Actions

٭صحرا نوردی اور گردشِ پیہم

From IQBAL

Revision as of 07:04, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> خضر سے شاعر کا پہلا سوال یہ ہے : چھوڑ کر آبادیاں، رہتا ہے تو صحرا نورد زندگی تیری ہے بے ر...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

خضر سے شاعر کا پہلا سوال یہ ہے : چھوڑ کر آبادیاں، رہتا ہے تو صحرا نورد زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش یعنی خضر کو صحرا نوردی اس قدر عزیز کیوں ہے؟ دراصل اقبال طبعاً صحرائیت اور بدویت پسند ہیں اور اپنی اس پسندیدگی کے اظہار و بیان کے لیے ایک سوال کی صورت میں وجہ جواز پیدا کی ہے۔ صحرا نوردی کا اقبال کے بنیادی فلسفے سے گہرا تعلق ہے۔ اقبال کی شاعری کی بنیاد ان کا انقلابی فکر ہے ۔ ان کے نزدیک فرد کی بقا، قوموں کی تعمیر و ترقی اور تسخیرِ کائنات کے لیے محنت ِ پیہم، جہدِ مسلسل، کشمکش و معرکہ آرائی، سعی و عمل اور سخت جانی و سخت کوشی کی خصوصیات بہت ضروری ہیں۔ چونکہ ان اوصاف کی پختگی میں صحرانوردی سے مدد ملتی ہے، اس لیے انھیں صحرا نوردی عزیز ہے۔ جب انسان صحر ا نوردی کے لیے نکل کھڑا ہوتا ہے تو وہ ایسے ذوق و شوق سے آشنا اور ایسی لذت سے ہم کنار ہوتا ہے جو اسے راحت و اطمینان اور عیش کوشی کی زندگی میں کبھی نصیب نہیں ہو سکتی۔ صحرا نوردی کو پرکشش بنانے کے لیے اقبال اب ایک پر لطف صحرائی منظر کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔ اس منظر کا نقشہ یہ ہے: صحرا میں کسی نخلستان کے آس پاس کوئی قافلہ اترا ہوا ہے۔ یہ قافلہ ہماری دنیا کے لوازمات سے بے پروا اور سفر کے دنیاوی پیمانوں سے بے نیاز ہے۔ نخلستان کے چشمے پر اہل کرواں کا جمگھٹا دیکھ کر جنت کے کوثر و تسنیم اور سلسبیل کی یاد تازہ ہوتی ہے جس کے گرد مومنین ساقی ِ کوثر کے ہاتھوں آبِ حیات پینے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ نخلستان کے گرد، دور دور تک ریت کے ٹیلے بکھرے ہوئے ہیں اور ان پر آہوانِ صحرائی ایک شانِ بے نیازی اور اندازِ دل ربائی کے ساتھ محو خرام ہیں اور اب شام ہو گئی ہے۔ صحرا میں چاروں طرف کامل سکوت چھایا ہوا ہے۔ ایسے میں غروبِ آفتاب کامنظر کس قدر دل فریب و دل آویز ہے۔ سیکڑوں سال پہلے غروبِ آفتاب کا ایسا ہی منظر حضرت ابراہیم ؑ کے لیے بصیرت افروزی اور خداشناسی کا پیغام لایاتھا۔ (قرآن پاک کی سورۃ الانعام میں یہ واقعہ تفصیل سے مذکور ہے) اسی صحرا میں شام کے وقت جب آفتاب بالکل غروب ہونے کو ہے ، ایک قافلہ اپنا سامانِ سفر تازہ کرنے کے بعد اگلی منزل کے لیے روانہ ہو رہاہے۔ فضاے دشت میں بانگ ِ رحیل بلند ہو رہی ہے ۔ رات ڈھل رہی ہے۔ صبح صادق قریب ہے۔ مشرق سے ستارۂ سحری نمودار ہوا ہے۔ اس کی نمود میں ایسا حسن ، رعنائی اور لطافت ہے کہ بامِ گردوں سے جبریلِ امین جھانکتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان حسین مناظر اور پاکیزہ کیفیات کی دل آویزی میں کچھ ایسی کشش ہے کہ محبت کے سودائی ،مادّی زندگی کی آلودگیوں سے فرار ہو کر ویرانوں (بالفاظ دیگر دل فریب صحراؤں) کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں۔ بدویت کا ایسا بھر پور مرقع پیش کرنے کے بعد وہ قاری کو اس نتیجے تک لے آتے ہیں کہ کسی کو اس صحرا نوردی پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ انسانی زندگی اسی صحرا نوردی ، تگاپوے دمادم، سخت جانی اور سرگرانی سے عبارت ہے اور حیاتِ انسانی کاوجود انھی خصوصیات کا مرہونِ منت ہے۔ مگر اس سے قطع نظر اقبال کی صحرائیت پسندی کے کچھ اور وجوہ بھی ہیں : ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری کا کہنا بالکل بجا ہے:’’ اقبال دشت ِ حجاز پر مٹا ہوا ہے‘‘ عبدالسلام ندوی کے خیال میں اس کا سبب یہ ہے کہ دورِ اول کے مسلمانوں کا اصلی مولدومنشا ہی صحراے عرب ہے… عرب کی سادہ، صحرائی اور بدویانہ زندگی ہی نے دورِ اول کے مسلمانوں میں فاتحانہ اخلاق پیدا کیے تھے… پھر یہ کہ صحرائی زندگی میں …تکلف و تصنع کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے اخلاق ، مذہب اور معاشرت سب اپنی اصلی حالت پر قائم رہتے ہیںاور فطرت کا جو منشاہے ، وہ پورا ہوتا رہتا ہے… صحرا نشین آدمی میں قو ّتِ برداشت بہت زیادہ ہوتی ہے اور قناعت پسندی کے سبب اس کی ضروریات اور مطالبے نسبتاً بہت کم ہوتے ہیں۔ کسی بڑے شہر کے باسی یک متمدن انسان میں وہ جوش و لولہ نہیں ہوتاجو عام طورپرصحرا نشینوں میں پایا جاتا ہے: فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مردِ کہستانی صحرا کی بے سروسامانی اور خود دارانہ زندگی کا نام اقبال کی اصطلاح میں ’’ فقر‘‘ ہے ۔ فقر کی بدولت صحرائی علاقوں سے مجدد ، رفارمر اور پیغمبر اٹھتے رہے ہیں۔ اقبال روحانی اور جسمانی قو ّتوں کے حصول کے لیے صحرائیت و بدویت کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ یہی قو ّت دین و دنیا کی سعادتوں کا سنگ بنیاد ہے۔ ( اقبال کامل: ص ۲۸۱- ۲۸۲) پروفیسر آسی ضیائی کے خیال میں اقبال کی بدویت پسندی کا ایک اہم نفسیاتی سبب ان کے ’’اس ردّ ِ عمل میں دیکھا جا سکتا ہے جو ان کے ذہن میں فرنگی تہذیب کے خلاف پیدا ہوا۔ چونکہ یورپ کی سائنسی اور علمی سرگرمیوں کے سوا، انھیں یورپ کی ہر چیز سے تنفّر ہو گیا تھا، اس یورپ کی تمدنی زندگی کی سطحیت ، تصنع اور عافیت سوزی بھی بری طرح کھٹکنے لگی اور انھوں نے محسوس کیا کہ تمدن کی اس انتہا پر پہنچنے کے بعد انسان کے لیے تباہی ہی تباہی ہے جس سے پناہ، صحرا و کوہساری کے پرسکون ماحول میں مل سکتی ہے۔ ( کلام اقبال کا بے لاگ تجزیہ: ص ۱۶۹۔۱۷۰) اقبال خودکو ’’لالۂ صحرایم‘‘ کہتے ہیں۔ انھیں لالۂ صحرا سے خاص انس ہے۔ وہ بار بار اس کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ یہ بھی ان کی بدویت پسندی کی دلیل ہے۔