Actions

٭مسلم انحطاط کا پرسوز تذکرہ

From IQBAL

عالمِ تصو ّر میں ‘ بیت المقدس اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت‘ ملت اسلامیہ کے احیاے نو پر بحث مباحثہ اور دنیا بھر سے آئے ہوئے مسلم نمایندوں سے ملاقاتیں اور احساسِ یگانگت شاعر کے ذہن میں تازہ ہے۔ اس کے سامنے پوری مسلم دنیا کی حالتِ زبوں اور مسلمانوں کی حالت ِ زار کا نقشہ کھنچ جاتا ہے اور اسے مسلمانوں کی بے حسی‘ غفلت‘ بے عملی اور پستی کا بڑی شدت سے احساس ہوتا ہے۔ دوسرے بند کے بیشتر شعروں میں اسی احساس کا مؤثر اور بھر پور اظہار ملتا ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلم انحطاط ‘ اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ اب تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں اسلاف کی روایات بالکل عنقا ہو چکی ہیں۔ ۱۔ ایک طرف تو خود مسلمان بے حس ہو چکے ہیں کہ اہلِ حرم نے اپنی آستینوں میں بت پال لیے ہیں۔ گیسوے دجلہ و فرات تاب دار ہے مگر بت شکنی کے لیے کوئی محمود غزنوی ہے اور نہ کوئی حسینؓ۔ مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دین و عقائد میں غیر اسلام کی آمیزش کر لی ہے۔ ملحدانہ افکار و نظریات کو اختیار کرنا بالکل ایسا ہے جیسے اہلِ حرم‘ اپنے حرم کو سومنات کا مندر بنا لیں مگر مسلمانوں کی صفوں میں کوئی ایسا رہنما یا حکمران نہیں جو مسلمانوں کے ’’ اسلامی سومنات‘‘ کو پاش پاش کر دے۔ قافلۂ حجاز ( مسلمانوں) میں جور اہ نما اور حکمران موجود ہیں، ان کے اندر شہادتِ حق کا وہ داعیہ نہیں جس کی مثال امام حسینؓ نے پیش کی۔آج بھی مسلمان حکمران یزید کے سے بلکہ اس سے بھی بد تر افعال و اعمال کے مرتکب ہورہے ہیں مگر کلمۂ حق کہنے کے لیے کوئی شخص ’’ کربلا‘‘ میں نہیں نکلتا۔ ۲۔ پھر یہ صورتِ حال عالمِ اسلام کے کسی ایک حصے تک محدود نہیں بلکہ عرب و عجم دونوں اس انحطاط کا شکار ہیں ۔ایک طرف عربوں کے ہاں ان کے قومی کردار کی خصوصیات( سادگی‘ شجاعت‘ غیرت ‘ فقر اور مہمان نوازی وغیرہ) ختم ہوچکی ہوتی… (۱۹۳۵ء میں جزیرہ نماے عرب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ چکا تھا اور بیشتر حصوں پر مغرب خصوصاً انگریزوں کے کٹھ پتلی حکمران دادِ بادشاہت دے رہے تھے۔) دوسری طرف عجم جو اپنے علم کی وسعت اور فکر کی بلندی کے سبب مسلمانوں کے لیے وجہِ افتخار اور دوسری قوموں کے لیے ماہ الامتیاز تھا ،افسوس کہ اس کے افکارِ عالیہ کو بھی گھن لگ چکا ہے۔ ۳۔ عرب و عجم کے اس انحطاط کا ایک عبرت انگیز ورق یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا میں جلوتیانِ مدرسہ(یعنی قدیم دینی مدارس کے تعلیم یافتہ) کو ر نگاہ اور مردہ ذوق ہیں۔بقول سید ابوالاعلیٰ مودودی:قدیم دینی مدارس کے تعلیم یافتہ علما عام طو رپر ’’جن مشاغل میں مشغول رہے ‘ وہ یہ تھے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل پر مناظرہ بازیاں کیں‘ چھوٹے مسائل کو بڑے مسائل بنایا اور بڑے مسائل کو مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل کر دیا۔ اختلافات کو مستقل فرقوں کی بنیاد بنایااور فرقہ بندی کو جھگڑوں اور لڑائیوں کا اکھاڑا بنا کر رکھ دیا… آج یہ پوری میراث جھگڑوں اور مناظروں اور فرقہ بندیوں اور روز افزوں فتنوں کی لہلہاتی ہوئی فصل کے ساتھ ہمارے حصے میں آئی ہے۔‘‘ (مسلمانوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل: ص ۱۱- ۱۲) اس طبقے میں دوربینی و جہاں بینی کی خصوصیات کے بجاے تنگ نظری اور تنگ دلی پائی جاتی ہے۔ یہی’’ کور نگاہی ‘‘ اور ’’ مردہ ذوقی‘‘ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے علما کا یہ طبقہ جدید تہذیب و علوم کا چیلنج قبول نہیں کر سکا اور اس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اسی طرح خلوتیانِ مے کدہ بھی ملت کی زبوں حالی کا مداوا نہیں کر سکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام کے حقیقی تصو ّف کا چشمۂ صافی عجمی‘ ویدانتی‘ یونانی اور دیگر غیر اسلامی افکار و فلسفوں کی آمیزش سے گدلا ہو گیا اور اہلِ تصو ّف یا تو ذاتی نجات کی تلاش میں کھو گئے ‘ یا پیری مریدی کو رواج دیا۔ علامّہ اقبال نے مروجہ تصو ّف کے مسموم اثرات کو دیکھتے ہوئے بڑی شدت کے ساتھ اور مسلسل اس کی مخالفت کی۔ سید سلیمان ندویؒ کولکھتے ہیں: ’’تصو ّفِ [وجودی] سرزمین اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب و ہوا میں پرورش پائی ہے(اقبال نامہ‘ اول: ص ۷۸)۔ دراصل اقبال ملت اسلامیہ کو ایک باعمل قوم بنانا چاہتے تھے جبکہ مروجہ تصو ّف انھیں دنیا سے فرار اور ترک دنیا کی تعلیم دیتا تھا۔ اقبال ’’خاک کی آغوش میں تسبیح ومناجات ‘‘کے بجاے ’’وسعتِ افلاک میں تکبیر مسلسل‘‘ کے قائل ہیں ۔ اس لیے ان کی تاکید ہے: نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری انھوںنے اس بند کے آخری دو شعروں میں اس صورتِ حال کا بنیادی سبب بھی بتا دیا ہے ۔ ان کے نزدیک عرب و عجم (جلوتیانِ مدرسہ اور خلوتیانِ مے کدہ یعنی جدید تعلیم یافتہ اور بحیثیت مجموعی پوری امت) کے انحطاط و زوال کی حقیقی و جہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت امام حسینؓ کا سا کردار نہیں اور نہ ان میں قربانی و شجاعت کا وہ جذبہ موجود ہے جس کانمونہ بد ر و حنین میں ان کے اسلاف نے پیش کیا تھا۔ اس کردا راو ر اس جذبے کو اقبال نے ’’عشق‘‘ کا نام دیا ہے۔ مسلمانوں میں جذبۂ عشق کے فقدان کے سبب شریعت ‘ تصو ّف اور دین داری کے تصو ّرات بدل گئے ہیں: شریعت ‘ تصو ّف ‘ تمدن ‘ کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام ملت اسلامیہ کے انحطاط کے سبب شاعر شدید درد و کرب میں مبتلا ہے۔ رنج و غم کی تلخی نے اس کے شب و روز میں زہر بھر دیا ہے۔ چنانچہ مسلم انحطاط کے تذکرے میں اس نے تلخی اور درد و کرب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوزو گداز کا اظہار کیا ہے۔ یوں شاعر کا دلی کرب اور سوز و گداز پوری نظم میں وقتاً فوقتاً ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس کرب اور سو ز و گداز کا مقامِ آغاز یہ ہے کہ شاعر اپنی قوم کی حالت سے غیر مطمئن ہے۔ اس کی مستقل خواہش یہی رہی ہے کہ کھوئے ہوؤں کی جستجو کی جائے یعنی مسلمانوں کے دل میں نشأتِ ثانیہ اور احیاے ملت کی آرزو پیدا ہو۔ شاعر اسی آرزو کی نشو و نما کے لیے کوشاں ہے اور اس کوشش میں اپنا خونِ دل و جگر صرف کر دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں اس کی آرزو اور دعا ہے کہ ملت کی سربلندی کے لیے اس کی تڑپ ‘ بے چینی اور بے قرار ی نہ صرف یہ کہ قائم رہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہے کیونکہ جہادِزندگانی میں یہی چیز مہمیز کا کام کرتی ہے۔