Actions

فراریت

From IQBAL

(۱)’’ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ بعض مذاہب اور فنون ہمیں زندگی کی حقیقتوں سے بزدلانہ گریز کا سبق دیتے ہیں لیکن میرا دعویٰ ہے کہ یہ بات تمام مذاہب کے بارے میں درست نہیں‘‘ (پہلا خطبہ)

علامہ اقبالؒ ان مفکرین میں سے ہیں جو زندگی کے مسائل اور اس کے تلخ حقائق سے مردانہ وار نبرد آزما ہونے کا درس دیتے ہیں۔اُن کی شاعری کے تاروپود میں ہمیں جفاکشی‘جفاطلبی اور عمل پرستی کے عناصر بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔وہ زندگی کو حرکت وعمل کی ایک زندہ علامت سمجھتے ہوئے اس کی جابجا مدح سرائی کرتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:۔
  ع: ہستم  اگر  می  روم‘گر نروم نیستم         

؎ جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ

یہ زورِ دست وضربت کاری کا ہے مقام    میدان جنگ میں نہ طلب کر نوائے چنگ

(کلیات اقبال،ص ۴۷۲) ؎ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے ِسرّ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی

زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ   جوئے  شیر وتیشہ  وسنگِ گراں ہے زندگی
قلزمِ ہستی  سے  تو  اُبھرا ہے  مانند حباب    اس زیاں خانے میں تیرا امتحان ہے زندگی

(کلیات اقبال،ص۲۵۹)

علامہ اقبالؒ کسی بھی طرح اس نظامِ حیات اور ضابطہ اخلاق کے حامی نہیں جو ہمیں زندگی کے فرائض اور اس کے حقائق سے گریزپر آمادہ کرے۔
فراریت(escapism) ایک ایسا انداز فکر ہے جو اس کائنات اور زندگی سے گریز کا درس دیتا ہے۔بزدلی اور خلوت گزینی اس کی دو واضح شکلیں ہیں۔وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ بعض مذاہب،نظامہائے فکر اور فنون(arts) مسائل حیات اور حقائقِ زندگی سے منہ موڑنے کی تلقین کرتے ہیں مگر وہ ہرمذہب کو ایسا خیال نہیں کرتے۔علامہ اقبالؒ یہاں آسٹریا کے شہرہ آفاق ماہر نفسیات ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ(۱۹۳۹۔۱۸۵۶ئ) کی رائے پر تبصرہ کررہے تھے جس نے مذہب کو فراریت پر مبنی‘قدیم لوگوں کے دماغ کی بیکار اختراع اور ہمارے تحت الشعورمیں دبی ہوئی خواہشات کی پیداوارقرار دیا تھا۔حضرت علامہ اقبالؒ جس دین کے پیروکار تھے ‘اس میں عمل بہادری، سعی پیہم اور جفاکشی کی بہت زیادہ تعریف کی گئی ہے۔وہ دین حق تو انسانی سعی اور اس کی ثمرات کی اہمیت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتا ہے: ’’لیس للا نساِن اِلاّ ما سعیٰ‘‘(انسان کے لیے صرف اس کی سعی کا ثمرہ ہے)۔ اس قرآنی تعلیم کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے اسلام کے فلسفہ جفاکشی کو یوں بیان کیا ہے:۔

"True manhood, according to the Quran, consists in patience under ills and hardships'." (The Reconstruction of Religious Thought in Islamp.88)