Actions

متنوع لہجہ

From IQBAL

Revision as of 11:34, 10 July 2018 by Muzalfa.ihsan (talk | contribs) (Created page with " <div dir="rtl"> نظم کا آغاز بڑ ے نرم اور دھیمے لہجے میں ہوتا ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’ ستاروں کی تنک تابی‘...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

نظم کا آغاز بڑ ے نرم اور دھیمے لہجے میں ہوتا ہے۔ پہلے مصرعے میں ’’ ستاروں کی تنک تابی‘‘ کی ترکیب نرمی ‘ سبک روی‘ گداز اور گھلاوٹ کا احساس پید ا کر رہی ہے‘ دوسرے مصرعے اور پھر دوسرے شعر تک پہنچتے پہنچتے شاعر کے لب و لہجے میں گرمی ‘ جوش اور ولولہ پیدا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ جوں جوں آگے بڑ ھتے جائیں ‘ لب و لہجے کی تیزی و تندی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ طوفانِ مغرب، تلاطم ہاے دریا، شکوہِ ترکمانی، نوارا تلخ تر می زن، تقدیر سیمابی کی تراکیب گواہی دے رہی ہیں کہ شاعر اپنے بیان کے اظہار میں قو ّت اور شدت سے کام لینا ضروری سمجھتا ہے ۔ یہاں تک کہ پہلے بند کے ختم ہوتے ہوتے شاعر ’’چراغِ آرزو روشن کرنے‘‘ اور شہیدِ جستجو کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ دوسرے بند کے آغاز میں شاعر کا لہجہ پھر قدر ے نرم ہو جاتا ہے۔ مگر بند کے اختتام پر ’’سوزو سازِ زندگی‘‘ کے ذکر سے بیان میں پھر وہی گرمی اور وہی جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ لب و لہجے کا یہ اختلاف پوری نظم میں موجود ہے۔ اظہارِ بیان کبھی تو بہت پر جوش اور ولولہ خیز ہوتا ہے اور کبھی اس میں نرمی ‘ دھیما پن‘ اور گھلاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال کبھی مسلمان کو براہِ راست ‘ جہد و عمل اور حرکت پر اکساتے ہیں اور کبھی ناصحانہ ‘ واعظانہ اور مشفقانہ لہجہ اختیار کرتے ہیں۔ جب وہ دنیا کی مختلف قوموں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں تو ان کا اندازبیان تجزیاتی ہوتا ہے اور انسان کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے اشعارسے سوزو گداز اور درد مندی ٹپکتی ہے۔ اندازِ بیان کی اس رنگینی اور لب و لہجے کے تنوع نے نظم کو اس کائنات کی طرح خوب صورت اور رنگین و دل کش بنا دیا ہے جس کی وسعتوں میں کہیں پہاڑ نظر آتے ہیں‘کہیں میدان اور کہیں دریا‘ کہیں بلند و بالا اور تناور درخت ہیں اور کہیں چھوٹے چھوٹے نرم و نازک پودے ‘ کہیں پھلوں سے لدے پھندے درخت جھومتے ہیں اور کہیں رنگارنگ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو فضا کو معطر کر رہی ہے۔ مگر جیسا کہ اوپر بھی ذکر آچکا ہے‘ لب و لہجے کے تنوع کے باوجود ‘ بیان میں جوش و خروش اور مسرت و سرمستی کی کیفیت زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ اقبال کے سامنے وہ ’’ عالمِ نو‘‘ طلوع ہورہا تھا کہ صدیوں سے’’ زندانی‘‘مسلمان ’’ شگافِ در‘‘ سے اس کے منتظر تھے۔ یہ بات بھی کچھ کم مسرت خیز نہیںتھی کہ مستقبل مسلمانوں کا ہے۔ ایک ایسے عظیم الشان موقع بر جب تاریخ ایک نازک موڑ مڑ کر ایک نئے اور نسبتاًروشن دور میں داخل ہورہی تھی‘ شاعر کے لہجے میں سرمستی کی کیفیت پیدا ہو جانا عین فطری ہے۔ نظم کا آخری بند جو شدتِ جذبات کے تحت اقبال نے فارسی میں لکھا ‘ جوش و خروش اور مسرت و سرمستی کا بھر پور اظہار ہے۔ یہ بند ایک طرح سے نظم کا کلایمکس ہے ۔ نظم کا خاتمہ بڑا دل نشین ہے۔