Actions

مغربی کلچر

From IQBAL

Revision as of 01:03, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱) ہمیںصرف اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں یورپی کلچر کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی چمک دمک ہماری ترقی کے راستے میں حائل ہوکر ہمیں اپنے کلچر کے حقیقی باطن تک پہنچنے میں ناکام نہ کردے‘‘ ( پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ ہمیشہ زندگی کی حرکت، ارتقائی پہلوئوں اور تعمیری انداز ِفکر کے مدح خواں تھے۔وہ تہذیب وتمدن کی اعلیٰ اقدار،عملی کمالات،انسانی اُخوت ومحبت، حکمت جوئی اور رواداری پر یقین رکھتے تھے۔اُنھیں جہاں کہیں بھی کوئی فکری تعمیر، ذہنی جلا‘عملی درستگی اور انسانی فلاح وبہبود کا جوہرِ حکمت ملتا وہ اُسے مومن کی گم شدہ میراث سمجھتے ہوئے فوراًحاصل کرنے کے خواہاں ہوتے تھے۔دنیا کے سب سے بڑے محسن اور ہادی اعظم حضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:’’ الحکمتہ ضالتہ المومن‘‘( حکمت مومن کی گم شدہ چیز ہے)۔ اس فرمان نبوی ؐ کی روشنی میں وہ عہد حاضر کے پس ماندہ ذہنی کاہلی کے شکار اور تنگ نظر مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق علم وفن‘تہذیب وتمدن اور حکمت ودانش کے انسانت ساز اُصولوں اور اعلیٰ اقدار حیات کو مغربی کلچر سے بھی حاصل کرسکتے ہیں بشرطیکہ مغربی کلچر اسلامی کلچر کے حقیقی باطن تک پہنچنے میں رکاوٹ ثابت نہ ہو۔

  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپی کلچر کی آنکھوں کوخیرہ کردینے والی چمک دمک کیا ہے اور اسلامی کلچر کے باطن کی نوعیت کیا ہے اور علامہ اقبالؒ ہمیں مغربی کلچر کے کن پہلوئوں کو حاصل کرنے کا سبق دے رہے ہیں۔سب سے پہلے ہم مغربی کلچر کی ترقی کا مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔اُنھوں نے اپنے مندرجہ بالا بیان میں ان بنیادی اُمور کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے:

(الف) یورپی کلچر کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کررہی ہے۔اس بحث کے آغاز میں علامہ اقبالؒ نے اس بات پرافسوس کا اظہار کیا ہے کہ گذشتہ پانچ صدیوں سے ہمارا مذہبی فکر جامد ہوگیاہے اور مسلمان نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے سے غافل ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ زندگی کے تمام اہم شعبہ جات علم وفن، سیاست، معیشت، تعلیم، مطالعہ فطرت،تسخیر کائنات اور غلبہ وتفوق میں چنداں دلچسپی نہیں لے رہے ۔وہ یورپی کلچر اور عملی کمالات کے اچھے پہلوئوں کے تو قدر دان ہیں مگر وہ اس کی ظاہریت کو’’جھوٹے نگوں کی ریزی کاری‘‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

یہ جھوٹے نگینے لادینی نظام حکومت، مادہ پرستی، ظاہریت، نیشنل ازم، کمیونزم، سرمایہ پرستی، مغربی جمہوریت، زندگی اور کائنات کی میکانکی تعبیر، فرد کش اجتماعیت اور جنس پرستی وغیرہ سے عبارت ہیں۔ مغربی کلچر کی ان خامیوں سے تو وہ نفور ہیں لیکن وہ اہل مغرب کی بلند ہمتی‘ علم جوئی‘ تحقیق پسندی‘دنیوی ترقی‘سائنسی اکتشافات،تسخیرکائنات اور جہاں بینی کے مدّاح ہیں۔اس نقطہ نظر سے اُن کے یہ اشعار بھی ملاخطہ کریں:
   ؎ خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوں میں        ہو ا  نہ  کوئی   خدائی  کا  راز داں  پیدا
     ؎ نظر  آتے  نہیں بے پردہ حقائق اُن  کو        آنکھ  جن کی  ہوئی  محکومی  وتقلید سے کور

(کلیات اقبال،ص۵۳۱)

  علامہ اقبالؒ مسلمانو ں کو یہ بتاتے ہیں کہ مغربی کلچر کی خوبیاں اور اس کا فروغ قدیم مسلمانوں خصوصاًہسپانیہ کے مسلمان حکماء کے مرہون منت ہیں۔وہ اہل مغرب کی تحقیق پسندی، علم جوئی اور مطالعہ فطرت کو اصل میں مومن کی گم شدہ میراث خیال کرکے ہمیں اسے دوبارہ پانے کی یوں تلقین کرتے ہیں:

؎ حکمت اشیا فرنگی زاد نیست ا صلِ او جز لّذت ایجاد نیست نیک اگر بینی مسلماں زادہ است ا یں گہر از دست ما افتادہ است

  لیکن   از  تہذیب  ِلادینی گریز       زاں کہ  اوبا  اہل حق  د ارد ستیز   

(کلیات اقبال،ص۸۸۰)

علامہ موصوفؒ اس کے علمی کمالات اور سائنسی اکتشافات کے حصول پر تو زور دیتے ہیںلیکن وہ اس کے لادینی عناصر سے ہمیں دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔وہ یورپی کلچر پر اسلامی احسانات کا تذکرہ کرتے ہوئے بجا فرماتے ہیں:

"There was a time when European thought received inspira- tion from the world of Islam---European culture,on its intellectual side, is only a further development of some of the most important phases of the culture of Islam." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.6) )ب) اسلام کلچر کے حقیقی باطن کے تحفظ کے پیش نظر علامہ اقبالؒ یورپی کلچر کی ظاہری چمک دمک کو رکاوٹ خیال کرتے ہیں۔اسلامی کلچر کے حقیقی باطن کی نمایاں ترین حقیقی خصوصیات کی نوعیت کیا ہے؟اس کی تفصیل یہ ہے: (۱) اسلامی کلچر دین ودنیا،مادہ وروح، فکر وعمل، فرد وجماعت اور عقل وایمان کا خوبصورت‘ دل کش اور مثالی امتزاج ہے۔ (۲)اسلامی کلچر اس مادی دنیا کو فریب نظر یا واہمہ خیال نہیں کرتا بلکہ یہ باطنی علم کی طرح ظاہری اور حسّی علم کو بھی مفید اور ضروری خیال کرتا ہے۔قرآن دنیوی فلاح اور ترقی کا ہرگز مخالف نہیں۔ (۳) قرآن کائنات کو حقیقی، بامقصد، حرکی، تغیر پذیر،ارتقائی عمل کی حامل اور خدائی صفات کی مظہر قرار دیتا ہے۔ (۴) اسلامی کلچر میں کائنات کے عمیق مطالعہ اور مشاہدہ پر بہت زور دیا گیا ہے تاکہ ہم علم و بصیرت کی روشنی میں فطرت کی طاقتوں کو حیات بخش اور انسانیت ساز مقاصد کے لیے مسخر کرسکیں۔ (۵) اسلامی کلچر زندگی کو دوری حرکت نہیں سمجھتا بلکہ وہ اسے خط مستقیم کی مانند آگے بڑھنے والی لکیر اور ارتقائی شکل سمجھتا ہے۔ (۶) اسلامی کلچر دین وسیاست کی جدائی‘ ملوکیت‘ سرمایہ داری‘ قوم پرستی اور لادینیت کا زبردست مخالف ہے۔ (۷) اسلامی کلچر میں عقیدہ توحید اور عقیدہ ختم نبوت کو بنیاد ی اہمیت حاصل ہے۔ (۸) اسلامی کلچر میں حصول علم کے تین اہم ذرائع،انفس، آفاق اور تاریخ ہیں۔ (۹) اسلامی کلچر میں تغیر کے ساتھ ساتھ ثبات کا عنصر بھی شامل ہے۔اسلامی ثقافت میں ابدی اُصولوں کی حدود میں رہ کر اجتہاد فکر ونظر کی اجازت تغیر کے پہلو کو واضح کرتی ہے۔