Actions

نوید صبح

From IQBAL

نوید صبح

آتی ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر
منزل ہستی سے کر جاتی ہے خاموشی سفر

محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت
دیتی ہے ہر چیز اپنی زندگانی کا ثبوت

چہچاتے ہیں پرندے پا کے پیغام حیات
باندھتے ہیں پھول بھی گلشن میں احرام حیات

مسلم خوابیدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھی ہو
وہ چمک اٹھا افق، گرم تقاضا تو بھی ہو

وسعت عالم میں رہ پیما ہو مثل آفتاب
دامن گردوں سے ناپیدا ہوں یہ داغ سحاب

کھینچ کر خنجر کرن کا، پھر ہو سرگرم ستیز
پھر سکھا تاریکی باطل کو آداب گریز

تو سراپا نور ہے، خوشتر ہے عریانی تجھے
اور عریاں ہو کے لازم ہے خود افشانی تجھے

ہاں، نمایاں ہو کے برق دیدئہ خفاش ہو
اے دل کون ومکاں کے راز مضمر! فاش ہو