Difference between revisions of "Armughan-e-Hijaz"
From IQBAL
(→ابتدا) |
(Tag: Rollback) |
||
(4 intermediate revisions by one other user not shown) | |||
Line 2: | Line 2: | ||
<div dir="rtl"> | <div dir="rtl"> | ||
+ | == ابتدا == | ||
+ | *[[Iblees_Ki_Majlis_e_Shura|ابلیس کی مجلسِ شورا ]] | ||
+ | * [[Buddhay_Baloch_ki_naseehat_betay_ko|بُڈّھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو]] | ||
+ | * [[Tasweer-o-mussawir|تصویر و مصوّر]] | ||
+ | * [[Alam_e_Barzukh|عالمِ برزخ]] | ||
+ | * [[Maazool_shahenshah|معزول شہنشاہ]] | ||
+ | * [[Douzakhi_ki_munajaat|دوزخی کی مناجات]] | ||
+ | * [[Masood_marhoom|مسعود مرحوم]] | ||
+ | * [[Aawaz-e-ghaib|آوازِ غیب]] | ||
+ | |||
== رُباعیات == | == رُباعیات == | ||
Latest revision as of 00:15, 20 July 2018
Armughan-e-hijaz was written by the great philosopher and poet of the subcontinent, Dr. Allama Muhammad Iqbal. It was published in 1938 in the city of lahore, Pakistan.
ابتدا
- ابلیس کی مجلسِ شورا
- بُڈّھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو
- تصویر و مصوّر
- عالمِ برزخ
- معزول شہنشاہ
- دوزخی کی مناجات
- مسعود مرحوم
- آوازِ غیب
رُباعیات
- مِری شاخِ اَمل کا ہے ثمر کیا
- فراغت دے اس کارِ جہاں سے
- دِگرگُوں عالمِ شام و سحَر کر
- غریبی میں ہُوں محسودِ امیری
- خِرد کی تنگ دامانی سے فریاد
- کہا اقبال نے شیخِ حرم سے
- کُہن ہنگامہ ہائے آرزو سرد
- تمیزِ خار و گُل سے آشکارا
- نہ کر ذکرِ و فراق آشنائی
- تِرے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے
- خِرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے
- کبھی دریا سے مثلِ موج ابھر کر
مُلاّ زادہ ضیغم لولابی کشمیری کا بیاض
- پانی تِرے چشموں کا تڑپتا ہُوا سیماب
- موت ہے اک سخت تر جس کا غلامی ہے نام
- آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
- گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہُو
- دُرّاج کی پرواز میں ہے شوکتِ شاہین
- رِندوں کو بھی معلوم ہیں صوفی کے کمالات
- نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
- سمجھا لہُو کی بُوند اگر تُو اسے تو خیر
- کُھلا جب چمن میں کُتب خانہء گُل
- آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ
- تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ
- دِگرگُوں جہاں ان کے زورِ عمل سے
- نشان یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
- چہ کافرانہ قمارِحیات می بازی
- ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
- حاجت نہیں اے خطّہء گُل شرح و بیان کی
- خود آگاہی نے سِکھلا دی ہے جس کو تن فراموشی
- آں عزمِ بلند آور آں سوزِ جگر آور
- غریبِ شہر ہوں میں، سُن تو لے مِری فریاد
اردو نظمیں