Actions

٭جمہوریت:

From IQBAL

Revision as of 07:09, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> پانچویں صدی عیسوی میں رومن امپائر کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ یورپ کی تمدنی و سیاسی اور مع...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

پانچویں صدی عیسوی میں رومن امپائر کا نظام درہم برہم ہو گیا۔ یورپ کی تمدنی و سیاسی اور معاشی وحدت بالکل پارہ پارہ ہو گئی۔ یورپ چھوٹے چھوٹے اجزا میں بٹ گیا اور نظام جاگیر داری (Feudal System)کا آغاز ہوا۔ کلیسا نے نوخیز نظامِ جاگیرداری سے موافقت کر لی (اور اس کا پشت پناہ بن گیا۔ یہ گویا ملوکیت کی نئی شکل تھی) پھر نشأت ثانیہ (Renaissance)کی ہمہ گیر تحریک سے یہ جمود ٹوٹا۔ خیالات‘ معلومات اور ترقی یافتہ طریقوں سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ کلیسا اور جاگیرداری کے خلاف کشمکش شروع ہوگئی۔ ان دونوں کے خلاف قوم پرستی کا بت تراشا گیا۔ دین و سیاست میں تفریق پیدا ہوئی۔ اخلاقی اقدار کمزور ہو گئیں۔ زندگی کے ہر شعبے اور راہِ عمل میں مکمل آزادی کا پرچار ہونے لگا۔ یہی خیالات جدید جمہوریت کی بنیاد بنے۔ جدید مغربی جمہوریت کو اقبال نے اسی لیے قدیم ملوکیت کی نئی شکل قرار دیا کہ نتائج کے اعتبارسے یہ بھی قیصریت سے مختلف نہ تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغرب میں دین و اخلاق کو سیاست سے بے دخل کر دیا گیا۔ تحریک نشأت ثانیہ کی انتہا پسندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ میکاولی جیسے لوگوں نے کھلم کھلا کہا کہ سیاست میں اخلاقی اصولوں کا لحاظ رکھنا ضروری نہیں (اسی لیے علامّہ نے میکاولی کو ’’ مرسلے از حضرتِ شیطان‘‘ کہا ہے) اقبالؔ نے ’’ خضر راہ‘‘ میں دین و سیاست کی علاحدگی سے پیدا ہونے والے مفاسد کا ذکر اگرچہ بہت ہی اختصار کے ساتھ کیا ہے‘ مگر اس سلسلے میں اقبال کے نقطۂ نظر کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں : نظامِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اور سیاست اگر’’لا دیں‘‘ ہو تووہ زہرِ ہلاہل سے بھی بڑ ھ کرخطرناک ہو گی۔ جمہوریت کااستبدادی نظام ‘ جسے اقبال نے ایک جگہ ’’دیو بے زنجیر‘‘ کہا ہے ‘ نتائج کے لحاظ سے ملوکیت اور شہنشاہی کے نظام سے بھی بد تر اور سخت گیر ثابت ہوا۔ اقبال کے نزدیک مغرب کے ظاہر و باطن میں واضح تفاوت ہے ۔ پیشانی پر رعایات‘ حقوق اور حمہوریت کے سائن بورڈلگے ہیں، قیامِ امن ‘ خوش حالی‘ ترقی اور آزادی کے فروغ کے لیے انجمنیں اور مجالس بنائی جاتی ہیں مگر جمہوری قبا میں ملبوس یہ ’’ دیو استبداد‘‘ اپنے پنجۂ ہوس سے کمزور قوموں کا شکار کھیلنے کے لیے ہر وقت آمادہ رہتا ہے۔ ’’ سرمایہ و محنت‘‘ کے عنوان کے تحت اقبال کہتے ہیں : نسل ‘ قومیّت‘ کلیسا‘ سلطنت‘ تہذیب‘ رنگ خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات اس بلیغ شعر میں اقبال نے مغربی جمہوریت اور سامراجی نظام کے تلخ ثمرات (دین وسیاست کی علاحدگی ‘ نو آبادیاتی نظام ‘ نسلی امتیاز اور نیشنلزم کی لعنتوں) کی نشان دہی کی ہے۔ آگے بڑ ھنے سے پہلے عام قاری کی ایک ذہنی خلش دور کرنا ضرور ی ہے۔ جمہوریت بظاہر کوئی بری شے نہیں تو پھر اقبال باربار مغربی جمہوریت کی برائیاں کیوں گنواتے ہیں اور اس کی مذمت کیوں کرتے ہیں؟ مغربی جمہوریت کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ حاکمیت کا اختیار عوام کو ہے اور کثرتِ راے سے وہ جو فیصلہ چاہیں ‘ کر سکتے ہیں، یعنی حق و صداقت اور خوب و ناخوب میں تمیز کرنا عوام کا کام ہے ۔ گویا انھیں مادر پدر آزادی میسر ہوتی ہے۔ مگر انسانی معاملات اور مسائل بہت پیچیدہ ہیں اور اس کے مقابلے میں انسان کا علم محدود ہے ۔ اس کی ظاہر بیں نظریں ہر معاملے کی تہ اور اس میں پوشیدہ نتائج و اثرات تک نہیں پہنچ پاتیں۔ بسا اوقات وہ ’’جمہوری حق‘‘ کے بل بوتے پر ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جس میں اسے اپنا فائدہ نظر آتا ہے مگر وہ اس کے لیے کسی گڑ ھے میں گرنے کے مترادف ہوتی ہے، مثلاً: یہ جمہوریت ہی کا کرشمہ ہے کہ برطانیہ میں ہم جنسیت (Homo-sexuality)کو جائز ٹھہرایا گیا ہے اور اس کے لیے باقاعدہ قانونی تحفظ موجود ہے اور اب امریکہ کی بعض ریاستوں میںہم جنس پرستوں کی شادی کو قانونی جواز مل گیا ہے۔ اسی طرح شراب نوشی طبی لحاظ سے صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ امریکی حکومت نے ۱۹۳۳ء میں شراب کی خرید و فروخت ‘ درآمد و برآمد‘ ساخت و پرداخت اور استعمال پر پابندی لگادی تھی، مگر امریکہ کے ’’ جمہور‘‘ نے شراب کی بندش کے قانون کو منسوخ کر ا دیا۔ وجہ کیا ہے؟ معاشرے میں اہل الراے ‘ فہمیدہ‘ جہاں دیدہ اور ملکی مسائل پر گہری نظر اور وقیع راے رکھنے والے لوگ ان لوگوں کے مقابلے میں اقلیت میں ہوتے ہیں جن کی اپنی کوئی راے نہیں ہوتی اور جنھیں کسی بھی فوری جذبے ‘ٖ اشتعال‘ لالچ ‘ خوف، ظاہر ی نفعے یا پرو پیگنڈے کے زور سے کسی ناجائز بات کے حق میں ہموار کرنا آسان ہوتا ہے۔ ’’ معیار‘‘ کو نظر انداز کرکے محض’’گنتی‘‘ کی بنیا د پر کیے جانے والے فیصلے بسا اوقات قوموں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ رائج الوقت جمہوریت کے اصول (One man one vote)کی رو سے تو قائد اعظم یا علامّہ اقبال جیسا صاحب ِ فہم و بصیرت شخص اور ایک ان پڑھ دیہاتی برابر کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی راے (ووٹ) کا وزن برابر ہے مگر دونوں کی تعلیم ‘ فہم و عقل‘ بصیرت و دانائی اور شعور و دانش میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ان پڑھ دیہاتی بھی بطور انسان بلاشبہہ واجب الاحترام ہے مگر دستور و قانون‘ اور دانش و حکمرانی کے امور و معاملات بہرحال اسے نہیں سونپے جاسکتے خواہ وہ کتنی ہی کثیر تعداد میں ووٹ کیوں نہ لے لے۔ اس لیے محض کثرت ‘ کوئی پایدار بنیاد نہیں ہے۔ہٹلر کثرتِ راے والی جمہوریت کے خلاف یہ دلیل دیا کرتا تھا کہ اگر سو گدھے ایک طرف ہوں اور ایک انسان دوسری طرف… تو ایک انسان کی بات صائب سمجھی جائے گی‘ نہ کہ ( جمہوریت پر عمل کرتے ہوئے ) سو گدھوں کی بات لائقِ ترجیح ہوگی۔ اقبال نے بھی یہی بات کہی ہے: گریز از طرز جمہوری غلامِ پختہ کارے شو کہ از مغزِ دو صد خر ‘ فکر انسانی نمی آید