Actions

روشن مستقبل پر اظہارِ مسرت

From IQBAL

ترکوں کی فتح عالم اسلام کے لیے ایک بہت بڑا سہارا(Asset) تھی ۔ یوں معلوم ہوتا تھا‘ جیسے عالمِ اسلام انگڑ ائی لے کر بیدار ہو رہا ہے۔ ترکوں کی فتح گویا مسلم نشأت ثانیہ کی طرف پہلا قدم تھا: سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے ‘ وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا دوسری طرف دنیا کی امامت کے دعوے دار‘ یورپ کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکاٖ تھا۔ یورپ کی نام نہاد تہذیب نے دنیا کو تباہی و بربادی اور بربریت و دہشت گردی کے سوا کچھ نہ دیا۔ اقبال کے سال نو کے پیغام( یکم جنوری ۱۹۳۸ئ) سے انداز ہ ہوتا ہے کہ وہ مغرب سے قطعی مایوس تھے۔ منطقی طور پر انھوںنے قرار دیا کہ اب اسلام ہی بنی نوع انسان کے مسائل حل کر سکتا ہے۔ چنانچہ ’’ طلوعِ اسلام‘‘ کے آخری بند میں اقبال نے اس پر بڑ ے جوش و خروش کے ساتھ خوشی اور مسرت کا اظہار کیا ہے ۔ یہاں ملت اسلامیہ کی پوری تاریخ ان کے سامنے ہے۔ ’’خواجۂ بدر و حنین‘‘ اور ’’شاخِ خلیل ‘‘ؑ کی تلمیحات سے مسلمانوں کے شان دار ماضی کی طرف بڑ ے لطیف اشارے کیے ہیں۔ وہ ان شہیدوں کو نہیں بھولے جنھوں نے ہر نازک موقع پر قوم کی سربلندی اور دین کے تحفظ کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ اقبال کے نزدیک جب تک ملت کی تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں ‘ دنیا کی کوئی طاقت اسے نیست و نابود نہیں کر سکتی۔ یہاں اقبال نے حافظ شیرازی کا ایک فارسی شعر نقل کیا ہے: بیا ساقی نواے مرغ زار از شاخسار آمد بہار آمد‘ نگار آمد‘ نگار آمد‘ قرار آمد یہ شعر ایک ایسی کیفیت کی ترجمانی کرتا ہے ‘ جب کوئی شخص‘ مسرت کے انتہائی جذبات سے لبریز دل کے ساتھ‘ دوستوںکا ہاتھ پکڑ کر خوشی کے عالم میں رقص کرنے لگتا ہے۔