Actions

عشق و فراق

From IQBAL

نظم کے آخری پانچ اشعار میں اقبال نے اپنے نظریۂ عشق اور فلسفۂ فراق ووصال کے بعض پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے: ۱۔ عشق کے مقابلے میں عقل ناقص ہے۔ انسان زندگی میں عقل پر کلی بھروسا کرے تو وہ اسے گمراہی کی طرف لے جائے گی ۔ اس کے برعکس اگر وہ عشق کو راہنماے زندگی بنائے تو وہ اسے بالآخر اصل حقیقت تک پہنچا دے گا۔ ارمغانِ حجاز میں کہتے ہیں: وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں عشق سیتا ہے انھیں بے سوزنِ تار و رفو عشق کی راہنمائی میں سفرِ زندگی طے کرتے ہوئے انسان کو آغاز سے انجام تک ہر ہر مرحلے میں ایک نرالی کیفیت اور قلبی لذت کا احساس ہوتا ہے۔ ’’ بمصطفیٰ برساں خویش را‘‘ کا ذریعہ بھی عشق ہے۔ ۲۔ عشق کو زندہ و تابندہ رکھنے کا ایک اہم ذریعہ’’ فراق‘‘ ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ اس بات پر شاہد ہے کہ فراق اور دوری، ایک اہم محرک اور تخلیقی قو ّت ہے اور بقاو استحکامِ خودی اور عشق بھی اسی پر منحصر ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ اگر فراق کی مسلمہ اہمیت قلب و ذہن میں راسخ ہو تو وہ وصال کی ظاہری خوش نمائی اور وقتی فوائد کے باوجود کبھی اس کے قریب نہیں پھٹکے گا۔ اسے حوصلہ ہی نہ ہوگا کہ وہ کسی بہانے ترکِ فراق کرکے بے ادبی کا مرتکب ہو۔ اقبال ایک اور جگہ کہتے ہیں: تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیرد ز وصل چیست حیاتِ دوام ؟ سوختنِ ناتمام نظم کوعشق و فراق کے موضوع پر ختم کرتے ہوئے، اقبالؒیہ حقیقت قارئین کے ذہن نشین کراتے ہیں کہ رسالت مآبؐ کی محبت‘ مسلم ممالک کی تعمیر و ترقی اور ملت اسلامیہ کی نشأتِ ثانیہ کا منبع و سرچشمہ عشق و فراق ہی ہو سکتاہے۔