Actions

Bal-i-Jibril

From IQBAL

Revision as of 08:46, 27 May 2018 by Armisha Shahid (talk | contribs) (حصہ دوم)

Bal-i-Jibril (Urdu: بال جبریل‎; or Gabriel's Wing; published in Urdu, 1935) was a philosophical poetry book of Allama Iqbal, the great South Asian poet-philosopher, and the national poet of Pakistan.

حصہ اول

میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں

اگر کج رو ہیں انجم، آسماں تیرا ہے یا میرا

گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر

اثر کرے نہ کرے، سن تو لے مری فریاد

کیا عشق ایک زندگی مستعار کا

پریشاں ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے

دگرگوں ہے جہاں، تاروں کی گردش تیز ہے ساقی

لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی

مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو

متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی

تجھے یاد کیا نہیں ہے مرے دل کا وہ زمانہ

ضمیر لالہ مے لعل سے ہوا لبریز

وہی میری کم نصیبی، وہی تیری بے نیازی

اپنی جولاں گاہ زیر آسماں سمجھا تھا میں

اک دانش نورانی، اک دانش برہانی

یارب! یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن

حصہ دوم

سما سکتا نہیں پہنائے فطرت میں مرا سودا

یہ کون غزل خواں ہے پرسوز و نشاط انگیز

وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں

عالم آب و خاک و باد! سر عیاں ہے تو کہ میں

تو ابھی رہ گزر میں ہے، قید مقام سے گزر

امین راز ہے مردان حر کی درویشی

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن

مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم

دل سوز سے خالی ہے، نگہ پاک نہیں ہے

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق

پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی

یہ حوریان فرنگی، دل و نظر کا حجاب

دل بیدار فاروقی، دل بیدار کراری

خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں

میر سپاہ ناسزا، لشکریاں شکستہ صف

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی

یہ دیر کہن کیا ہے، انبار خس و خاشاک

کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری

عقل گو آستاں سے دور نہیں

خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں

یہ پیام دے گئی ہے مجھے باد صبح گاہی

تری نگاہ فرومایہ، ہاتھ ہے کوتاہ

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

تو اے اسیر مکاں! لامکاں سے دور نہیں

خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

ہر شے مسافر، ہر چیز راہی

ہر چیز ہے محو خود نمائی

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ!

خردمندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

مجھے آہ و فغان نیم شب کا پھر پیام آیا

نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی

فطرت کو خرد کے روبرو کر

یہ پیران کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام

خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل

مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟