرعوں کی تراش سے بھی یہی بات آشکارا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں: <br />
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم<br />
<br />
صحبت ِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم<br />
یاد سے تیری، دلِ درد آشنا معمور ہے<br />
<br />
جیسے کعبے میں دعاؤں سے فضا معمورہے<br />
آسماں تیر ی لحد پر شبنم افشانی کرے<br />
سبزہ نورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے<br />
اس لہجے میں شاعر کے دل کا درد ، خستگی اور حرماں نصیبی گھل مل گئے ہیں۔<br />
مرثیے میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں شاعر کا لہجہ، مرثیے کے مجموعی لہجے سے قدرے مختلف ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں شاعر نے فلسفۂ جبر و اختیار اور حیات و ممات پر غورو خوض کے بعد اپنے مثبت نتائج پیش کیے ہیں۔ یہ نتائج یاس و نامرادی اور افسردگی کے بجاے تعمیری نقطۂ نظر کے مظہر ہیں ، اس لیے ایسے مقامات پر شاعر کے ہاں جوش و خروش تو نہیں ، البتہ زندگی کی ایک شان اور گرم جوشی کا لہجہ ملتا ہے، مثلاً : <br />
شعلہ یہ کم تر ہے گردوں کے شراروں سے بھی کیا؟<br />
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا؟<br />
______<br />
موت ، تجدید مذاقِ زندگی کا نام ہے<br />
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے<br />
______<br />
سینۂ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے<br />
سیکڑوں نغموں سے بادِ صبح دم آباد ہے<br />
اس لہجے میں ایک طرح کی حرکت اور زندگی کی حرارت ملتی ہے۔<br />
</div></div>Muzalfa.ihsan