Actions

چوتھا باب: تصوریت اور حقیقت پرستی کی بحث

From IQBAL

باب چہارم تصوریت اور حقیقت پرستی کی بحث

اس باب کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں: ۱- اشیائے کائنات کی اصلی ماہیت اور وجود کے بارے میں دو مشہور مکاتب فکر ہیں: تصوریت یا عینیت (Idealism) کے عَلم۔بردار اور حقیقت پرستی (Realism) کے حامی۔ ۲- اشیا کے اصلی وجود کو ذہنی یا داخلی خیال کرنے والے تصور پرست کہلائے اور چیزوں کے خارجی اور حقیقی وجود کو ماننے والے حقیقت پرست مشہور ہوئے۔ معتزلہ اور اشاعرہ کی بحثیں ان دو مختلف مکاتب خیال کی عکاس تھیں۔ ۳- عین پرستی اور حقیقت پرستی دراصل افلاطون اور اس کے شاگرد ارسطو کے نظریات کے اختلافِ وجودِ شے پر مبنی مکاتب فکر تھے۔ ۴- افلاطون کے پیروکاروں کی رائے میں اشیا کا وجود کسی خارجی اور مادی علت کا نتیجہ نہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کے پیروکار اس نظریے کے حامی تھے کہ کائنات کی چیزوں کا وجود خارجی علت کے تابع ہوتا ہے۔ ۵- علامہ اقبال نے معتزلہ اور اشاعرہ کے تصور علم کی بحث پر روشنی ڈالی ہے۔ ۶- معتزلہ اور اشاعرہ کے نظریہ وجود و عدم (ہستی و نیستی) کی بحث کے دوران خیر و شر کے مسئلہ پر بھی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ اشیائے کائنات کی حقیقتِ ظاہری اور حقیقتِ باطنی کے بارے میں دنیا کے تمام عظیم فلسفیانہ نظاموں میں مدت سے بحث جاری ہے۔ ہندو فلسفہ ہو یا فلسفۂ یونان و مغرب یا اسلامی فلسفۂ۔ ان سب میں اشیا کی ماہیت اور وجود کو زیربحث لایا گیا ہے۔ فلسفیوں اور مفکرّوں کا ایک گروہ اس بات کا حامی ہے کہ دنیا کی چیزیں صرف باطنی طور پرموجود ہوتی ہیں اس لیے ان کاظاہری وجود چنداں اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ لوگ اس عقیدے پر زور دیتے ہیں کہ اشیا کا اصل وجود ہمارے تصورات پر مبنی ہے۔ اس گروہِ فلاسفہ کو تصوریت کے عَلم۔بردار یا عینیت پرست (Idealists) کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس مفکرین اور فلاسفہ کا دوسرا گروہ اس عقیدے کا زبردست حامی ہے کہ کائنات کی چیزوں کا وجود محض تصور یا ذہن میں نہیں بلکہ وہ خارجی طور پر موجود ہوتی ہیں۔ یہ خارجیت پسند لوگ حقیقت پرست یا واقعیت پرست (Realists) کہلاتے ہیں۔ اس نقطہ نگاہ سے ایک گروہ چیزوں کے داخلی اور ذہنی وجود کا پرچار کرتا ہے اور دوسرا طبقہ ان کے خارجی وجود کی نشر و اشاعت کو اپنا فریضہ قرار دیتا ہے۔ اسلام جب جزیرہ عرب سے نکل کر دوسرے ملکوں میں گیا تو وہاں کے لوگوں کے میل ملاپ کے سبب مسلمانوں کے افکار و نظریات میں بھی تبدیلیاں رونما ہوگئیں۔ علاوہ ازیں یونان کے بعض مشہور فلاسفہ خصوصاً افلاطون اور اس کے شاگرد ارسطو کی کتابوں کا جب عربی زبان میں ترجمہ ہوا تو یونانی افکار نے مسلمانوں کے ذہن پر کافی اثر ڈالا تھا۔ اس طرح مسلمانوں میںبھی قدیم فلسفیانہ بحثوں کا دروازہ کھل گیا۔ اشاعرہ اور معتزلہ کی عقلی بحثوں اور فلسفیانہ موشگافیوں نے مسلمان فلسفیوں اور مفکروں کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ علامہ اقبال نے اس باب میں زیادہ تر تصور پرستوں (Idealists) اور حقیقت پرستوں (Realists) کے ان نظریات پر روشنی ڈالی ہے جن کا اشیا کی ماہیت اور وجود سے بڑا گہرا ربط ہے۔ وہ اس فلسفیانہ نزاع کے بارے میں اپنے خیالات کو ان الفاظ کا جامہ پہناتے ہیں: ارسطو کے نظریہ جوہر مادی کے افکار زمان و مکان اور علت و معلول کی نوعیت کے بارے میں اشاعرہ کے تصورات نے اس بحث کی نہ دبنے والی سپرٹ کو دوبارہ بیدار کردیا جس نے صدیوں تک مسلمان مفکرین کی جماعت کو تقسیم کرکے آخرکار فکری مکاتب کی محض لفظی نزاکتوں میں اپنی قوت کو ختم کردیا تھا۔ اس کے بعد وہ نجم الدین الکاتبی کی اہم تصنیف حکمۃ العین (فلسفۂ اعیان) کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے عقلی نزاع کو تیز تر کرکے بہت سے اشاعرہ اور دوسرے تصور پرست مفکرین کو شدید تنقید کرنے کی دعوت دی۔ نجم الدین الکاتبی ارسطو کا مقلد تھا۔ اس لیے اس نے ارسطو کے دلائل کو بنیاد بنا کر اس بحث کو چھیڑا تھا۔ تقلید پرست مسلمان مذہبی علما سے ممتاز کرنے کے لیے ارسطو کے پیروکار مسلمان مفکرین کو فلاسفہ کا نام دیا گیا تھا۔ (۱) ماہیت کی نوعیت اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ اشاعرہ کے تصور علم نے انھیں یہ عقیدہ دیا تھا کہ مختلف چیزوں کی انفرادی ماہیتیں ایک دوسری سے بالکل مختلف ہیں اور ان کی ذات کا تعین علت غائی یعنی خدا سے ہوتا ہے۔ وہ تمام اشیا میں ایک ہی ہمیشہ تغیر پذیر ہونے والی اصلی مادہ کے وجود کے منکر تھے۔ عقل پرستوں (Rationalists) کے برعکس ان کا نظریہ تھا کہ وجود ماہیت (Essence) کے تار و پود کی تشکیل کرتا ہے۔ اس لیے ان کی ر ائے میں وجود اور ماہیت ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ اس ضمن میں وہ ایک مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’آدمی جانور ہے۔‘‘ ان کی دلیل یہ ہے کہ مبتدا اور خبر کے بنیادی فرق کی بنا پر آدمی کو جانور قرار دینا ممکن ہے کیوں کہ ان کی مماثلت اس فیصلے کو بے کار بنا دے گی اور ان کا کامل اختلاف اس خبر کوباطل کردے گا۔ اس لیے ہستی اور وجود کی مختلف اشکال کا تعین کرنے کے لیے ایک خارجی علت کا اُصول وضع کرنا لازمی ہوگا۔ علامہ اقبال کی رائے میں اشاعرہ کے مخالفین یعنی معتزلہ اور عقل پرست وجود کے تعین اور محدودیت کو تو تسلیم کرتے ہیں مگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وجود (Existence) کی مختلف اشکال میں ماہیت کے ہوتے ہوئے وہ آپس میں مماثل ہیں… یعنی یہ سب مختلف اشکال ایک ہی اولین اصل کی حدود ہیں۔ ارسطو کے مبتعین کہتے ہیں ’’آدمی جانور ہے‘‘ کی رو سے آدمی کو جانور قرار دینا درست ہے کیوں کہ آدمی کا جوہر حیوانیت اور انسانیت کے خواص کا حامل ہے۔ اشاعرہ اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ یہ دعویٰ بلا تنقید نہیں ہوسکتا۔ اشاعرہ کی دلیل یہ ہے کہ اگر انسان اور حیوان کی ماہیت ایک ہی قرار دی جائے تو پھر دوسرے لفظوں میں یہ کل اور جزو کی اصل کو مترادف قرار دینا ہے۔ یہ مفروضہ بالکل لغو ہے کیوں کہ مرکب اور اس کے عناصر ترکیبی کی یکساں ماہیت کی رو سے مرکب کو دو ماہیتوں اور دو ہستیوں کا حامل خیال کیا جائے گا۔ ماہیت اور وجود کی اس مشکل بحث کے بارے میں علامہ اقبال اپنے نقطہ نگاہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس سے ظاہر ہے کہ ساری بحث اس سوال کے گرد گھومتی ہے کہ کیا وجود صرف ایک تصور ہے یا خارجی طور پر کوئی حقیقی شے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کوئی خاص چیز موجود ہے تو کیا اس کے وجود کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہماری نسبت سے موجود ہے۔ (اشاعرہ کا نظریہ) یا ہم سے بالکل آزاد کوئی موجود ماہیت ہے۔ (حقیقت پرستوں کا نظریہ) حقیقت پسندوں کے دلائل اب علامہ اقبال حقیقت پسندوں اور واقعیت پرستوں کے نظریۂ وجود پر روشنی ڈالنے کے لیے ان کے دلائل کا یہاں خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ ان کا مطمحِ نظر بیان کرتے ہیں۔ ۱- جہاں تک حقیقت پرستوں کی پہلی دلیل کا تعلق ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ میرے وجود کا تصور ایک فوری یا وجدانی شے ہے۔ ’’میں موجود ہوں‘‘ کا خیال اصل میںایک تصور ہے اور میرا جسم اس تصور کا عنصر ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میرا جسم وجدانی طور پر معلوم ہونے کی حیثیت سے کوئی حقیقی چیز ہے۔ اگر کسی موجود شے کا علم فوری نہ ہو تو اس کے احساس کی حقیقت ایک غیر موجود طریق خیال کی متقاضی ہوگی۔ اشاعرہ کے نظریات کا حامی الرازی یہ تو مانتا ہے کہ وجود کا تصور فوری ملتا ہے لیکن وہ ’’وجود کا تصور فوری ہوتا ہے‘‘ کے بیان کو صرف ایک اکتسابی بات قرار دیتا ہے۔ اس کے برعکس محمد ابن مبارک بخاری کی رائے میں حقیقت پرست کی ساری دلیل کی اساس یہ مفروضہ ہے کہ میرے وجود کا تصور فوری ہوتا ہے۔ وہ اس بات کو قابل بحث سمجھتے ہوئے یہ کہتاہے کہ اگر ہم اپنے وجود کے تصور کو فوری مان لیں تو پھر مجرد وجود کو ہم اس تصور کاعنصر ترکیبی نہیںکَہ سکتے اور اگر حقیقت پرست یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کسی خاص چیز کا احساس فوری ہوتا ہے تو ہم اس کے قول کی صداقت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کا اشیا میں پوشیدہ وجود فوراً ہی خارجی طور پر حقیقی ہوتا ہے۔ علامہ اقبال حقیقت پرستوں کی دلیل پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں: مزید برآں واقعیت پسندوں کی اس دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ دماغ کو اشیا کی خصوصیات کی تصدیق کے تصور کے قابل نہیں ہونا چاہیے۔ ’’برف سفید ہے‘‘ کے جملے کا ہم تصور نہیں کرسکتے کیوں کہ اس فوری بیان کا جزو ہونے کی حیثیت سے محمول کسی اثبات کے بغیر فوراً معلوم ہونا چاہیے۔ ملا محمد ہاشم حسینی کی رائے میں یہ استدلال غلط ہے وہ کہتا ہے برف ہے کہ برف کی سفیدی کی اطلاع دینے کے عمل کے وقت ہمارا دماغ ایک خالصتاً ذہنی وجود یعنی سفیدی کی خاصیت کو مدنظر رکھتا ہے نہ کہ خارجی طور پر اصلی ماہیت کو جس کے مختلف پہلو یہ خواص ہیں۔ علامہ اقبال ملا محمد ہاشم حسینی کے اس قول کو ہملٹن (Hamilton) کے نظریات کا پیش رو خیال کرکے کہتے ہیں کہ حسینی اس بارے میں دیگر حقیقت پسندوں سے اختلاف رائے رکھتا ہے۔ حسینی کا خیال ہے کہ کسی چیز کی نام نہاد ناقابل معلوم ماہیت بھی اس کے تصور کے ساتھ ہی فوراً ہمارے علم میں آجاتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمیں چیز کا فوراً ہی وحدانی ادراک حاصل ہوتا ہے۔ اس طرح ہم اپنے مدرکات کے مختلف پہلوئوں کا یکے بعد دیگرے احساس نہیں کرتے۔ ۲- حقیقت پرستوںنے اپنے نظریہ وجود کی وضاحت کے لیے دوسری دلیل کو تصوریت کی تنقید کی شکل میں پیش کیا ہے۔ یہاں ان کی دوسری دلیل کا خلاصہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔ حقیقت پرست فلسفی تصور پرست فلاسفہ پر تنقید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تصور پرست اشیا کے خواص کو صرف اپنے داخلی اور موضوعی تعلقات کے تابع کردیتا ہے۔ تصوریت کے عَلم۔بردار فلسفی کا استدلال اسے اشیا میں پوشیدہ ماہیت کا منکر بنا کر اشیا کو کلیتاً صفات کے مختلف مجموعوں کے روپ میں دیکھنے پرمجبور کرتا ہے۔ اس طرح اس کی نظر میں ان مختلف چیزوں کی ماہیت محض ان کے ادراک کی ظاہری حقیقت پر مشتمل ہوتی ہے۔ وہ اشیا کے مکمل جنسی اختلاف میں یقین رکھنے کے باوجود وہ ان سب چیزوں کے لیے وجود کا لفظ استعمال کرتا ہے یہ ایک قسم کا خاموش اعتراف ہے کہ موجودات کی تمام مختلف اشکال میں ایک ہی قسم کی ماہیت پائی جاتی ہے۔ حقیقت پرست فلسفیوں کی اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے مشہور تصور پرست ابوالحسن الاشعری یہ کہتا ہے کہ تمام اشیا کے لیے لفظ ’’وجود کا یہ استعمال صرف ایک لفظی سہولت ہے اور یہ چیزوں کے نام نہاد باطنی اختلافِ جنس کا مظہر نہیں۔ علامہ اقبال اس بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے ان دونوں مکاتبِ خیال کی باہمی چپقلش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: لیکن جب تصور پرست لفظِ وجود کا ہمہ گیر استعمال کرتے ہیں تو حقیقت پرستوں کی رائے میں اس کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ کسی چیز کا وجود یا تو اس شے کی ماہیت بناتا ہے یا اس شے کے اندر چھپی ہوئی ماہیت پر اوپر سے کچھ اضافہ کیا گیا ہے۔ یہاں پہلا مفروضہ اصل میں اشیا کی یکسانیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے کیوں کہ ہم یہ نہیں کَہ سکتے کہ ایک شے کا وجودِ خاص دوسری شے کے خصوصی وجود سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ اس طرح دوسرا مفروضہ کہ وجود کسی چیز کی ماہیت میں خارجی اضافہ ہوتا ہے، حماقت آمیز ہے کیوں کہ ایسی حالت میں ماہیت کو وجود سے بالکل مختلف تصور کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اشاعرہ کی رائے میںماہیت کا انکار عدم اور وجود کے امتیاز کو ختم کردے گا۔ ماہیت (Essence) اور وجود (Existence) کی اس بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال اب یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ شے کے خارجی وجود سے قبل اس کی ماہیت کیا ہوتی ہے۔ ان کی نظر میں ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ حقیقتاً معرض وجود میں آنے سے بیشتر ماہیتِ شے وجود کو حاصل کرنے کے لیے بالکل تیار تھی۔ اگر ہم ایسا کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ شے کی ماہیت معرضِ وجود میں آنے سے قبل پردہ عدم میں تھی۔ بقیہ یہ قول کہ ماہیت عدم کی خصوصیت کو حاصل کرنے کی طاقت رکھتی ہے، شے کے حقیقی وجود سے قبل اس کی ماہیت عدم اور نیستی پر دلالت کرتا ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر ہمیں وجود کو کسی چیز کا جزو ترکیبی خیال کرنا چاہیے۔ اس نقطہ نگاہ سے ماہیت کو مرکب سمجھنا ہوگا۔ اس کے برعکس اگر وجود ماہیت سے خارج ہو تو پھر دوسری شے کا محتاج ہونے کی بنا پر اسے اس پر مبنی خیال کیا جانا چاہیے۔ اب اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہر مبنی معلول کی ضرورت کوئی علت (Cause) ہونی چاہیے۔ اگر ماہیت کو ہی وجود کی علت قرار دیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ماہیت اپنے وجود سے پہلے موجود تھی۔ علت اپنے معلول (Effect) سے پہلے ہی آنی چاہیے۔ اگر ماہیت کو چھوڑ کر وجود کی کوئی اور علت قرار دی جائے تو پھر اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا کے وجود کی تعبیر کے لیے ہمیں ذات خداوندی کے علاوہ کوئی اور علت تلاش کرنی پڑے گی۔ یہ ایک ایسا احمقانہ نتیجہ ہے جو لازم الوجود کو محتاجِ وجود بنا دیتا ہے۔ حقیقت پرستوں کی یہ دلیل تصور پرستوں کے نقطۂ نظر کی مکمل غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حقیقت پرست اس بات سے لاعلم ہے کہ تصور پرست نے کبھی بھی کسی چیز کی حقیقتِ وجود کو اس کی ماہیت کا خارجی اضافہ خیال نہیں کیا بلکہ اس نے ہمیشہ ہی وجود اور ماہیت کو یک رنگ سمجھا ہے۔ علامہ اقبال ابن مبارک کے نظریۂ ماہیت و وجود پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ابن مبارک کا قول ہے کہ تاریخی تسلسل کے تقدم کے بغیر ماہیت وجود کی علت ہے۔ ماہیت کی زندگی وجود کے تار و پود کی تشکیل کرتی ہے۔ اس لیے وہ اس کے لیے کسی دوسری چیز کی محتاج نہیں۔ اصلیت یہ ہے کہ حقیقت پرست اور تصور پرست صحیح نظریۂ علم سے بہت دور ہیں۔ شکوک و شبہات کے شکار حقیقت پرست کا خیال ہے کہ کسی چیز کی ظاہری خصوصیات کے پس پردہ ایک ایسا جوہر (Esscence) ہے جواس کی علت کے طور پر کارفرما ہوتا ہے۔ اس پر ایک بدیہی تضاد کا الزام لگایا جاسکتا ہے کیوں کہ اس کی رائے میں اشیا کے پردے میں ایک ناقابل فہم جوہر یا زیریں تَہ کی موجودگی کا ہمیں پتا چلتا ہے۔ اس کے برعکس تصور پرست اشاعرہ علم کے طریق کار کو غلط سمجھتا ہے کیوں کہ وہ حصول علم کے عمل سے وابستہ ذہنی سرگرمی کو نظر انداز کردیتا ہے اور وہ مدرکات کو محض خدا کے متعین کردہ مظاہر خیال کرتا ہے۔ اگر مظاہر کی ترتیب کو کسی علت کی ضرورت ہی ہے تو لاک (Locke) کے خیال کے مطابق اسے مادے کی اصلی ترکیب میںکیوں نہ تلاش کیا جائے؟ مزید برآں پیش آنے والی شے کا غیر متحرک احساس یا اشعور کانظریۂ علم چند ناقابل تسلیم نتائج کو جنم دیتا ہے۔ جن کے بارے میں اشاعرہ نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ علامہ اقبال اشاعرہ کے نظریہ علم کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس کی مندرجہ ذیل تین اہم خامیوں کی یوں نشاندہی کرتے ہیں: (الف) اشاعرہ کی نگاہوں سے یہ بات اوجھل رہی کہ ان کی خالصتاً داخلی اور موضوعی (Subjective) تصور علم نے غلطی کے تمام امکانات کو ختم کردیا ہے۔اگر کسی چیز کا وجود محض حقیقتِ نمود ہے تو پھر اسے اپنی اصلیت سے مختلف شناخت کی کوئی وجہ نہیں۔ (ب) اشاعرہ اس امر سے بے خبر رہے کہ ان کے نظریۂ علم کی بنا پر طبعی نظام کے دیگر عناصر کی مانند بنی نوع انسان ہمارے شعور کی محض حالتوں سے زیادہ اعلیٰ تر اصلیت کے مالک نہیں ہوسکیں گے۔ (ج) اگر علم امثال (Presentations) کے محض حصول کا نام ہے تو پھر امثال کی علت یعنی ہمارے علم کے عمل کی نسبت سے فعّال خدا کو ہمارے امثال سے لاعلم ہونا چاہیے۔ اشاعرہ کے نقطہ نگاہ سے یہ نتیجہ ان کی ساری پوزیشن کے لیے خطرناک بن جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں کَہ سکتے کہ میری ختم ہونے والی امثال خدا کے شعور کے لیے جاری و ساری رہیں گی۔ علامہ اقبال کی اشیا کی ماہیت اور وجود کی بحث کے بارے میں حقیقت پرستوں اور تصوریت کے حامیوں کے ایک اور اختلافی امر پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یونانی فلسفی افلاطون کے پیروکار اس نقطہ نگاہ کی وکالت کرتے ہیں کہ اشیا کا وجود کسی خارجی علت کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ چیزیں بذات خود موجود ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ارسطو کے تابعین کے مخالفین یعنی اشاعرہ اس بات میں ایمان رکھتے ہیں کہ کائنات کی چیزوں کا وجود خارجی علت کے تابع ہوتا ہے۔ ارسطو کے پیروکاروں کو ان کے مخالفین عام طور پر فلاسفہ کہا کرتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں ارسطو کے فلسفیانہ نظام کے پیروکار اشیائے کائنات کی حقیقت رسی کے لیے عقل و خرد کے استعمال کو ایک موثر ترین ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ علامہ اقبال اس ضمن میں ابنِ مبارک کی شرح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ارسطو کے مکتب خیال کے حامیوںکا یہ نظریہ بیان کرتے ہیں: ارسطو کا پیروکار فلسفی یہ کہتا ہے کہ شے کی ماہیت پر کوئی بیرونی عامل اثر انداز نہیں ہوسکتا ہے۔ اس مکتب خیال کے مخالفین اس رائے سے ہرگز متفق نہیں۔ اُن کے خیال میں کسی شے کا وجود بھی بذاتِ خود قائم نہیں بلکہ یہ کسی بیرونی علت پر منحصر ہوا کرتا ہے۔ کیا یہ مسلمہ حقیقت نہیں کہ دنیا کی کوئی چیز بذاتِ خود موجود نہیں ہوتی؟ کائنات کی تمام اشیا خدا تعالیٰ کی خلاقی صفت اور جذبہ خود نمائی کی مرہون منت ہیں جیسا کہ علامہ اقبال اپنے ایک شعر میں خدا سے کہتے ہیں: بہ ضمیرت آرمیدم، تو بجوشِ خودنمائی بکنارہ برفگندی دُرّ آبدارِ خود را [کلیات اقبال، ص ۴۴۵] ہر ایک مخلوق کسی خالق اور ہر ایک صفت کسی صانعِ کے وجود کے تابع ہوتی ہے۔ مخلوقاتِ جہاں کے بے سبب اور ذاتی وجود کا عقیدہ کھلی ہوئی مادہ پرستی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ تمام مظاہرِ فطرت کی تخلیق احسن الخالقین کی کرشمہ سازی اور جلوہ گری نہیں تو اور کیا ہے؟ الکاتبی پیروانِ ارسطو کے اس تصور ماہیت کی حمایت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر ہم خلاصہ انسانیت کی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کسی خارجی سرگرمی کے اثر کا نتیجہ قرار دیں تو پھر ہم کو انسانیت کی ماہیت کی اصلیت کے بارے میں شک و شبہ کا احتمال ہو جائے گا۔ فی الحقیقت اس بارے میں ہمیں کوئی شک نہیں ہوتا اس لیے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ماہیت بذات خود کسی خارجی علت کی سرگرمی کی بنا پر نہیں ہے۔ حضرت علامہ عینیت پسندوں کے مطمح نگاہ کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عینیت پرست مفکر اپنی دلیل کا آغاز حقیقت پرستوں کی طرح ماہیت اور وجود کی تفریق سے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقت پرستوں کی یہ دلیل کہ انسان غیر معلول ہے، ایک احمقانہ تجویز پر منتج ہوگی۔ کیوں کہ عینیت پرست مفکر کی رائے میں حقیقت پرست فلاسفہ انسان کو دو بلاعلت (غیر معلول) جواہر… وجود اور انسانیت… کا مرکب سمجھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی ذات پاک کے علاوہ کوئی معلول بھی کسی علت کے بغیر معرض وجود میں نہیں آسکتا۔ (ب)علم کی نوعیت علامہ اقبال اشیائے کائنات کی ماہیت کے بارے میں مختلف نظریات بیان کرنے کے بعد علم کی نوعیت کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اس مشکل مسئلے کی وضاحت کے لیے وہ حقیقت پرستوں اور عینیت کے حامیوں کے متضاد تصورات کو بڑے مختصر انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان دونوں مکاتب ِفکر کے دلائل کا خلاصہ یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ ارسطو کے پیروکار فلسفی چیزوں کی ماہیت کی آزادانہ اور معروضی (Objective) اصلیت میں پختہ اعتقاد رکھنے کی بنا پر علم کو بھی اس معیار پر پرکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں علم دراصل خارجی اشیا کے تصورات اور خیالی پیکروں کو حاصل کرنے کا دوسرا نام ہے۔ ابنِ مبارک نے ان کے نظریۂ علم کو مختصر الفاظ میں یوں ڈھالا ہے۔ ’’علم خارجی چیزوں کے تصورات کا حصول ہے۔‘‘ اس مکتب خیال کے عَلم۔برداروں کی رائے میں خارجی طور پر کسی غیر حقیقی شے کا تصور کرنا اور اسے دوسری خصوصیات سے منسوب کرنا عین ممکن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ہم اسے وجود کی صفت کا حامل قرار دیتے ہیں تو اس وقت حقیقی وجود مستلزم ہوجاتا ہے کیوں کہ کسی شے کی صفت کا اثبات اس سے شے کے وجود کے اثبات کا حصہ ہوتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر وجود کی خبر کسی چیز کے اصل او رخارجی وجود کا لازمی سبب نہیں بنتی تو پھر ہم کلیتاً خارجیت کا انکار کرنے اور اس شے کو محض ایک خیالی پیکر قرار دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ابن مبارک کا قول ہے: کسی شے کا اثبات اس کے وجود اور ہستی کی تشکیل کیا کرتا ہے۔ اس استدلال سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ کسی شے کو محض خیالی وجود خیال کرنا درست نہیں۔ خیالی پیکر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی اصلی ہستی کو ظاہر کرنے کی خاطر خارجیت کے لباس میں بھی جلوہ گر ہو۔ کسی باطنی تصور اور خیالی پیکر کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے خارجیت کے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ مصور کے ذہن میں کسی تصویر کا صرف خیال ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے اپنے موقلم اور رنگوں کے ذریعے خارجی شکل بھی دیا کرتا ہے جسے دیکھ کر ہم اس کے بارے میں علم حاصل کرسکتے ہیں۔ علامہ اقبال محض انفس کے علم کے مداح ہی نہیں تھے بلکہ وہ آفاق کے عمیق مطالعہ اور مشاہداتی علم کے بھی زبردست حامی تھے جیسا کہ درج ذیل اشعار سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ ’’نظر‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’خبر‘‘ اور باطن و ظاہر کے حسین امتزاج کو حصول علم کا موثر ذریعہ قرار دینے پر ہمیشہ زور دیا کرتے تھے۔ وہ حصول علم اور خارجی اشیا کے گہرے ربط پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: کوہ و صحرا، دشت و دریا، بحر و بر تختۂ تعلیمِ اربابِ نظر علم، تسخیرِ، تغیرِ جہانِ رنگ و بُو دیدہ و دل پرورش گیرد ازو [جاوید نامہ] فلسفہ ارسطو کے شیدائیوں کے تصور علم کو مجملاً بیان کرنے کے بعد علامہ اقبال مرحوم و مغفور ان کے ناقدین اور اشاعرہ کے نظریہ علم پر بھی اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقت پرستوں کی طرح عینیت پرست مفکرین اشیا کے وجود اور اثبات میں تفریق نہیں کرتے۔ حقیقت پرست فلسفیوں کی طرح اشاعرہ بھی اس بات کے حامی ہیں کہ خارجیت کا انکار کرنے ہی سے کسی شے کی خیالی ہستی اور تصوراتی وجود لازم آتا ہے۔ اشاعرہ کی نظر میں علم کی تعریف یہ ہے کہ یہ جاننے والے اور خارجی طور پر جانی گئی شے کے درمیان ایک باہمی تعلق ہے۔ دوسرے الفاظ میں اشاعرہ بھی جاننے والے اور اشیا کے خارجی وجود کے باہمی ربط کے قائل ہیں۔ اگر کوئی چیز خارج میں موجود نہ ہو تو علم کا جویا تشنہ علم ہی رہے گا۔ الکاتبی نے یہ بھی کہا تھا کہ کوئی شے خارجی وجود کی حامل نہ ہونے کے باوجود بھی خیالی اور ذہنی وجود کی مالک قرار دینی چاہیے۔ مفکر اسلام علامہ اقبال الکاتبی کی اس رائے کو متضاد بیان خیال کرتے ہوئے اس پر تنقید کرتے ہیں۔ ایک طرف تو الکاتبی ارسطو کی ہم نوائی کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ اشیا کے حقیقی وجود کو ثابت کرنے کے لیے تصور کے علاوہ خارجیت کا عنصر بھی ضروری ہے اور دوسری طرف وہ اس امر کی بھی وکالت کرتا ہے کہ خارجیت کے بغیر بھی اشیا وجود کی حامل ہوسکتی ہیں۔ (ج)عدم کی نوعیت معتزلہ اور اشاعرہ کے نظریہ ہائے علم کا خلاصہ بیان کرنے اور الکاتبی کی تضاد بیانی کو ہدف تنقید بنانے کے بعد علامہ اقبال ان کے تصورات ہستی ونیستی کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں تاکہ اس بارے میں بھی ہمیں ان کے فلسفیانہ اختلافات کا مزید کچھ پتا چل سکے۔ وہ اس دل چسپ مگر مشکل بحث کا آغاز اس امر سے کرتے ہیں کہ الکاتبی اشیا کے عدم وجود کے متعلق کیا رائے رکھتا تھا اور اس نے اپنے ہم عصر فلاسفہ سے اختلاف کرتے ہوئے انھیں کیوں اپنی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ الکاتبی کے معاصرین عموماً اس نظریے کے حامی تھے کہ ہر موجود شے اچھی ہوتی ہے اور ہر معدوم چیز شر کی حامل ہے۔ ابن مبارک کے الفاظ میں الکاتبی کے ہمعصر فلسفیوں کا یہ نظریہ تھا کہ ’’ہر موجود خیر ہے اور ہر غیر موجود شر ہے۔‘‘ الکاتبی اپنے اس تصور کو واضح کرنے کے لیے قتل کی مثال دے کر کہتا ہے کہ قتل کا فعل قاتل کی قوت قتل یاآلہ قتل کی طاقت انقلاع یا مقتول کی گردن کی صلاحیت انفعال کے سبب شر نہیں ہے بلکہ یہ اس وجہ سے برا فعل ہے کہ یہ زندگی کی نفی کا مظہر ہے۔ نفی حیات اصل میں وہ حالت ہے جو کسی موجود شے کو معدوم بنا دیتی ہے۔ برائی کو عدم کے مترادف قرار دینے سے بیشتر ہمیں استقرائی تحقیق سے کام لیتے ہوئے برائی کی تمام حالتوں کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ شر کی اصلیت کو جاننے کے لیے مکمل استقرا ممکن ہے اور ایک نامکمل استقرا ہمارے اس نقطہ نظر کو ثابت نہیں کرسکتا۔ اس کے باوجود ہمیں جزئیات سے کل نتیجہ اخذ کرنے میں استقرائی طریق عمل اختیار کرنا چاہیے۔ اس بنا پر الکاتبی اس مفروضے کی تردید کرتے ہوئے یہ کہتا ہے۔ ’’عدم یا نابود مکمل نیستی کا دوسرا نام ہے۔‘‘ الکاتبی کے خیال میں جواہر صفتِ حیات حاصل کرنے کے انتظار میں مکانیت میں پہلے سے جامد نہیں ہیں۔ اگر ہم ایسا سوچیں تو ہمیں جمود مکانی کو وجود کی صفت سے عاری قرار دینا پڑے گا۔ الکاتبی کے ناقدین کی رائے میں اس کا یہ نظریہ صرف اس مفروضے کے مطابق درست ہے کہ جمود مکانی اور ہستی آپس میں توام ہیں۔ جمود مکانی اور ہستی کی بحث کے ضمن میں ابن مبارک کے یہ الفاظ بھی قابل غور ہیں۔ اس نے کہا ہے: خارجیت میں جمود کا تصور ہستی کے تصور سے زیادہ وسیع ہے۔ ہر ہست شے خارجی ہے لیکن ہر خارجی شے لازمی طور پر ہست نہیں۔ ہستی، جمود مکانی اور خارجیت کی دقیق مکانی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ اقبال اشاعرہ کے عقیدہ حشر اوربعث بعد الممات کے تصور کومورد تنقید قرار دیتے ہیں کیوں کہ ان کے خیال میں اشاعرہ کا یہ نظریہ معقولیت کی راہ سے ہٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ حیات بعد الممات کا عقیدہ اسلامی تعلیمات کا ایک اہم جزو ہے۔ اس عقیدے کی رو سے ہمیں موت کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا تاکہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور پہنچ کر اپنے اچھے اور برے اعمال کے نتائج کے مطابق جزا اور سزا کے مستحق ہوسکیں۔ اس عقیدے میں اشاعرہ کو خاص دل چسپی پیدا ہوگئی تھی کیوں کہ یہ عقیدہ غیر موجود کے دوبارہ ظہور حیات کے امکان کا حامل تھا۔ موت کے بعد کی زندگی کے اس عقیدے نے اشاعرہ کے دل و دماغ میں یہ احمقانہ مفروضہ جاگزیں کردیا تھا کہ ہر نیست شے یا عدم کچھ شے ہے۔ اشاعرہ کا یہ قول ملاحظہ ہو: ’’عدم یا نیستی وجود سے مکمل طور پر عاری نہیں ہے۔‘‘علامہ اقبال اشاعرہ کے اس استدلال کو حماقت آمیز اور مضحکہ خیز قرار دیتے ہیں۔ اشاعرہ کا کہنا یہ تھا چونکہ ہم غیر موجود کے بارے میں فیصلہ جات کرتے ہیں اس لیے یہ معلوم ہے۔ وہ صفت زندگی سے محروم شے کی قبولیت علم کو مظہر وجود سمجھتے ہوئے یہ کہا کرتے تھے: نیست مکمل طور پر نیست نہیں ہے۔ کیوں کہ ہر قابل علم شے اثبات کی حالت کی آئینہ دار ہے۔ چونکہ غیر موجود کے بارے میں ہم ہر علم رکھ سکتے ہیں اس لیے وہ بھی ہستی پر دلالت کرتا ہے۔ الکاتبی اشاعرہ کے اس استدلال کے کبریٰ کا انکار کرتے ہوئے یہ کہتا ہے: ’’تمام ممکن اشیا معلوم ہونے کے باوجود بھی خارجی طور پر موجود نہیں ہوا کرتیں۔‘‘ الرازی الکاتبی کی اس دلیل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے اس حقیقت سے ناواقف قرار دیتا ہے کہ ماہیت دماغ میں موجود ہونے کے علاوہ خارجی طور پر بھی معلوم ہوتی ہے۔ علامہ اقبال الکاتبی کے نظریہ علم وجود کو بڑے اختصار کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ الکاتبی کی رائے میں کسی شے کا علم اس کی آزادانہ معروضی حقیقت کے وجود کا لازمہ بن جاتا ہے۔ علامہ اقبال ہمیں اس امر کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ اشاعرہ ایک طرف تو مثبت اور موجود میں اور دوسری طرف وہ غیر موجود اور منفی میں تمیز کرتے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ ہر موجود شے مثبت ہوتی ہے اور ہر غیر موجود شے اثبات کی حامل نہیں ہوتی۔ شاعر مشرق اور مفکر اسلام حضرت علامہ اشاعرہ کے اس قول سے پوری طرح متفق نہیں ہیں۔ وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ موجود اور غیر موجود کے درمیان یقینا باہمی تعلق ہوتا ہے مگر وہ مثبت اور منفی کے باہمی ربط کے قائل نہیں ہیں۔ علامہ اقبال بعدازاں الکاتبی کے نظام فکر کے ایک اہم پہلو پر ناقدانہ نظر ڈالتے ہوئے یہ کہتے ہیں: ہم الکاتبی کی طرح یہ نہیں کہتے کہ ہر ناممکن غیر موجود ہوتا ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر ناممکن شے صرف منفی ہوتی ہے۔ ہستی کی صفت کے حامل جواہر کسی حد تک مثبت ہوتے ہیں۔ جہاں تک صفت کا تعلق ہے اس کے وجود کو جوہر سے جدا خیال نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صفت نہ ہی ہست اور نہ ہی نیست ہوتی ہے بلکہ اسے ہستی اورنیستی کے درمیان سمجھنا چاہیے۔ بود و نابود (وجود و عدم) اور اثبات و نفی کی اس مشکل بحث کو ختم کرنے سے قبل علامہ اقبال اس بات کو ضروری خیال کرتے ہیں کہ اس بارے میں اشاعرہ کے افکار و نظریات کی تلخیص پیش کی جائے۔ انھوں نے اشعری مکتب خیال کے حامیوں کے تصور ہست و نیست کو ابن مبارک کی شرح کے الفاظ میں ہمارے سامنے رکھا ہے۔ ابن مبارک البخاری نے مشہور معتزلی فلسفی الکاتبی کی بلند پایہ تصنیف حکمۃ العین کے مباحث کی وضاحت کے لیے ایک شرح لکھی تھی جسے علامہ اقبال نے متعدد مواقع پر بطور حوالہ پیش کرتے ہوئے معتزلہ اور اشاعرہ کے نمایاں ترین فلسفیانہ امور پر روشنی ڈالی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی طالب علمی کے قیام کے دوران اپنی اس اولین فلسفیانہ کتاب The Development of Metaphysics In Persiaکی تیاری کے لیے اس کتاب کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ یہ کتاب لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں موجود ہے۔ ابن مبارک نے اپنی کتاب شرح حکمۃ العین میں اشاعرہ کے نظریہ وجود و عدم کا خلاصہ ان الفاظ میں تحریر کیا تھا: ہر شے اپنی ہستی کا ثبوت رکھتی ہے یا نہیں رکھتی۔ یا اگر اس کی ہستی کا ثبوت نہ ملے تو اسے منفی کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اس کا وجود ثابت ہو جائے تو یا تو یہ جوہرہوگی یا صفت۔ اگر یہ جوہر ہے تو پھر یہ ہستی یا نیستی کی صفت کی حامل ہوگی۔ (یعنی یہ یا تو محسوس ہوگی یا غیر محسوس ہوگی)۔ اپنی اس صفت کے مطابق یہ یا تو موجود متصور ہوگی یا غیر موجود خیال کی جائے گی۔ اگر یہ شے صرف صفت ہے تو یہ نہ تو موجود ہے اور نہ ہی معدوم ہے۔ ابن مبارک کے اس قولِ فیصل کے بعد اس مشکل اور دل چسپ بحث کا خاتمہ ہو جاتا ہے