Actions

Na ho Tughyan-E-Mushtaqi To Main Rahta Nahi Baqi

From IQBAL

Revision as of 06:55, 27 May 2018 by Armisha Shahid (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> '''نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی''' نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی ک...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی

نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی 

کہ میری زندگی کیا ہے، یہی طغیان مشتاقی

مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے 

ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی

وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے 

طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوئہ ساقی!

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے 

کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی

دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے 

نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی

خزاں میں بھی کب آسکتا تھا میں صیاد کی زد میں 

مری غماز تھی شاخ نشیمن کی کم اوراقی

الٹ جائیں گی تدبیریں، بدل جائیں گی تقدیریں 

حقیقت ہے، نہیں میرے تخیل کی یہ خلاقی