Actions

پھولوں کی شہزادی

From IQBAL

پھولوں کی شہزادی

کلی سے کہہ رہی تھی ایک دن شبنم گلستاں میں
رہی میں ایک مدت غنچہ ہائے باغ رضواں میں

تمھارے گلستاں کی کیفیت سرشار ہے ایسی
نگہ فردوس در دامن ہے میری چشم حیراں میں

سنا ہے کوئی شہزادی ہے حاکم اس گلستاں کی
کہ جس کے نقش پا سے پھول ہوں پیدا بیاباں میں

کبھی ساتھ اپنے اس کے آستاں تک مجھ کو تو لے چل
چھپا کر اپنے دامن میں برنگ موج بو لے چل

کلی بولی، سریر آرا ہماری ہے وہ شہزادی
درخشاں جس کی ٹھوکر سے ہوں پتھر بھی نگیں بن کر

مگر فطرت تری افتندہ اور بیگم کی شان اونچی
نہیں ممکن کہ تو پہنچے ہماری ہم نشیں بن کر

پہنچ سکتی ہے تو لیکن ہماری شاہزادی تک
کسی دکھ درد کے مارے کا اشک آتشیں بن کر

نظر اس کی پیام عید ہے اہل محرم کو
بنا دیتی ہے گوہر غم زدوں کے اشک پیہم کو