Actions

Farishton Ka Geet

From IQBAL

Revision as of 01:07, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Armisha Shahid)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

فرشتوں کاگیت

عقل ہے بے زمام ابھی، عشق ہے بے مقام ابھی نقش گر، ازل! ترا نقش ہے نا تمام ابھی

خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی

تیرے امیر مال مست، تیرے فقیر حال مست بندہ ہے کوچہ گرد ابھی، خواجہ بلند بام ابھی

دانش و دین و علم و فن بندگی ہوس تمام عشق گرہ کشاے کا فیض نہیں ہے عام ابھی

جوہر زندگی ہے عشق، جوہر عشق ہے خودی آہ کہ ہے یہ تیغ تیز پردگی نیام ابھی!

(فرمان خدا - (فرشتوں سے

اٹھو! مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

گرماو غلاموں کا لہو سوز یقیں سے کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے، مٹا دو

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

حق را بسجودے، صنماں را بطوافے بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو

میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو!