Actions

پہلا باب: ایرانی ثنویت

From IQBAL

باب اوّل ایرانی ثنویت (Dualism)

اس باب میں علامہ اقبال نے مندرجہ ذیل نکات کو مختصر طور پر بیان کیا ہے: ۱- زرتشت ایران کا ایک قدیم، اہم اور عظیم مفکر تھا جس نے خیر و شر کی ازلی چپقلش کو ظلمت و نور اور اہرمن ویزدان کی شکل میں پیش کیا تھا۔ ۲- زرتشت کسی دیو مالائی (Mythical) شخصیت کا نام نہیں بلکہ اس کی تاریخی حیثیت اب مسلم ہوگئی ہے۔ ۳- زرتشت نے اپنے نظام خیر و شر کی اساس فطرت میں موجود ترتیب و انتشار اور قانون و تصادم کے اُصول پر رکھی تھی۔ ۴- زرتشت کے نظریہ ثنویت (Dualism) نے نہ صرف ایران کے قدیم فلسفے اور عیسائیت کے اولین دور کو متاثر کیا بلکہ جدید مفکرین اور فلاسفہ خصوصاً ہیگل، کارل مارکس اور شوپنہار بھی اثر پذیر ہوئے۔ ۵- زرتشت کے تصور روح کی رو سے روح انسانی خدا کا جزو نہیں بلکہ یہ خدا کی تخلیق ہے۔ روح کو بدی یا نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے آزادی عمل دی گئی ہے۔ ۶- زرتشت نے فلسفیانہ ثنویت اورمذہبی وحدت کا نظریہ پیش کیا تھا جس نے اس کے پیروکاروں کو دو مخالف گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ۷- زرتشت کے برعکس ایک اور قدیم ایرانی مفکر، مانی (Mani) نیکی اور بدی کو دو آزاد طاقتیں خیال کرتا تھا۔ ۸- مانی دنیا کو بنیادی طور پر شر قرار دیتا تھا۔ اس تصور نے ترک دنیا اور عیسائی نظریہ نجات کو تقویت دی ہے۔ ۹- مانی کائنات کی ہماہمی کو شیطانی سرگرمیوں کا لازمی نتیجہ تصور کرتا تھا۔ ۱۰- ایران کے ایک اور قدیم مفکر، مزدک (Mazdak)کی رائے میں نور اور ظلمت (خیر و شر) کی دو آزاد طاقتوں نے اشیائے کائنات کی کثرت کو جنم دیا تھا۔ ۱۱- مزدک نے ایران میں سب سے پہلے انسانوں کی مساوات اور سوشلزم کا پرچار کیا تھا۔ اس لحاظ سے اسے کارل مارکس کا پیش رو خیال کرنا چاہیے۔ اس باب میں علامہ اقبال نے ایران کے ایک قدیم اور شہرہ آفاق مفکر اور معلم اخلاق فلسفی یعنی زرتشت کے فلسفیانہ افکار، اخلاقی ضوابط اور اس کے نظریات کے دور رس اثرات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس ضمن میں اقبال کے تصور زرتشت کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ زرتشت کے نظریہ نور و ظلمت نے دنیا کے عظیم نظام ہائے فکر اوربلند پایہ فلاسفہ اور مفکرین پر گہرا اثر چھوڑا ہے۔ نور و ظلمت کی آویزش اور اہرمن و یزدان کی باہمی چپقلش کا ذکر دنیا کے بیشتر مذہبی، ادبی، سماجی اور اخلاقی اُصولوں کے لیے محور کا کام دیتا ہے۔ آیئے ہم یہاں زرتشت کے فلسفیانہ نظام کی اس اساس کے مختلف پہلوئوں کا مختصر جائزہ لیں۔ زرتشت زرتشت کو ایرانی آریائیوں کی تاریخ فلسفہ میں پہلا مقام دینا چاہیے۔ اسے صحیح معنوں میں ایران کا قدیم حکیم یعنی فلسفی کہا جاسکتا ہے کیوں کہ جب آریائی نسل سے تعلق رکھنے والے ایرانی مسلسل صحرانوردی اور دشت گردی سے اکتا کر زراعتی زندگی اختیار کرچکے تو ایران کے اس قدیم اور مایہ ناز مفکر نے اپنے فکری نظام کی تشکیل شروع کردی تھی اس لحاظ سے اسے ایران کی فکری تاریخ میں اولین اور نمایاں ترین حیثیت دی جاتی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب کہ وسطی ایشیا کے میدانوں میں وید کے بھجن ترتیب پارہے تھے۔ ان آباد کاروں کے نئے طریق زندگی اور ان کی جائیداد کے مستحکم قوانین کو ان دیگر آریائی قبائل نے بنظر حقارت دیکھنا شروع کردیا جو ابھی تک اپنی پرانی بدوی عادات سے وابستہ اور اپنے سے زیادہ مہذب عزیز و اقارب کو گاہے گاہے اپنی لوٹ مار کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ اس طرح آریائی نسل کے ان دو مختلف گروہوں کے درمیان چپقلش کا آغاز ہوگیا۔ دو مختلف طرز حیات رکھنے کی بنا پر انھوں نے ایک دوسرے کے دیوتائوں کو ہدف ملامت بنایا۔ ان دیوتائوں کی باہمی مذمت میں ہمیں ان دو گروہوں کی محاذ آرائی کاآہستہ آہستہ آریائی نژاد ایرانیوں کو دوسرے آریائی قبائل سے جدا کرکے آخرکار زرتشت کے مذہبی تصورات کی شکل اختیار کرلی تھی۔ علامہ اقبال زرتشت کے دو اہم یونانی معاصرین اور زرتشت کے افکار کی بنیاد کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ایران کا یہ عظیم پیغمبر سولن (Solon) اور تھیلز (Thales) کا ہم عصر اور معلم اخلاق تھا۔ جدید مشرقی تحقیقات کی مدھم روشنی میں ہم قدیم ایرانیوں کو دو گروہوں میں منقسم پاتے ہیں۔ ایک گروہ نیکی کی قوتوں کا حامی تھا جب کہ دوسرا گروہ بدی کی طاقتوں کا طرفدار تھا۔ اس وقت اس عظیم حکیم نے ان کے پرجوش مناظرے میں شریک ہوکر اپنے اخلاقی ولولے کے ساتھ بھوت پریت کی پوجااور مجوسی پاپائیت کی ناقابلِ برداشت رسومات و عبادات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قلع قمع کردیا۔‘‘ ایران کے نامور مفکر زرتشت کی تاریخی حیثیت کے بارے میں تذکرہ نگاروں اور مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اس کے حقیقی وجود کو تسلیم کرتے ہیں اوربعض حضرات اسے ایک دیومالائی شخصیت قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال اس مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں جو زرتشت کوفرضی شخصیت کی بجائے ایک تاریخی شخصیت قرار دینے پر مصرہے۔ مندرجہ بالا اقتباس سے یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ کہ وہ زرتشت کو سولن اور تھیلز کا معاصر خیال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ مزید فرماتے ہیں: بعض یورپی فضلا نے زرتشت کو ایک دیومالائی شخصیت سے زیادہ کچھ بھی خیال نہیں کیا لیکن پروفیسر جیکسن (Jackson) کی قابل تعریف تصنیف حیات زرتشت کے بعد سے میری رائے میں یہ ایرانی پیغمبر انجام کار جدید تنقید کی آزمایش سے بچ گیا ہے۔ علامہ اقبال زرتشت کے مذہبی نظام کے آغاز و ارتقاکونظر انداز کرتے ہوئے اس کے الہام کے مابعد الطبیعیاتی پہلو یعنی فلسفہ کی مقدس تثلیت (خدا، انسان اور کائنات) کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہیں۔ ان کی رائے میں گیگر (Geiger) نے اپنی کتاب از منہ قدیم میں مشرقی ایرانیوں کی تہذیب میں یہ بات واضح کی ہے کہ زرتشت نے اپنے آریائی آبا و اجداد سے ورثے میں دو بنیادی اُصول پائے تھے: ۱- فطرت میں قانون پایا جاتا ہے۔ ۲- فطرت میں تصادم موجودہے۔ کائنات کی اشیا میں قانون و تصادم کے اس ہمہ گیر منظر کو دیکھ کر زرتشت نے اسے اپنے فلسفیانہ نظام کی بنیاد بنایا تھا۔ زرتشت کو اب یہ مسئلہ درپیش تھا کہ وہ کس طرح شر کے وجود اور خدا کی ازلی خیر کو آپس میں ہم آہنگ کرے۔ اس کے پیش رو نیکی کی بہت سی قوتوں کے پجاری تھے۔ اس نے نیکی کی ان سب قوتوں کو وحدت کی لڑی میں پرو کر اہور مزدا ۱؎ کانام دیا۔ اسکے برعکس اس نے بدی کی تمام طاقتوں کو ایک ایک کرکے انھیں رج اہرمن ۲؎کہا، اس طریق اتحاد کے باعث وہ دو بنیادی اُصولوں تک پہنچا جنھیں اس نے دو الگ آزاد فعال قوتوں کی بجائے ذات قدیم کے دو حصے یا دو پہلو خیال کیا۔ ڈاکٹر ہاگ (Haug) کی رائے میں ایران قدیم کا یہ پیغمبر مذہبی طور پر تو توحید پرست تھا مگر فلسفیانہ لحاظ سے وہ ثنویت کا پجاری تھا۔ مفکر اسلام اور ترجمانِ حقیقت علامہ اقبال ڈاکٹر ہاگ کے تصور زرتشت کے بارے میں اپنی تنقیدی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: حقیقت اور غیر حقیقت کے دو خالقوں کی حیثیت سے دو ’’ہمزاد طاقتوں‘‘ کو ماننا اور اسی وقت انھیں ہستی اعظم میںمتحد خیال کرنا یہ کہنے کے مترادف ہے کہ شر کا اُصول خدا تعالیٰ کی ذات کا لازمی جزو ہے اور بدی اور نیکی کی چپقلش خدا کی اپنی ذات کے خلاف جدوجہد کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس لیے مذہبی توحید پرستی اور فلسفیانہ ثنویت کوباہم مربوط کرنے کی کوشش میں خامی پنہاں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ زرتشت کے پیروکاروں میں تفرقہ پیدا ہوگیا۔ ڈاکٹر ہاگ زندیقیوں کو ملحد قرار دیتا ہے۔ علامہ اقبال کی نظرمیں یہ زندیق اپنے مخالفین کی نسبت زیادہ مربوط افکار کے حامل تھے کیوں کہ وہ ہمیشہ بنیادی طور پر دو آزاد قوتوں میں یقین رکھتے تھے جب کہ مجوسی ان دو قوتوں کوایک ہی تصور کرتے تھے۔ خیر و شر کی متحد طاقت کے حامیوں نے مختلف طریقوں اور مختلف اسالیب کے ذریعے زندیقیوں کے اعتراضات دور کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ان ’’اولین ہمزاد قوتوں‘‘ کی وحدت کے بیان میں کامیاب نہ ہوئے اورنہ ہی وہ خود اپنی فلسفیانہ تشریحات سے مطمئن ہوسکے۔ اس طرح ان کے مخالفین کی فکری حیثیت مستحکم ہی رہی۔ شرستانی نے مجوسی مفکرین کی مختلف وضاحتوں کوبڑے اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ زروانی نور اور ظلمت کو لامحدود وقت کے دوبیٹے سمجھتے ہیں کیومردیہ کی رائے میں اصلی قوت تو نور ہے جومخالف طاقت سے خائف تھی۔ مخالف کے خیال اور خوف نے ظلمت کو جنم دیا تھا۔ زروانی فلاسفہ کی ایک اور شاخ کا خیال ہے کہ اصلی قوت نے کسی چیز کے متعلق شک کیا اور بعدازاں اس شک کی بنا پر اہرمن معرض وجود میں آگیا۔ ابن حزم نے اپنی تصانیف میں ایک اور فرقے کا ذکر کیا ہے جس نے اُصول ظلمت کی اس طرح وضاحت کی ہے کہ ظلمت بذات خود نور کی اساسی طاقت کا ایک تاریک حصہ ہے۔ زرتشت کے فلسفیانہ نظام نے یونان کے فلسفہ قدیم اوربعض عیسائی عقائد کو کافی متاثر کیا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ زرتشت کی فلسفیانہ ثنویت کو اس کی توحید پرستی سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے یا نہیں مگر اس امر کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مابعد الطبیعیاتی نقطہ نگاہ سے اس نے حقیقت مطلقہ کی آخری کنہ کے بارے میں ہمیں گہری سوچ عطا کی ہے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال زرتشت کے دور رس فلسفیانہ اثرات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: معلوم ہوتا ہے کہ زرتشت کے اس تصور نے نہ صرف قدیم فلسفہ یونان اور عیسائیت کے اولین دور کے باطنی فکر کو متاثر کیا ہے بلکہ عیسائیت کے اس اثر کے تحت اس نے جدید فلسفہ مغرب کے بعض پہلوئوں پر بھی اثر ڈالا ہے۔ مفکر کے طور پر زرتشت بہت زیادہ عزت و احترام کے لائق ہے۔ نہ صرف اس کی وجہ سے کہ اس نے خارجی کثرت کے مسئلے کو فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے بلکہ اس لیے بھی کہ مابعد الطبیعیاتی ثنویت تک پہنچ کر اس نے اپنی اولین ثنویت کو برتر وحدت میں ڈھالنے کی سعی کی تھی۔ اس نے جرمنی کے کفش ساز صوفی سے کافی عرصہ قبل اس بات کوپالیا تھا کہ اشیائے کائنات کی کثرت کو نفی اور خدا کی ذات کی غیریت کے اُصول کو وضع کیے بغیر بیان نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اس کے فوری جانشین اپنے پیر و مرشد کے افکار کے گہرے مفہوم کو نہ سمجھ سکے۔ ایران کے اس قدیم ترین فلسفی کے نظریہ ظلمت و نور (تصور خیر و شر) نے دنیا کے بیشتر مذہبی، سیاسی اور معاشرتی نظریات کو متاثر کیا ہے۔ افلاطون کا نظریہ عدم و وجود، ہیگل کا جدلیاتی نظام، کارل مارکس کا طبقاتی تصّور، شوپنہار کے علاوہ دیگر مفکرین کے افکار کسی نہ کسی طرح اس زرتشی اثر کے عکاس ہیں۔ علامہ اقبال کی رائے میں اس کے اس تصور نے دور آخر کے فلسفۂ ایران کے بعض پہلوئوں کو زیادہ روحانی انداز بیان عطا کیا ہے۔ وہ اس باب میں اس بحث کونہیں چھیڑتے۔ وہ زرتشت کے نظریہ ظلمت و نور پر قدرے روشنی ڈالنے کے بعد اس کے تصور کائنات کو موضوع بحث بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی ثنویت نے تمام کائنات کو ہستی کے دو شعبوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ایک شعبے کا نام حقیقت اور دوسرے کا نام عدم حقیقت ہے۔ حقیقت سے اس کی مراد وہ تمام نیک مخلوقات ہیں جن کو افادہ بخش قوت کی تخلیقی سرگرمی جنم دیتی ہے اور عدم حقیقت کا مطلب ہے وہ تمام بری مخلوقات جو ضرر رساں قوت کی کوکھ سے پید اہوتی ہیں۔ ان دو قوتوں کی اصلی جنگ کائنات کی مخالف طاقتوں کے روپ میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس طرح مختلف مظاہر فطرت نیکی اور بدی کی طاقتوں کے درمیان مستقل محاذ آرائی کے آئینہ دار ہیں۔ یہاں اس امر کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ان طاقتوں اور ان کی اپنی مخلوقات کے درمیان کوئی چیز بھی حائل نہیں ہوتی۔ چیزیں اپنی ذات میںنہ اچھی ہوتی ہیں اور نہ بری بلکہ وہ اپنے تخلیقی سرچشموں سے پیدا ہو کر خیر اور شر کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ افلاطون کے نظریہ عدم و وجود اور زرتشت کے نظریہ حقیقت و غیر حقیقت میں خط امتیاز کھینچتے ہوئے علامہ اقبال رقم طراز ہیں: زرتشت کا تصور تخلیق بنیادی طور پر افلاطون اور شوپنہار کے نظریہ تخلیق سے مماثل نہیں۔ افلاطون اور شوپنہار کی نگاہ میں تجرباتی حقیقت کے حلقہ ہائے عمل ان زمانی اور غیر زمانی خیالات کا عکس ہیں جو حقیقت اور نمود کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔ زرتشت کی رائے میں حیات کے صرف دو مدارج ہیں اور تاریخ کائنات انھی دو طبقوں کے زیر اثر آنے والی قوتوں کے ارتقا پذیر نزاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دوسری چیزوں کی مانند ہم انسان بھی اس جنگ میں شریک ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم نور کے حامی بن جائیں تاکہ وہ آخرکار غالب آکر ظلمت کی طاقت کو مکمل طور پر نیست و نابود کردے… زرتشت کے نظریہ غیر حقیقت اور افلاطون کے تصور عدم میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔ زرتشت کے خیال میں ظلمت کی قوت کے تخلیقی عمل کے نتیجہ میں معرض وجودمیں آنے والی تمام صورتیں غیر حقیقی ہیں کیوں کہ نور کی طاقت کی آخری فتح کے پیش نظر ان کا وجود محض عارضی ہے۔ زرتشت کے نظریہ نور و ظلم اور تصور حقیقت و غیر حقیقت کو اپنے مخصوص فلسفیانہ انداز میں بیان کرچکنے کے بعد علامہ اقبال زرتشت کے نظریہ روح کو کسی قدر اختصار کے ساتھ موضوع سخن بناتے ہیں۔ جس طرح کائنات کی پیدایش کے بارے میں سائنس دانوں، فلسفیوں، ارباب تصوف و شریعت اور دیگر صاحبان بصیرت نے اپنے اپنے مختلف اور گونا گوں خیالات پیش کیے ہیں اسی طرح روح کا مسئلہ بھی عرصہ قدیم سے نزاع کا باعث بنا ہوا ہے۔ ہر ایک مکتبِ فکر اپنے اپنے دلائل کی روشنی میں روح کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا نادیدہ خواب ہے جس کی سب اہل دانش تعبیر کرنے پر تلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہاتھی کو دیکھنے والے اندھوں کی طرح یہ فلاسفہ اور حکما روح کی نوعیت کے بارے میں بڑے ہی مضحکہ خیز اورمتضاد خیالات پیش کرچکے ہیں۔ اس ضمن میں اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ ع خواب ندیدہ را ہمہ تعبیر می کنند ع شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر ہا الہام و وحی کی حامل پاکیزہ شخصیات ہی آسمانی ہدایت کی روشنی میں اس امر کی حقیقت سے باخبر ہیں۔ عقل محدود کو رہبر حیات بنانے والے شاذ و نادر ہی حقیقت کی منزل تک پہنچا کرتے ہیں۔ بقول حافظ شیرازی: کہ کس نکشود و نکشاید بہ حِکمت ایں معما را بہرحال زرتشت کے نظریہ روح کا خلاصہ یہ ہے کہ روح خدا کا جزو نہیں بلکہ یہ اس کی تخلیق ہے۔ یاد رہے کہ متھرا (Mithra) کے پرستار روح کو خدا کا حصہ قرار دیتے تھے۔ متھرا ازم (Mithraism) دراصل زرتشی افکار کا وہ مرحلہ ہے جو دوسری صدی عیسوی میں رومی سلطنت پر چھا گیا تھا۔ متھرا کے پرستار سورج کو نور کی ایک عظیم علامت خیال کرکے اس کی پرستش کیا کرتے تھے۔ وہ انسان کی روح کو خدا کاجزو سمجھتے ہوئے بڑی پراسرار رسومات و عبادات کے ذریعے اس کاخدا کے ساتھ وصل چاہتے تھے۔ ان کی نگاہ میں انسانی روح کو خدا سے ملانے کے لیے جسم کو اذیتیں دینا ضروری ہے تاکہ وہ کرہ فضائی سے گزرنے کے بعد خالص آگ کی شکل اختیار کرکے عالم بالا کی طرف جاسکے۔ اقبال بال اس تصورے نظریات میں ج کرسکے۔ اقبال وف کے بعض مکاتب فکر کے نظریات میں جزوی مشابہت پاتے ہیں۔ روح انسانی اور روح ایزدی کا یہ وصال تصوف و معرفت کے علاوہ ہمارے ذخیرہ شعر و ادب کا بھی ایک محبوب موضوع بن گیا ہے۔ شاعروں نے اس ملاپ کو مختلف تشبیہات و استعارات کے پردے میں بیان کیا ہے۔ کہیں اس وصل کو قطرہ و بحر اور نے ونیستان کے الفاظ میں ڈھالا گیا ہے اور کہیں طائر و گلشن قدس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ موضوع ایک ہی ہے مگر اسے متعدد اسالیب میں ظاہر کیا گیا ہے۔ زرتشت کا کہنا ہے کہ روح کا آغاز وقت میں تو ہوا ہے مگر یہ دنیا میں شر کی طاقتوں سے معرکہ آرا ہو کر حیاتِ جاوداں حاصل کرسکتی ہے۔ نیکی او ربدی کے صرف دو راستوں میں سے یہ کوئی بھی راستہ اختیار کرنے کی آزادی انتخاب رکھتی ہے۔ ہماری روح اپنے زمینی قیام و سفر میں چاہے نیکی کا راستہ اختیار کرے چاہے بدی کی راہ پر چل پڑے۔ دونوں صورتوں میں اسے آزادی عمل دی گئی ہے۔ نور کی طاقت نے آزادی انتخاب کے علاوہ اسے مندرجہ ذیل صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے: (۱) ضمیر (۲) قوت حیات (۳) نفس (۴)عقل (سپرٹ) (۵)فراوشی (یہ ایک قسم کی محافظ طاقت ہے جو سَیر اِلَی اللہ میں انسان کی نگرانی کرتی ہے۔) علامہ اقبال زرتشت کے اس تصور روح پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں زرتشت کے مطابق آخری تین صلاحیتیں یعنی نفس، عقل اور فراوشی موت کے بعد آپس میں متحد ہوکر ناقابل تحلیل کل کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ نیک روح اپنے گوشت پوست کے گھر (جسم) کو چھوڑنے کے بعد بلند تر مقامات کی طرف چلی جاتی ہے۔ مقام بالا تک پہنچنے کے لیے اسے درج ذیل مدارج حیات میں سے گزرنا پڑتا ہے: (۱) نیک خیالات کا مقام (۲) نیک الفاظ کا مقام (۳)نیک اعمال کا مقام (۴)ابدی شان و شوکت کا مقام۔ (ابدی شان و شوکت کے مقام میں پہنچ کر انسانی روح اپنی شخصیت کو گم کیے بغیر اصل نور سے واصل ہو جاتی ہے۔) زرتشت کے تصور روح کی بحث کے دوران علامہ اقبال مشرق و مغرب کے چندارباب حکمت و دانش اور حاملان تصوف کے اہم خیالات کومدنظر رکھتے ہوئے اپنی تنقیدی رائے بھی بیان کرتے ہیں۔ اس انداز تنقید سے پتا چلتا ہے کہ وہ دوسروں کے افکار ونظریات کوبلاچون و چرا قبول نہیں کرتے۔ وہ اپنی تحقیق پسندی اور منفرد اسلوب نگاری کا ثبوت دیتے ہوئے افلاطون کے نظرہی اعیان ثابتہ پر یوں اظہار رائے کرتے ہیں: افلاطون کے تصورات ابدی، غیر زمانی اور غیر مکانی ہیں۔ نور کی قوت کی ہر مخلوق شے کے لیے ایک ماتحت نگران قوت ہوتی ہے۔ یہ خیال اس نظریے سے خارجی مشابہت رکھتا ہے جس نظریے کے مطابق ہر روح ایک کامل اور حواس سے بالاتر نمونے کے مطابق تخلیق کی جاتی ہے۔ جس طرح زرتشت موت کے بعد تین انسانی ملکات کے اتحاد کا قائل تھا اسی طرح علامہ اقبال کی رائے میں صوفیانہ تصور روح بھی تین انسانی ملکات کے اتحاد کا قائل ہے۔ اس طرح علامہ اقبال کی رائے میں صوفیانہ تصور روح بھی تین پہلو رکھتا ہے۔ اس ضمن میں ان کے یہ الفاظ لائق مطالعہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں: صوفیا کے نزدیک روح نفس، دل اور سپرٹ کا مجموعہ ہے۔ ان کی نگاہ میں ’’دل‘‘ مادی بھی ہے اور غیر مادی بھی یا زیادہ مناسب انداز میں وہ نہ یہ ہے اور نہ وہ ہے بلکہ یہ نفس اور روح کے درمیان کھڑا ہو کر’’اعلیٰ علم‘‘ کے حصول کا ذریعہ ہے۔ زرتشت نے عالمِ بالا کی طرف روح کے سفر کے لیے مختلف مراحل کا تذکرہ کیا تھا۔ صوفیا بھی انسانی روح اور روح مطلقہ کے وصال کے قائل اور روحانی معراج کے کئی مدارج میں پختہ یقین رکھتے ہیں۔ ان کی رائے میں انسانی روح اس مادی دنیا کی آلایشوں اور گناہوں کا شکار ہو کر جب غیر پاکیزہ بن جاتی ہے تو وہ خدا سے اس وقت تک متصل نہیںہوسکتی جب تک کہ وہ پاک، صاف، پرنور اور لطیف نہ بن جائے۔ یہ روح یک لخت عالم مادی سے عالم روحانی کی جانب نہیں چلی جاتی بلکہ اپنے آخری مقام قرب خداوندی تک پہنچنے سے پہلے اسے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ فرق مراتب معراج روح کے لیے اشد ضروری ہے جیسا کہ مولانا رومی نے کہا ہے: ماز فلک برتریم، وز ملک افزوں تریم زیں دو چرا نگزریم، منزل ما کبریاست علامہ اقبال گیگر کی کتاب از منہ قدیم میں مشرقی ایرانیوں کی تہذیب کے حوالے سے صوفیانہ نظریہ کائنات کے بارے میں ان خیالات کو ظاہر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:صوفیا تصور کائنات بھی زندگی کے ان مختلف مراحل کو بیان کرتا ہے۔ جن میں سے گزر کر روح کو اپنے آسمانی سفر پر جانا پڑتا ہے۔ اگرچہ صوفیا مندرجہ ذیل پانچ مدارج کا ذکر کرتے ہیں تاہم ہر ایک مرحلہ کی نوعیت کے متعلق ان کی تعریف کسی قدر مختلف ہے: ’’(۱) عالمِ جسم (ناسوت)۔ (۲) خالص ذہانت کی دنیا (ملکوت) (۳) عالم قدرت (جبروت) (۴) عالم نیستی (لاہوت) (۵) عالمِ سکوتِ مطلق (ہاہوت)۔‘‘ اینی بیسنٹ (Annie Besant) نے اپنی کتاب تجسیم نو (Reincarnation) میں کہا ہے کہ صوفیا نے ان مدارج کا تصور ہندوستانی یوگیوں سے اخذ کیا تھا۔ چنانچہ علامہ اقبال نے اس کی رائے کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے: ’’صوفیوں نے اغلباً‘‘ یہ خیال ہندوستان کے ان یوگیوں سے ادھار لیا ہے جو مندرجہ ذیل سات مراحل کو تسلیم کرتے ہیں: (۱) عالم اجسام۔ (۲) جسم نوری کا علم۔ (۳) عالم قوت۔ (۴) جذباتی فطرت کا عالم۔ (۵)عام خیال۔ (۶)روح روحانی (عقل) کا علم۔ (۷)روح خالص کا عالم‘‘۔ اس سے پہلے باب میں علامہ اقبال نے زرتشت کے فلسفہ خیر و شر کو نور و ظلمت کی باہمی آویزش کے پردے میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ زرتشت کے فلسفیانہ افکار نے متاخرین پر جواثر ڈالا ہے، اسے انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں واضح کرنے کی سعی کی ہے۔ اس باب میں مانی اور مزدک کے فلسفیانہ نظام پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ مانی (Mani) جہاں تک مانی کے فلسفہ اَور مختصر سوانح حیات کا تعلق ہے وہ قارئین کے لیے یقینا باعث دل چسپی ہوں گے۔ اس ضمن میں علامہ اقبال نے اس کی زندگی کا ایک اجمالی خاکہ پیش کیا ہے جس کی روح سے مانی کا ایرانی باپ ترک وطن کرکے ہمدان سے بابل چلا گیا۔ وہاں ۲۱۵ یا ۲۱۶ء میں مانی پیدا ہوا۔ یہ وہ دور تھاجب بدھ مت کے مبلغین زرتشت کے ملک میں نروان کی تعلیم دے رہے تھے۔ اس لحاظ سے مانی کو نصف ایرانی نژاد خیال کیا جاتا ہے۔ بعدازاں عیسائی مصنفین اسے ’’بے خدا جماعت کا بانی‘‘ قرار دیتے تھے۔ کائنات میں ہر طرف جاری و ساری کثرت دیکھ کر ایران کے مشہور ومعروف قدیم ترین فلسفی زرتشت نے مذہبی وحدت اور فلسفیانہ ثنویت کانظریہ پیش کرکے اپنے پیروکاروں کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا تھا۔ ایک گروہ تو اشیا کی کثرت کاایک ہی اصلی منبع خیال کرکے انھیں وحدت کی لڑی میں پرونے کاحامی تھا۔ اس کے برعکس دوسرا زرتشتی مکتب فکر بدی اورنیکی کی قوتوں کو الگ سمجھتا تھا۔ اشیائے کائنات کی کثرت کے مسئلے کو مانی بالکل مادہ پرستانہ انداز میں حل کرتا ہے۔ وہ زرتشت کے ان پیروکاروں سے متفق ہے جو خیر و شر اور اہرمن ویزداں کی باہمی آویزش کے اُصول کی ظاہری حالت کے قائل تھے۔ اس طرح مانی بھی ان دونوں طاقتوں کوایک دوسرے سے بالکل آزاد خیال کرکے اس مشکل مسئلے کو مکمل طور پر مادی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ دنیا کو بنیادی طور پر شر قرار دیتا ہے اس لیے وہ ترک دنیا اور عیسائی تصور نجات کو تقویت بخشتا ہے۔ مانی کے مذہبی نظام اور مادیت کی منطقی مطابقت نے نہ صرف مشرق و مغرب کے عیسائی نظریات پر اثر ڈالا ہے بلکہ اس نے ایرانی مابعد الطبیعیاتی تفکر کے ارتقا پر بھی مدھم نقوش چھوڑے ہیں۔ اے۔اے۔بیون (A.A.Bevan) نے لکھا ہے کہ مانی ایک شامی گیانی کا شاگرد تھا۔ الفہرست کا فاضل مصنف چند کتابوں کاتذکرہ کرتا ہے جو مانی نے اپنے اس پیرو مرشد کے خلاف تحریر کی تھیں۔ ابن حزم اپنی تصنیف کتاب الملل و النحل میں کہتا ہے ہ مانی اور اس کا استاد بہت سے امور میں متحد الخیال تھے مگر وہ ایک امر میں اختلاف رکھتے تھے۔ ابن حزم کی رائے میں مانی تاریکی کو ایک زندہ اُصول سمجھتا تھا مگر اس کا شامی استاد دوسری رائے کامالک تھا۔ علامہ اقبال مانی کے خلاصہ افکار کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: مانی ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کثرت اشیا نور اور ظلمت کے دو ابدی اُصولوں کے امتزاج سے جنم لیتی ہے۔ یہ دونوں اُصول ایک دوسرے سے جدا اور آزاد ہیں… مانی زمین اور مکان کی بقا کو تسلیم کرتا ہے ا سکی رائے میں ظلمت میں بدی کے عناصر مخفی تھے جو مرور زمان کے ساتھ ساتھ آپس میں مل جل کر مہیب شیطان کی پیدایش میں منتج ہوئے۔ تاریکی کے آتشیں رحم کے اس اولین بچے نے بادشاہ نور کی مملکت پر حملہ کردیا جس نے اس کے عناد آمیز حملے کو روکنے کی خاطر اولین انسان کو پیدا کیا۔ شیطان اور انسان کے درمیان سخت لڑائی شروع ہوگئی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ انسان کا صفایا ہوگیا۔ تب شیطان ظلمت کے پانچ عناصر اور نور کے پانچ عناصر کو آپس میں ملانے میں کامیاب ہوگیا۔ بعدازاں نور کی مملکت کے حکمران نے اپنے چند فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ نور کے ذرات کو قید سے رہائی دلانے کے لیے ان مخلوط عناصر سے کائنات بنائیں۔ مانی کے خیال میں چونکہ نور بذاتِ خود خیر ہے اس لیے وہ شر کے عناصر کی آمیزش کو اپنے لیے نقصان رساں سمجھتے ہوئے تاریکی پر حملہ آور نہ ہوا۔ خیر و شر کے درمیان رزم آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ دنیا کے گرد ایک اتھاہ کھائی میں موجود تاریکی کی قید سے نور کے ذرات کو مسلسل نجات دلائی جاتی ہے۔ یہ آزاد روشنی سورج اور چاند تک پہنچتی ہے اور بعدازاں اسے فرشتے بادشاہ جنت یعنی ’’پدر بزرگی‘‘ کے ابدی نورانی گھر میں لے جاتے ہیں۔ یہ ہے مانی کے تصورِ کائنات کا لب لباب۔ معروضی وجود کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اسے زرتشت کا یہ نظریہ قبول نہیں کہ اشیا بذات خود نہ اچھی ہوتی ہیں اور نہ بری بلکہ خیر و شر کے تخلیقی عوامل ان کو خیر و شر کا ظاہری وجود عطا کردیتے ہیں۔ مانی اس ضمن میں مکمل طور پر مادی تصور کا حامل ہونے کی حیثیت سے عالم مظاہر کی پیدایش کو دو آزاد اور ابدی اُصولوں کے امتزاج کا مرہون منت قرار دیتا ہے۔ یہ دو اُصول نور اور ظلمت ہیں۔ تاریکی نہ صرف کائنات کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ یہ ایک سرچشمہ عمل ہے جس میں ہماری قوت کارکردگی خوابیدہ رہتی ہے۔ جب اسے سازگار حالات میسر آتے ہیں تو یہ خوابیدہ عمل فوراً معرض وجود میں آجاتا ہے۔ علامہ اقبال یہاں پہنچ کر مانی کے کائناتی تصور کا ہندو، چینی اور مغربی فلسفہ تخلیقِ کائنات سے موازنہ و مقابلہ کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ان کا یہ تقابلی مطالعہ دل چسپی سے خالی نہیں۔ وہ کہتے ہیں: مانی کے نظریہ کائنات اور چینی تصور تخلیق کا مقابلہ کرنا کافی دل چسپ ہے۔ چینی مفکرین کی رائے میں تمام مخلوقات ین (Yin) اور ینگ (Yang) کے ملاپ سے معرض وجود میں آتی ہیں۔ انھوں نے ان دو اُصولوں کو تائی کیتھ (Tai Keith) کی اعلیٰ وحدت میں پیش کردیا ہے مگر مانی اس قسم کی وحدت کے امکان میں یقین نہیں رکھتا۔ مانی کے خیال میں متضاد نوعیت کی چیز ایک ہی منبع سے ظہور میں نہیں آتی… مانی کے فلسفہ کائنات کا ایک لازمی جزو ایک عظیم ہندو مفکر کپلا (Kapila) کے تصور تخلیق سے عجیب و غریب مماثلت رکھتا ہے۔ کپلا تخلیق کائنات کو تین گنوں یعنی مستوا (نیکی)، تمس (تاریکی) اور رجس (حرکت یا جذبہ) پر مبنی سمجھتا ہے۔ جب اصلی اور قدیم ترین مادے (پر اکرتی) کا توازن بگڑ جاتا ہے تو اس وقت یہ تینوں گن آپس میں مل کر فطرت کی تشکیل کرتے ہیں۔ کائنات میں ہر طرف نظر آنے والی کثرت کے مسئلہ کے بارے میں مختلف فلاسفہ اور لاتعداد مفکرین نے اپنے اپنے زمانے میں کئی نظریات پیش کیے ہیں۔ ویدانت پرست کہلانے ’’مایا‘‘ کی پراسرار طاقت کا نظریہ پیش کیا اور کافی عرصہ بعد ایک مغربی فلسفی لِبنز (Leibniz) نے اپنے تصور ’’غیر ممیّز اشیا کی مطابقت‘‘ کے ذریعے اس کثرت اشیا کی وضاحت کی۔ فلسفیانہ افکار کے تاریخی ارتقا میں اگرچہ مانی کا تصور کائنات طفلانہ نظر آتا ہے۔ تاہم اسے بھی ضرور کوئی مقام دینا چاہیے۔ اس کے تصور کی فلسفیانہ قدر و قیمت شاید کم ہو لیکن ایک امر بالکل بدیہی ہے کہ اس نے کائنات کی ساری سرگرمی اور ہماہمی کو شیطان کی عمل پرستی کا لازمی نتیجہ قرار دیا ہے۔ چونکہ وہ ترک دنیا کادرس دیتا ہے اس لیے وجود کائنات کوشَر سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ جب کوئی انسان رہبانیت کا مبلغ بن جائے تو پھر وہ دنیا اور دینوی زندگی کو شر قرار نہ دے تو اور کیا کرے؟ دنیا کو براخیال کرنے کے بعد ہی انسان تارکِ دنیا بنتا ہے۔ جرمنی کا ایک مشہور قنوطیت پرست فلسفی شوپنہار (Schopenhauer) بھی اس کائنات کو انسانی دکھوں، مصیبتوں اور لاتعداد پریشانیوں کا اصل قرار دیتا تھا۔ مانی اور شوپنہار کے نتائج فکری یکساں ہیں مگر انھوں نے قدرے مختلف اسالیب اور طریقے استعمال کیے۔ علامہ اقبال مانی کے افکار کی بحث کو ختم کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں: مانی پہلا مفکر تھاجس نے یہ نظریہ پیش کرنے کی جسارت کی کہ کائنات کا وجود شیطانی سرگرمی کی وجہ سے ہے اس لیے یہ بنیادی طور پر شر ہے۔ جو نظام ترک دنیا کو زندگی کا راہ نما اُصول قرار دے اُس کا منطقی جواز مجھے یہی نظر آتا ہے۔ ہمارے اپنے دور میں شوپنہار بھی اِسی نتیجہ پر پہنچا ہے۔ اگرچہ وہ مانی کے برعکس مشیت ازلی کی فطرت میں اُصول خارجیت یا اُصول فردیت کو کار فرما کہتا ہے۔اس اُصول سے مراد عزم للحیات کا ’’معصیت آلود رجحان‘‘ ہے۔ مانی کے نظام فکر کا مندرجہ بالا تعارف مختصر ہونے کے باوجود کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے فلسفیانہ نظریات کو سمجھنے کے لیے اس کے ایرانی پیش رو زرتشت اورمتاخرین خصوصاً کپلا اور شوپنہار کے افکار کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ مانی کے نظریہ شر اور عیسائی تصور نجات کاآپس میں گہرا تعلق دکھائی دیتا ہے۔ اس نے ابلیس کی سرگرمی اورکائنات کی ہماہمی میں جو باہمی ربط ظاہر کیا ہے اس کی ترجمانی ہمیں کافی حد تک ملٹن (Milton) کے تصور ابلیس میں ملتی ہے۔ مزدک (Mazdak) مانی کے نظام فکر پر اظہار خیال کرنے کے بعد علامہ اقبال ایران کے ایک اور ممتاز ایرانی مفکر مزدک کی زندگی کے چند پہلوئوں اور اس کے فلسفیانہ خیالات کا مختصر ترین تعارف کرواتے ہیں۔ ایران کے ایک شہرہ آفاق انصاف پسند بادشاہ نوشیرواں کے عہدِ حکومت میں مزدک نے اپنے فلسفیانہ اور اشتراکی نظریات کا پرچار کیا تھا۔ نوشیرواں عادل (از ۵۳۱ء تا ۵۷۸ئ) کے زریں دور میں ایرانی رعایا بڑے اطمینان کی زندگی گزار رہی تھی۔ مزدک نے انسانوں کی مساوات کے اُصول کا پرچار شروع کردیا۔ زرتشت کے فلسفیانہ نظام کے حامیوں کے لیے یہ انقلابی نعرہ کافی چونکا دینے والا تھا۔ علاوہ ازیں حکومت وقت مزدک کے خلاف ہوگئی چنانچہ مزدک کے کئی پیروکاروں کو موت کے گھاٹ اتار کر اس اشتراکی تحریک کو دبا دیا گیا تھا۔ علامہ اقبال نے ارمغان حجاز کی ایک طویل نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ میں مزدکیت کو جدید اشتراکیت کی اوّلین شکل قرار دیتے ہوئے کارل مارکس کو رُوحِ مزدک کا بروز کہا ہے۔ ان کی نگاہ میں مزدک ایران قدیم کا حیرت انگیز سوشلسٹ اور کمیونزم کا قدیم پیغمبر ہے۔ پانچویں صدی عیسوی میں ایران میں زرتشت کے فلسفہ کائنات کی ایک شاخ سے متعلق زروانی اُصول بے حد مقبول و مروج تھا۔ مزدک نے اس مروجہ زروانی تصور کے خلاف ثنویت پرستانہ رد ِعمل کا سلسلہ جاری کردیا۔ مزدک کے اس ردِ عمل کا تانا بانا دراصل مانی کے نظریہ نور و ظلمت ہی سے تیار ہوا تھا۔ علامہ اقبال کی رائے میں مزدک کے فلسفیانہ عقائد و نظریات کی تلخیص یہ ہے۔ وہ کہتے ہیں: مانی کی طرح مزدک نے بھی یہ بتایا کہ شید (نور) اور تار (ظلمت) کے دو آزاد اور ازلی اُصولوں کی آمیزش نے اشیا کی کثرت کو جنم دیا ہے مگر وہ اپنے اس پیش رو سے اختلاف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان کی آمیزش اور جدائی انتخاب عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ وہ بالکل حادثاتی نوعیت کی ہیں… چیزوں اور انسانوں کا یہ تنوع ان دوبنیادی عناصر کی مختلف ترکیبات کی بنا پر ہے۔ مزدک کے اس نظریے کی رو سے اشیا کی آمیزش اور علیحدگی یا وصل و فراق کسی خاص مقصد کے حامل نہیں بلکہ یہ سب کچھ ایک اتفاقی امر ہے۔ خدائے تعالیٰ کے بارے میں بھی مختلف ادوار اور مختلف اقوام میں متعدد نظریات کا سراغ ملتا ہے۔ کوئی کائنات کی روحانی اساس کا قائل ہے تو کوئی اسے مادہ پر مبنی قرار دیتا ہے۔ مزدک نے بھی خدا سے متعلق اپنا نظریہ پیش کیا ہے جس کی رو سے خدا تعالیٰ کی ازلی ذات چار بنیادی قوتوں… قوت تمیز، یادداشت، ادراک اور برکت… کی مالک ہے۔ ان چار قوتوں کے چار ذاتی مظاہر ہیں جو دیگر چار اشخاص کی معاونت سے کائنات کے نظم و نسق کی نگرانی کرتے ہیں۔ یہ ہے مزدک کامختصر تصور خدا۔ مزدک کی تعلیمات کا نمایاں ترین پہلو اس کا اشتراکی عقیدہ ہے۔ کمیونزم کا نظریہ درحقیقت اس کے فلسفیانہ نظام کا لازمی نتیجہ ہے۔ وہ انسانوں کی مساوات کے اُصول کاقدیم عَلم۔بردار ہے۔ مزدک سے پہلے ہمیں یونانی تاریخ فلسفہ میں افلاطون کے مکالمات میں اشتراکیت کے بنیادی پہلو دکھائی دیتے ہیں۔ جدید دور میں یہودی النسل سیاسی مفکر کارل مارکس نے اُصول اشتراک اور اُصول مساوات کو زیادہ ترقی یافتہ اور تاریخی انداز میں بیان کیا ہے۔ علامہ اقبال مزدک کے اشتراکی نظریے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: مزدک کا قول تھا کہ تمام انسان آپس میں برابر ہیں۔ اس کی رائے میں ذاتی ملکیت کا تصور ان مخاصم شیاطین کا پیدا کردہ ہے جن کا مقصد خدا کی کائنات کونہ ختم ہونے والی غربت و مصیبت کے منظر میں تبدیل کرنا ہے۔ مزدک کی تعلیمات کا یہ حصہ بہت سے پیروان زرتشت کے لیے تشویش ناک ثابت ہوا۔ اس تعلیم کی وجہ سے مزدک کے بہت سے حامی تباہ و برباد کردیے گئے۔ دنیا کی تاریخ ایسے بے شمار واقعات کی شاہد ہے کہ جب کبھی مروجہ اور مسلمہ اقدار کو چیلنج کیا جاتا ہے تو عام لوگ سماجی ریفارمروں اور مذہبی مصلحین کے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔ مزدک کے عقیدت مندوں کو بھی اس طرح کی قربانی کا امتحان دینا پڑا۔ مزدک کے بارے میں وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اپنی معجزنمائی کی بدولت مقدس آگ کو قوت گویائی دے کر اپنے مقصد کی صداقت کا گواہ بناتا ہے۔ گزشتہ امور کا جائزہ علامہ اقبال نے اپنی اس کتاب کے پہلے باب میں زیادہ تر ایران کے تین نامور اور عظیم مفکرین زرتشت، مانی اور مزدک کے نظام ہائے فکر کے چیدہ چیدہ عناصر ترکیبی پر بحث کی ہے۔ اب وہ اس باب کے آخر میں اپنی گزشتہ بحث کا مختصر جائزہ اور خلاصہ کلام پیش کرکے اپنی مزید تنقیدی رائے کااظہار کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے خلاصہ کلام کے اہم پہلو یہ ہیں: (i) افراد اور اقوام کی فکری تاریخ کسی نصب العین پر مبنی ہوتی ہے۔ (ii) ایران کی قدیم فکری تاریخی کانصب العین ثنویت تھا۔ (iii) زرتشت کے پیروکاروں نے غیر شعوری طور پر کائنات کے توحیدی تصور کی تحریک جاری کردی تھی۔ (iv) ایرانی بادشاہ نوشیروانِ عادل نے یونانی اور سنسکرت کتابوں کے تراجم کروائے۔ (v) اسلام کے عقیدہ توحید نے ایران میں زبردست فکری انقلاب پیدا کردیا تھا۔ علامہ اقبال اس بات کے حامی ہیں کہ اقوام اور افراد اپنی فکری تاریخ کا آغاز کسی نہ کسی نصب العین سے کرتے ہیں۔ یہ نصب العین ان کے فلسفیانہ افکار و نظریات کے لیے اساس کا کام دیتا ہے۔ اس بنیادی مقصد پر وہ اپنی ساری فکری عمارت استوار کیا کرتے ہیں۔ جہاں تک زرتشت کے اخلاقی جوش و خروش کا تعلق ہے اس نے چیزوں کے نظریہ آغاز کوروحانی رنگ میں پیش تو کیا ہے مگر اس دور کے ایرانی فلسفے کا ماحصل مادہ پرستانہ ثنویت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایران میں فکری ارتقا کے اس مرحلہ میں تمام موجودات کی فلسفیانہ بنیاد کے طور پر اُصول توحید کا دھندلا سا احساس پایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے یہ بیان کیا جاچکا ہے کہ زرتشت کی وفات کے بعد اس کے حامی دو گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ایک گروہ نور و ظلمت کی وحدت کا قائل تھا جب کہ دوسرا مکتب خیال ان دونوں کی جداگانہ حیثیت میں یقین رکھتا تھا۔ اس گروہی تقسیم اور زرتشت کے پیروکاروں کی علمی بحثوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات کے توحیدی تصور کی تحریک کی ابتدا ہوگئی تھی لیکن علامہ اقبال کی رائے میں زمانہ ماقبل اسلام کے فلسفۂ ایران میں وحدت الوجود کے رجحانات سے متعلق ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کَہ سکتے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ چھٹی صدی عیسوی میں دیوجانس کلبی سمپلیکس (Simplicius) اور دوسرے نو افلاطونی مفکرین ایک عیسائی حکمران جسیین (Justinian) کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ایران چلے گئے اور انھوں نے نوشیرواں عادل کے دربار میں پناہ لی۔ نوشیرواں عادل نے عدل و انصاف کے علاوہ علمی اشاعت کے میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ مفکر اسلام علامہ اقبال ایران کے اس مشہور بادشاہ کی علم پروری کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس عظیم الشان بادشاہ نے اپنے لیے سنسکرت اور یونانی زبانوں کی کئی کتابوں کاترجمہ کروایا تھا۔ اس کے باوجود ہمارے پاس کوئی ایسا تاریخی ثبوت نہیں جس سے پتا چلے کہ ان واقعات نے کسی حد تک صحیح طور پر فلسفۂ ایران کو متاثر کیا تھا۔ اس علمی جائزہ کے اختتام پر علامہ اقبال ایران میں ظہور اسلام کے فلسفیانہ اثرات خصوصاً عقیدہ توحید کی ہمہ گیر اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسلام کے عقیدہ توحید نے فلسفہ عجم پر بہت گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اس سے پہلے وہاں خدا اور مادہ کی یونانی دوئی اور خدا و ابلیس کی خالصتاً ایرانی ثنویت کا بول بالا تھا۔ وہ اس بارے میں یہ فرماتے ہیں: آیئے اب ہم ایران میں ظہور اسلام کا تذکرہ کریںجس نے مکمل طور پر وہاں کے قدیم نظام کی کایا پلٹ کر رکھ دی تھی۔ اسلام نے ایران کے ارباب دانش و حکمت کو خدا و مادہ کی یونانی سویت اور خدا و ابلیس کی خالص دوئی پسندی کی نوعیت کے علاوہ غیر مصالحانہ توحید پرستی کے نئے تصور سے روشناس کرایا تھا۔ مندرجہ بالا امور سے یہ امر بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ علامہ موصوف نے پہلے باب میں زیادہ تر ایرانی ثنویت کو موضوع بحث بناکرمتعلقہ نظریات کا تحقیقی جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے بجا کہا ہے کہ اسلام دوئی کی بجائے توحید اور حق پرستی کا داعی ہے: باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول [کلیات اقبال، ص ۵۳۵