Actions

پیام

From IQBAL

Revision as of 17:34, 25 May 2018 by Sana Maqsood (talk | contribs) (Created page with " <center> ==<big>پیام</big>== عشق نے کر دیا تجھے ذوقِ تپش سے آشنا<br> بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے<br> شا...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

پیام

عشق نے کر دیا تجھے ذوقِ تپش سے آشنا
بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے

شانِ کرم پہ ہے مدار عشقِ گرہ کشاے کا
دیر و حرم کی قید کیا! جس کو وہ بے نیاز دے

صورتِ شمع نور کی ملتی نہیں قبا اُسے
جس کو خدا نہ دہر میں گریۂ جاں گداز دے

تارے میں وہ، قمر میں وہ، جلوہ گہِ سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمۂ امتیاز دے

عشق بلند بال ہے رسم و رہِ نیاز سے
حسن ہے مست ناز اگر تو بھی جوابِ ناز دے

پیر مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ کیف غم نہیں، مجھ کو تو خانہ ساز دے

تجھ کو خبر نہیں ہے کیا! بزم کہن بدل گئی
اب نہ خدا کے واسطے ان کو مے مجاز دے