Actions

Khutaba Eid-ul-Fitr

From IQBAL

خطبہ عید الفطر

عید الفطر
   بسمہ اللہ الرحمن الرحیم
 
 قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے فرمایا 

ہے:

 شھر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس و بینت من الھدی و الفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ۔ 
  
یہی ارشاد خداوندی ہے جس کی تعمیل میں آپ نے ماہ رمضان کا پورا مہینہ روزے رھے اور اس اطاعت 

الہی کی توفیق پانے کی خوشی میں آج بحیثیت قوم خدا تعالی کی یادگاہ میں سجدۂ شکر بجا لانے کے لیے جمع ہوئے۔

بے شک مسلم کی عید اور اس کی خوشی اگر کچھ ہے تو وہ یہ کہ اطاعت حق یعنی عبدیت کے فرائض کی بجا آوری میں پورا نکے۔ اور قومیں بھی خوشی کے تیوہار مناتی ہیں مگر سوائے مسلمانوں کے اور کون سی قوم ہے جو خدائے پاک کی فرما نبراداری میں پورا اترنے کی عید مناتی ہو۔

مؤرخین کے بیان کے مطابق 2 ھ میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے۔ صدقہ عید الفطر کا حکم بھی 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سال جاری فرمایا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک خطبہ دیا، جس میں اس صدقہ کے فصائل بیان فرمائے۔ پھر صدقہ کا حکم دیا۔عید الفطر کی نماز باجماعت عیدگاہ میں اسی سال ادا فرمائی۔ 2 ھ سے پہلے عید کی نماز نہیں ہوتی تھی۔

 اسلام کے ارکان یعنی توحید، نماز، روزہ، حج، زکوۃ جب نبی امی کی زبان پاک سے خالق اکبر نے بندوں کی 

اصلاح و فلاح کے لیے ہدایت فرمائے تو مقصود یہ تھا کہ ان کی پابندی سے "مسلم" بحیثیت فرد" وہ انسان بن سکے جسے وحی خداوندی "احسن التقویم" کے نام سے تعبیر کرتی ہے۔ اور ملّت اسلامیہ" وہ ملّت بن جائے، جو قرآن پاک کے الفاظ کے مطابق دنیا کی "بہترین امت" ہو اور اپنے تمام معاملات میں اعتدادل اور میانہ روی کے اصول کو سامنے رکھنے والی ہو۔ اسلام کا ہر رکن انسانی زندگی کے صحیح نشوونما کے لیے اپنے اندر ہزارہا ظاہری اور باطنی مصلحیتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی ایک رکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنی ہیں جسے صوم کہتے ہیں اور جس کی پابندی کی توفیق کے شکرانے میں آج آپ عید منارہے ہیں۔

روزے پہلی امتوں پر بھی فرض تھے گو ان کی تعداد وہ نہ ہو جو ہمارے روزوں کی ہے اور فرض اس لئے قرار 

دیئے گئے کہ انسان پرہیز گاری کی راہ اختیار کرے۔ خدا نے فرمایا۔

 یایھا الذین امنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ 
   گویا روزہ انسان کو پرہیز گاری کی راہ پر چلاتا ہے۔ اس سے جسم اور جان دونوں تزکیہ پاتے ہیں۔ یہ خیال 

کہ روزہ ایک انفرادی عبادت ہے صحیح نہیں بلکہ ظاہر و باطن کیصفائی کا یہ طریق، یہ ضبط نفس، یہ حیوانی خواہشوں کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام اپنے اندر ملّت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔

 وہ فائدے جو ایک "فرد" کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں، اس صورت میں بھی ہوسکتے تھے کہ روزے 

بجائے مسلسل ایک مہینہ رکھنے کے کبھی کبھی رکھ لئے جاتے یا بجائے رمضان میں رکھنے کے سال کے اور مہینوں میں رکھ لیے جاتبے۔ اگر محض فرد کی اصلاح اور اس کی روحانی نشوونما پیش نظر ہوتی تو بے شک یہ ٹھیک تھا۔ لیکن فرد کے علاوہ تمام "ملّت" کے اقتصادی اور معاشرتی تزکیہ کی غرض بھی شارع برحق کے سامنے تھی۔

آج کی عید عید الفطر" کہلاتی ہے۔ پیغمبر خدا نے جب عید کے لیے عیدگاہ میں اکٹھا ہونے کا حکم دیا 

تو ساتھ ہی صدقہ عیدالفطر اداد کرنے کاحکم بھی دیا۔ تعجب نہیں کہ عید کا دن مقرر کرنے کی اصل غرض ہی شارع علیہ الصلوۃ کے نزدیک صدقہ عید الفطر کا جاری کرنا ہو۔ حق یہ ہے کہ زکوۃ اور اصول تقسیم وراثت کے بعد تیسرا طریق اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم کرنے کا جو اسلام نے تجویز کیا "صدقات" کا تھا اور ان صدقات میں سب سے بڑھ کر صدقہ فطر کا۔ اس ليے کہ یہ صدقہ ایک مقررہ دن پر تمام قوم کو ادا کرنا ہوتا ہے۔

 رمضان کا مہینہ آپ نے اس اہتمام سے بسر کیا ہے کہ کھانے پینے کے اوقات کی پابندی سیکھ لی۔اپنی 

صحت درست کرلی۔ آئندہ گيارہ مہینے کئي بیماریوں سے محفوظ رہنے کے قابل اپنے آپ کو بنالیا۔ کفایت شعاری سیکھی۔ رزق کی قدر و قیمت سکھی۔ یہ سب ذاتیفائدے تھے۔ صیام کا قومی اور ملّی فائدہ یہ ہے کہ صاحب توفیق مسلمانوں کے دل میں اپنی قوم کے مفلس اور محروم افراد کی عملی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو اور صدقہ فطر ادا کرنے سے قوم میں ایک گونہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات قائم ہو۔ حکم یہ ہے کہ "عید" کی نماز میں شرکت سے پہلے ہر صاحب توفیق مسلمان صدقہ فطر ادا کرکے عیدگاہ میں آئے۔ اس سے مقصود یہ نہیں کہ اقتصادی اور معاشرتی مساوات صرف ایک آدھ دن کے لیے قائم ہوجائے بلکہ ایک مہینہ کا متواتر ضبط نفس تم کو اس لیے سکھایا گیا ہے کہ تم اس اقتصادی اور معاشرتی مساوات کو قائم رکھنے کی کوشش تمام سال کرتے رہو۔

 باقی رہا یہ امر کہ روزے ماہ رمضان کے ساتھ ہی کیوں مختص کئے جائيں۔ سو واضح رہنا چاہئے کہ اسلام نے 

انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسرار کو مد نظر رکھ کر "صیام" کے زمانی تسلسل کو ضروری سمجھا ہے۔ اس تسلسل کے لیے وقت کی تعیین لازم تھی اور چونکہ اسلام کا اصل مقصود انسانوں کو احکام الہی کی فرمانبرداری میں پختہ کرنا تھا، اس لیے صیام کو اس مہینہ سے مختص کیا گيا جس میں احکام الہی کا نزوم شروع ہوا تھا۔ بالفاظ دیگر یوں کہو کہ مسلمانوں کو ہر سال پورا مہینہ کامل تزکیہ نفرس کے ساتھ نزول قرآن حکیم کی سالگرہ منانے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ احکام الہی کی حرمت و تقدیس ہمیشہ مدنظر رہے اور نماز تراویح پر کار بند ہو کر قوم کے ہر فرد کو اجتماعی حیات کا قانون عملا ازبر ہوجائے۔

اصل بات قوم کی اقتصادی اور تمدّنی زندگی کی مجموعی اصلاح کے متعلق تھی۔ 

قرآن میں جہاں مسائل "صیام" کے ذکر کے بعد یہ فرمایا کہ:

   تلک حدود اللہ فلا تقربوھا کذالک میبین اللہ آیاتہ للناس لعلھم یتقون۔ 
 
 وہاں ساتھ ہی ملحق بطور ان تمام باتوں کے نتیجہ کے یہ حکم بھی دیا۔ 
  
دلاتا کلوا اموالکم بینکم بالبابطل و تدلوابھا الی الحکام لتا کلو اقریقا من اموال الناس بالاثم و انتم 

تعلمون۔

روزہ رکھ کر مفلسوں سے محض ہمددری کا احساس پیدا کرلینا کافی نہ تھا۔ عید کے دن غربا کو دو چار دن کا کھانا دے دینا کافی نہ تھا۔ طریق وہ اختیار کرنا مقصد تھا جس سے مستقل طور پر دنیاوی مال و متاع سے انتفاع کے قواعد اس طور پر قائم ہوں کہ جہاں تقسیم وراثت اور زکوۃ سے ملّت اسلامیہ کے مال و متاع میں ایک گونہ مساوات پیدا ہو، وہاں اس مساوات میں ایک دوسرے کے اموال میں ناجائز تصّرف سے کسی قسم کا خلل نہ آئے۔ روزوں کے التزام سے صرف انفرادی روحانیت کی ترقی یا زیادہ سے زیادہ انسانوں کے ساتھ ایک ہنگامی ہمدردی ہی مقصود نہیں بلکہ شارع کی نظر اس بات پر ہے کہ تم اپنے اپنے حلال کے کمائے ہوئے مال پر قناعت کرو اور دوسروں کے کمائے ہوئے مال کو باطل طریقوں سے کھانے کی کوشش نہ کرو۔ اس باطل طریق پر دوسروں کا مال کھانے کی بدتریں روش قرآن کے نزدیک یہ ہے کہ مال و دولت کے ذریعہ حکام تک رسائی حاصل کی جائے اور ان کو رشوتوں سے اپنا طرف دار بنا کر اوروں کے مالوں کو اپنے قبضہ میں لایا جائے۔ مذکورہ بالآ آیات میں "اثم" کے معنی بعض مفسرّین نے جھوٹی گواہی وغیرہ کے لیے یں۔ علمائے قرآن نے حکام سے مراد مسلمانوں کے اپنے مفتی، قاضی اور سلٹطان لیے ہیں۔ جب اپنے فقیہوں اور قاضیوں کے پاس جھوٹے مقدمے بنا کر لے جانے کو خدا نے مذموم قرار دیا ہو تو سمجھ لو کہ غیر اسلامی حکومتوں کے حکام کے پاس اس قسم کے مقدمات لے جانا کس قدر ناجائز ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھنے کی آخری غرض یہ تھی کہ آئندہ تمام سال اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بن کر رہو کہ اگر اپنا مال ایک دوسرے کوبانٹ کر دے نہیں سکتے تو کم از کم "حکام" کے پاس کوئي مالی مقدمہ اس قسم کا نہ لے کر جاؤ جس میں ان کو رشوت دے کر حق و انصاف کے خلاف دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا مقصود ہو۔

آج کے دن سے تمہارا عہد ہونا چاہئے کہ قوم کیاقتصدایاور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآن حکیم نے 

اپنے ان احکام میں قرار دی ہے، اس کو تم ہمیشہ مدّنظر رکھو گے۔

مسلمانان پنجاب اس وقت تقریبا سوا ارب روپے کے قرض میں مبتلا ہیں اور اس پر ہر سال تقریبا چودہ کروڑ روپیہ سود ادا کرتے ہیں۔ کیا اس قرض اور اس سود سے نجات کی کوئي سبیل سوائے اس کے ہے کہ تم احکام خداوندی کی طرف رجوع کرو اور مالی اور اقتصادی غلامی سے اپنے آپ کو رہا کراؤ؟ تم اگر آج فضول خرچی چھوڑنے کے علاوہ مال اور جائیداد کے جھوٹے اور بلا ضرورت مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دو تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ چند سال کے اندر تمہارے قرض کا کثیر حصّہ از خود کم ہو جائے گا اور تم تھوڑی مدّت کے اندر قرض غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کر لو گے۔ نہ صرف یہ کہ مالی مقدمات کا ترک تمہیں اس قابل بنا دے گا کہ تم وہی روپیہ جو مقدموں اور رشوتوں اور وکیلوں کی فیسوں میں برباد کرتے ہو اسی سے اپنی تجارت اور اپنی صنعت کو فروغ دے سکو گے۔ کیا اب بھی تم کو رجوع الی القرآن کی ضرورت محسوس نہ ہوگی اور تم عہد نہ کرلو گے کہ تمام دنیاوی امور میں شرع قرآنی کے پابند ہوجاؤ گے؟

   کس انتباہ کے ساتھ رسول پاک نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ: 
   ایاکم و الدین فانہ ھم باللیل و مذلۃ بالنھار۔
 
 (دیکھو قرض سے بچنا۔قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔)
   اس خطبے میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگي کے صرف اقتصادی پہلو ہی پر نظر ڈالی گئي ہے۔ شاید عید 

الضحی کے موقع پر اسی قسم کے ایک خطبے میں اسلامی زندگی کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ فی الحال میں حضور سرور کائنات کی ایک حدیث پر اس خطبے کو ختم کرتا ہوں جو ایک نہایت لطیف پیرایہ میں رشد و ہدایت کی تمام شاہ راہوں کو انسان پر کھول دیتی ہے۔

امرنی ربی یتبع الاخلاص فی السہ و العلانیۃ و العدل فی الغضب و الرضا و القصد فی الفقر و الغنی و ان 

اعفوعن من ظلمنی و اصل من قطعنی و اعطی من حومنی و ان یکون نطقی ذکرا وصمی فکرا و نظری عبرۃ۔

مجھے میرے رب نے نو باتوں کا حکم دیا ہے۔ ظاہر و باطن میں اخلاص پر کاربند رہنا۔ غضب و رضا دونوں 

حالتوں میں انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا۔ فقر و تونگری میں میانہ روی۔ جو شخص مجھ پر زیادتی کرے اس کو معاف کر دوں۔ جو مجھ سے قطع رحم کرے اس سے صلۂ رحم کروں۔ جو مجھے محروم کرے میں اس کو اپنے پاس سے دوں میرا بولنا ذکر الہی کے لیے ہو۔ میری خاموشی غور و فکر کے لیے ہو اور میرا دیکھنا عبرت حاصل کرنے کے لیے ہو۔