Actions

Saday dard

From IQBAL

صدائے درد

جل رہا ہوں کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے

سرزمیں اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا، یاں تو اک قرب فراق انگیز ہے

بدلے یک رنگی کے یہ نا آشنائی ہے غضب
ایک ہی خرمن کے دانوں میں جدائی ہے غضب

جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں

لذت قرب حقیقی پر مٹا جاتا ہوں میں
اختلاط موجہ و ساحل سے گھبراتا ہوں میں

دانہ خرمن نما ہے شاعر معجز بیاں
ہو نہ خرمن ہی تو اس دانے کی ہستی پھر کہاں

حسن ہو کیا خود نما جب کوئی مائل ہی نہ ہو
شمع کو جلنے سے کیا مطلب جو محفل ہی نہ ہو

ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں

کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے