سرگزشت آدم
From IQBAL
سرگزشت آدم
سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے
بھلایا قصہ پیمان اولیں میں نے
لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں
پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے
رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو
دکھایا اوج خیال فلک نشیں میں نے
ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا
کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے
نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی
کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے
کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا
چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے
کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا
کیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے
کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں
دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے
سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی
پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے
دیار ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی
بسایا خطہء جاپان و ملک چیں میں نے
بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم
خلاف معنی تعلیم اہل دیں میں نے
لہو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو
جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے
سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی
اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے
ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے
کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر
لگا کے آئنہ عقل دور بیں میں نے
کیا اسیر شعاعوں کو، برق مضطر کو
بنادی غیرت جنت یہ سر زمیں میں نے
مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی
کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے
ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر
تو پایا خانہء دل میں اسے مکیں میں نے