Actions

علم

From IQBAL

(۱)’’انسان کی زندگی اور اس کی خارجی ترقی کا دارومدار کائنات کے ساتھ تعلقات کی استواری پر ہے۔صرف علم کی بنا پر ہی یہ تعلقات قائم کئے جاتے ہیں۔علم کی بدولت ہی انسان حقیقت کے قابل مشاہدہ پہلو تک رسائی حاصل کرتا ہے‘‘ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ بلاشبہ مشرقی اور مغربی علوم سے واقف اور قوموں کے عروج وزوال کے اُصولوں سے باخبر تھے۔وہ ملّی ترقی کی بنیاد فرد کی ترقی تصور کرتے تھے۔اس میں کوئی کلام نہیں کہ اُنھوں نے اپنے کلام میں عمل پر بہت زور دیا ہے مگر وہ علم کی اہمیت وافادیت کے بھی زبردست قائل تھے۔ان کا یہی توازن خیالات اُن کی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا واضح ثبوت ہے۔اُنکی رائے میں علم کی بدولت ہی انسان اپنی زندگی کو بہتر اور خوشگوار بناسکتا ہے۔وہ انسانی عظمت اور تسخیر کائنات کاایک اہم ذریعہ علم کو قرار دیتے ہوئے انسانی ارتقاء اور برتری کے یوں گن گاتے ہیں:۔ ؎ عروجِ آدمِ خاکی کے منتظر ہیں تمام یہ کہشاں، یہ ستارے،یہ نیلگوں افلاک (کلیات اقبال،ص۳۵۸)

وہ حصول علم کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتے ہوئے ہمیں کائنات کے گہرے مطالعہ ومشاہدہ کی دعوت دیتے ہیں تاکہ ہم اشیاء فطرت میں نور خداوندی اور حکمتِ ایزدی کے اسرارِ وحقائق ملاحظہ کریں۔قرآن حکیم نے بیشتر مواقع پر فطرت کے حسین و حیرت انگیز واقعات کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے مثلاً یہ آیت دیکھئے:’’ افلا ینظرون اِلی الابل کیف خلقت واِلی السّماء کیف رفُعت‘‘(الغاشیہ ۸۸:۱۷) قرآن حکیم کی اس سورہ(غاشیہ) میں ہمیںنظام فطرت کا بغور مطالعہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔جب تک مسلمان اس حکم پر کاربند رہے وہ دنیا میں عظمت وسطوت کے مالک رہے لیکن جب اُنھوںنے تسخیر کائنات سے منہ موڑ لیا تووہ مغلوب ومحکوم ہوکر قعر مذلت میں جاگرے۔علامہ اقبالؒ اس بات پر نوحہ خوانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

؎ خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوں میں ہُوا نہ کوئی خدائی کار راز داں پیدا

  علم اور انسانی زندگی کی بہتری ‘مادی ترقی اور مطالعہ فطرت کے باہمی ربط کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا مندرجہ بالا قول حقیقت کشا اور خیال افروز ہے۔اُنھوں نے اس میں درج ذیل اُمور پر روشنی ڈالی ہے۔

(الف) انسانی زندگی اور خارجی ترقی کا کائنات کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔خدا تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں یونہی نہیں بھیجا بلکہ اس کی ایک غرض وغایت یہ بھی ہے کہ وہ اس دنیا میں اپنی تخلیقی اور عملی قوتوں کو بروئے کار لائے اور اپنی زندگی میں نکھار پیدا کرے۔کائنات کو سراب اور بے کار خیال کرنے والا انسان کبھی بھی اس کے ساتھ گہرا تعلق نہیں رکھے گا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ مادی اور سائنسی ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے گا۔ (ب) علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ علم کے بغیر کائنات سے مضبوط تعلق نہیں رکھا جاسکتا۔جب ہم کائنات کو حقیقی،مفید اور اہم خیال کریں گے تو لامحالہ اس کی نوعیت اور اسرار کو جاننے کے خواہش مند ہوں گے۔اس طرح علم کی بدولت ہم کائنات کے مطالعہ میں منہمک ہوجائیںگے۔کائنات کو واہمہ قرار دینے والے ہرگز اس کے حقائق کو دریافت کرنے کے درپے نہیں ہوں گے۔ (ج) علم کے جذبے سے سرشار ہوکر ہی ہم خدا کی اس بنائی ہوئی کائنات کے مطالعہ ومشاہدہ میں مصروف ہوں گے۔خدا تعالیٰ اپنی حکمت اور قدرت کی نشانیاں مادی دنیا میں بھی دکھاتا رہتا ہے ۔کیا اس حسین، وسیع اور حیران کر دینے والی کائنات اور اس کے گوناگوں مظاہر میں ہمیں خدا کی نشانیاں نظر نہیں آتیں؟کیا یہ مطالعہ کائنات اس طرح سائنسی اور خارجی ترقی کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوتا؟۔ (۲)’’ باطنی مشاہدہ تو انسانی علم کا صرف ایک ذریعہ ہے۔قرآن کی رُو سے علم کے دو اور ذرائع ہیں یعنی فطرت اور تاریخ‘‘۔ (پانچواں خطبہ)

  علامہ اقبالؒ کے اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم نے حصول علم کے تین اہم منابع کاذکر کیا ہے۔اُ ن کی رائے میں ایک ذریعہ علم کا تعلق ہمارے باطن سے ہے جبکہ باقی ذرائع خارجی دنیا سے متعلق ہیں۔خداتعالیٰ نے جب آدم کو پیدا کیا تو اسے اشیا کے ناموں سے آگاہ کیا۔یہی علم فضیلت آدم کا سبب بتایا گیا۔رسول کریم  ﷺ کی حیات طیبہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وحی والہام کا آغاز بھی ان آیات سے ہوا جن میں علم کا بیان ہے۔قرآن مجید میں ہمیں علم کے حصول کی یہ دعا سکھائی گئی ہے:’’ ربِّ زِدنیِ علِماً‘‘(طٰہٰ ۲۰:۱۱۴)،( اے پروردگار !مجھے اور زیاد ہ علم دے)۔ حصول علم کے لیے ہمیں وحی والہام،مطالعہ باطن، مطالعہ کائنات اور تاریخ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ وحی خداوندی کا سلسلہ تو رسول کریم  ﷺ کی نبوت نے ختم کردیا ہے البتہ باقی ذرائع سے ہم فیض یاب ہوسکتے ہیں۔

علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا الفاظ میں جن تین اہم اُمور کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے،اُن کی وضاحت ملاخطہ ہو۔ان تین اُمور کا تعلق باطنی مشاہدات،مطالعہ فطرت اور مطالعہ تاریخ سے ہے۔ (الف ) شاعر مشرق اور حکیم الاّمت علامہ اقبالؒ باطنی مشاہدات کو بھی ایک اہم ذریعہ علم خیال کرتے ہیں۔ باطنی مشاہدات اصل میں ہماری قلبی واردات اور روحانی تجربات کے آئینہ دار ہیں۔ قرآن نے’’آفاق‘‘ کے علاوہ’’ انفس‘‘ کو بھی خدا کی نشانیوں کا مظہر کہا ہے۔ ان باطنی مشاہدات پر زیادہ تر صوفیا اور اولیانے زور دیا ہے۔ صوفیانہ باطنی مشاہدہ وحی خداوندی سے برتر قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ نبی کو ہر لحاظ سے صوفی اور ولی پر فوقیت حاصل ہے۔ (ب) مطالعہ فطرت کو علامہ اقبالؒ نے حصول علم کا دوسرا اہم اور مفید ذریعہ کہا ہے۔مطالعہ فطرت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے اُنھوں نے قرآن حکیم کا بھی حوالہ دیا ہے۔ خالقِ کائنات نے باطنی دنیا کے علاوہ خارجی دنیا کو بھی اپنی خلاقی صفت اور دیگر صفات حسنہ کا مظہر کہا ہے۔ اسلام زندگی کا جامع نظام ہونے کی حیثیت سے مادی تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔اتنی عظیم اور وسیع کائنات سے منہ موڑ کر ظلمت کدئہ خلوت میں بیٹھنا کسی طرح بھی قرآنی تعلیمات کے مطابق نہیں۔علامہ اقبالؒ مطالعہ فطرت کے بارے میں مزید فرماتے ہیں: ؎ ہر چہ مے بینی ز انوار حق است حکمتِ اشیا ز اسرار حق است ہرکہ آیاتِ خدا بیند حر است اصلِ ایں حکمت زحکم اُنظراست (کلیات اقبال،ص ۸۳۹) (ج) قرآن حکیم نے تاریخی واقعات(تذکربایام اﷲ) کو بھی علم حاصل کرنے کا ایک اہم منبع کہا ہے۔قرآن حکیم نے اکثر مقامات پر سابقہ اقوام اور تہذیبوں کے چیدہ چیدہ حالات کو بیان کیا ہے تاکہ ہم گذشتہ لوگوں کے غلط اطوار سے پرہیز کریں اور خدائی ضابطہ حیات کو مشعل ِ راہ بنائیں۔نوحؑ، لوطؑ، یونسؑ، ایوبؑ، یوسفؑ، ابراہیم ؑ ‘ موسٰیؑ، عیسیٰ ؑ اور دیگر انبیائے اکرام کی اُمتوں کی مختلف خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔غلط قوموں پر گوناگوں عذاب نازل کئے گئے اور ان کی بستیوں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیاگیا۔قرآن ہمیں ان سے عبرت حاصل کرنے کے لیے اُن کے تباہ شدہ مقامات کی سیاحت کا حکم دیتا ہے:’’ سیرِوا فی الارضِ فانظر وکیف کان عاقبتہ المکذبین‘‘ حضرت علامہ اقبالؒ تاریخ کے بارے میں یہ کہتے ہیں: ؎ چیت تاریخ! اے ز خود بیگانہ داستانے‘ قِصّہ ، افسانہ؟

ایں  ترا  از  خو یشتن  آگہ کند      آشنائے  کار  و  مردِ رہ کند

(۳) حقیقت مطلقہ کے کّلی ادراک اور رویت کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں حسّی علم کے علاوہ علمِ باطن بھی سیکھنا چاہیے۔قرآن اس علمِ باطن کا سرچشمہ’’فواد‘‘ یا ’’قلب‘‘ یعنی دل کو قرار دیتا ہے۔ ’’دل‘‘ ایک قسم کا وجدان یا باطنی بصیرت ہے جو ہمارا تعلق حقیقت مطلقہ کے غیر حسّی پہلوئوں سے جوڑتی ہے۔اس کی اطلاعات کی اگر صحیح طور پر وضاحت کی جائے تو وہ مبنی بر حقیقت ہوتی ہیں‘‘۔ (پہلا خطبہ) اس اقتباس میں علامہ اقبال ؒنے علم باطن اور قلبی واردات کی اہمیت کے چند اہم گوشوں کو بے نقاب کیا ہے۔حصول علم کا ایک ذریعہ’’قلب‘‘ یعنی دل بھی ہے جسے وہ ایک قسم کا’’وجدان‘‘ یا’’باطنی بصیرت‘‘کہتے ہیں۔ قلبی واردات کی درست وضاحت سے اُن کی معلومات کی حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔کائنات کی سب سے بڑی حقیقت یعنی ذاتِ خداوندی کا عرفان صرف محسوسات کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا بلکہ غیر حسّی علم بھی اس کی معرفت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔اس اقتباس کے اہم اُمور یہ ہیں:۔ (ا)حسّی علم یعنی محسوسات پر مبنی علم کے علاوہ علم ِباطن بھی خداکے ادراک اور رویت کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔خدا الظاہر بھی ہے اور الباطن بھی۔اس لحاظ سے اس کی نشانیاں ہمارے باطن یعنی نفس میں بھی پائی جاتی ہیں جیسا کہ ارشاد رباّنی ہے:’’ سنُرِ یھم اٰ یا تنا ‘‘ (عنقریب ہم اُنھیں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے )۔علامہ اقبالؒ وجدان یا باطنی بصیرت کو ’’خدا کے کامل دیدار‘‘ کا سبب خیال کرتے ہیں۔ وہ ’’جاوید نامہ‘‘ میں واقعہ معراج کے ضمن میں کہتے ہیں:۔ ’’مردِ مومن در نساذ دباصفات… مصطفی راضی نشداِلّٰا بذات‘‘ مرد مومن کسی طرح بھی مصطفی کا ہم مرتبہ نہیںہوسکتا۔علاوہ ازیں حضرت موسیٰؑ کو تو اس دنیا میں کامل دیدار ایزدی نصیب نہ ہوسکا پھر صوفی کیسے پیغمبر پر بازی لے جاسکتا ہے؟۔ (ب)علامہ اقبالؒ ’’فواد‘‘ یا’’قلب‘‘(دل )کو علمِ باطن کا سرچشمہ کہتے ہیں۔وہ ’’دل‘‘ کو ایک قسم کا وجدان یا باطنی بصیرت قرار دیتے ہیں۔اس میںکوئی شک نہیں کہ قرآ ن کی رُو سے’’فواد‘‘(دل)’’سمع‘‘ (سماعت) اور’’ بصر‘‘(بینائی) کے بارے میں قیامت کے روز باز پرس ہوگی۔اپنے روحانی مرشد مولانارومؒ کی طرح علامہ اقبالؒ بھی دل کو انکشافِ حقائق کا آلہ سمجھتے ہیں۔مولانا رو مؒ بھی صاف اور پاکیزہ دل کو علوم انبیا کے حصول کا ذریعہ جانتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ خویش راصا فی کن از اوصاف خود تابہ بینی ذاتِ پاکِ صافِ خود

بینی   اندر   دل   علوِم   انبیاء       بے کتاب  و  بے معید و اوستا     (رومیؒ)

(ج)خدا تعالیٰ کو جاننے کا ایک طریقہ تو حسّی(perceptual) ہے جس کی حواسِ خمسہ پر بنیاد ہوتی ہے اور دوسرا طریقہ وہ ہوتا ہے جو حواس کی دنیا سے ماوراہے۔ دوسرے لفظوں میں باطنی دنیا کا تعلق حواسِ خمسہ سے نہیں ہوتا۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ دل ہمارا تعلق غیر حسّی پہلوئوں یعنی باطنی اور نادیدنی حقائق سے جوڑ دیتا ہے۔اس نقطہ نگاہ سے نادیدنی حقائق کا عکس ہمارے آئینہ دل پر پڑتا ہے اور ہمیں غیب کے اُمور سے آگاہی ہوجاتی ہے۔اُن کی ایک نظم’’ عقل ودلِ‘‘ میں عقل اور دلِ کا مناظرہ دکھایا گیا ہے اس کے یہ چار اشعار بے محل نہیں ہوں گے۔ ؎ عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں

دل نے سن کر کہا یہ سب  سچ ہے       پر مجھے بھی  تو  دیکھ کیا ہوں میں

رازِ ہستی کو تُو سمجھتی ہے اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں ہے تجھے واسطہ مظاہر سے اور باطن سے آشنا ہوں میں (کلیات اقبال،ص۴۱۔۴۲) (د)علامہ اقبال دل یا وجدان یا باطنی بصیرت کی معلومات کو ظاہری علم کی مانند حقیقی‘ اہم اور مفید سمجھتے ہیں بشرطیکہ ہم اُنھیں صحیح انداز میں بیان کریں۔اس ضمن میں اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ صوفیانہ واردات کسی ایک قوم یا کسی ایک دور تک محدود نہیں بلکہ یہ آفاقی نوعیت کی حامل ہیں اس لیے باطنی مشاہدات غلط یا اتفاقی نہیں ہوسکتے۔