Actions

٭صنعت گری

From IQBAL

’’ ذوق و شوق‘‘ سے صنعت گری کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے : ۱۔ صنعتِ تلمیح: ریگِ نواحِ کاظمہ ‘ نرم ہے مثلِ پرنیاں _______ کیا نہیں اور غزنوی کارگہِ حیات میں _______ گرچہ ہے تاب دارا بھی گیسوے دجلہ و فرات ۲۔ صنعت تجنیس مضارع:( دو ایسے متجانس الفاظ کا استعمال جن میں صرف قریب المخرج یا متحد المخرج حرف کا اختلاف ہو): عشق کی ابتدا عجب‘ عشق کی انتہا عجب ۳۔ صنعت ترافق: ( جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑ ھیں ‘ معنی میں کوئی فرق نہیں پڑتا): صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق‘ صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق _______ شوکتِ سنجر و سلیم‘ تیرے جلال کی نمو د فقرِ جنید و بایزید‘ تیرا جمالِ بے نقاب ۴۔ صنعت ترصیع: (دو مصرعوں کے زیادہ یا تمام الفاظ کا ہم قافیہ ہونا) : گرمیِ آرزو فراق‘ شورش ہاے ہو فراق موج کی جستجو فراق‘ قطرہ کی آبرو فراق ۵۔ صنعت مراعاۃ النظیر: لوح بھی تو‘ قلم بھی تو ‘ تیرا وجود الکتاب گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب فنی اعتبار سے ’’ ذوق و شوق‘‘ بڑی متناسب اور سڈول نظم ہے۔ اس کا ہر بند چھے اشعار پر مشتمل ہے جب کہ اقبال کی بیشتر طویل نظموں میں ہر بند کے شعروں کی تعدا د مختلف ہے۔ وسعت معانی اور بلاغت کے اعتبار سے اسے اقبالؒ کی دو چار بہترین نظموں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔