Actions

ممالک اسلامیہ…فلسطین

From IQBAL

حضرت علامہ کو مسئلہ فلسطین سے غایت درجہ دلچسپی تھی۔ اور انہوںنے ہندوستان کے دور غلامی میں فلسطین کو پنجہ اغیار سے چھڑانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ مس فارقوہرسن کے نام ان کے خطوط اس پر شاہد ہیں کہ کچھ جو پہلے میسر آئے حصہ اول میں موجود ہیں۔ جو خطوط میری علی گڑھ سے واپسی کے بعد لاہور میں سر عبدالقادر مرحوم سے درستیاب ہوئے۔ حصہ دو م میں شامل کر لیے گئے ہیں۔ ان خطوط میں برطانیہ کو عربوں سے اپنے حتمی وعدوں کی خلاف ورزی کے ارتکاب سے بچنے کے لیے توجہ دلائی جا رہی ہے۔ انہیں تاریخ اقوام پر گہری نظر رکھنے والے مفکر کی طرح بتایا جارہا ہے کہ: ’’جب طاقت عقل و دانش کو پس پشت ڈال کر محض اپنی ذات پر بھروسہ کر لیتی ہے تو نتیجہ خود طاقت کا زوا ل ہوتاہے‘‘۔ انگریزوں سے کہا جا رہا ہے کہ فلسطین تمہاری ذاتی جائدا د نہیں تم اس تحریک کو یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن مہیا کرنے سے کہیں زیادہ برطانوی سامراج کے لیے ایک ساحلی گوشہ حاصل کرنے کے زیادہ فکر مند ہو۔ کہیں برطانیہ کو عربی کی دوستی سے محرومی کے عواقب سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں مشرق قریب کے اسلامی ممالک کی سیاسی وحد ت و استحکام کو ترکوں اور عربوں کے فوری اتحاد مکرر پر موقوف بتایا جا رہا ہے عربوں کو بتایا جا رہا ہے کہ عرب ممالک کے مختلف بادشاہ فلسطین کے لیے آزادانہ اورایماندارانہ فیصلہ حاصل کرنے سے قاصر ہیںَ مس فارقوہرسن سے تجویز کیا جا رہا ہے کہ فلسطین کے مسئلہ سے اپیل کے لیے ہز ہائی نس آغا خاں کی تائید و اعانت حاصل کریں اور اپیل کا مسودہ مصر و فلسطین کے زعمائے فکر و عمل کے مشورہ سے مرتب کریں۔ اس مسئلہ پر دلچسپی اور اعانت کے لیے مس فارقوہرسن اور لارڈ ازلینٹن کا شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔