Actions

رسول کریم ﷺ

From IQBAL

(۱)’’ پیغمبر اسلام دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔وہ اپنے وحی کے سرچشمے کے اعتبار سے عالم قدیم سے متعلق ہیں۔ لیکن جہاں تک اُن کی وحی کی سپرٹ کا تعلق ہے ۔وہ عصر حاضر سے مربوط ہیں۔اُن کی بدولت زندگی نے اپنی نئی سمتوں کے لیے مناسب علوم کے نئے نئے سرچشمے دریافت کئے ہیں۔ دراصل اسلام کاظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے‘‘ (پانچواں خطبہ)

رسول کریم ﷺ کی نبوت کسی ایک دور یا کسی ایک انسانی گروہ تک محدود نہیں کیونکہ خداتعالیٰ نے اُن کو’’ ر حمت العٰلمین ‘‘ بنا کر بھیجا تھا۔اب قیامت تک نبی کریمؐ کی نبوت کی حکمرانی رہے گی۔ اب کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہیں۔علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں دو اہم اُمور… رسالت محمدیؐ میں وحی کے سرچشمے کی قدامت اور اس کی جدید اور ابدی حیثیت، کو بیان کیا ہے۔اُنھوں نے رسول کریمؐ کی ذات گرامی کو قدیم اور جدید دنیائوں کے درمیان ایک مقام اتصال قرار دیتے ہوئے اُن کی رسالت ونبوت کی ہمہ گیر اہمیت اور عظمت کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ کے خیال میں پیغمبر اسلام اپنی وحی کے سرچشمے کی بدولت قدیم دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں ہادی اعظمؐ نے دوسرے انبیاء ورسل ؑ کی طرح خدا کی طرف سے الہام ووحی کے ذریعے پیغام ہدایت حاصل کرکے لوگوں کو توحید کا انقلاب آفریں درس دیا تھا۔سابقہ انبیائے کرام ؑ بھی اپنے اپنے زمانے کے لوگوں کو توحید کا پیغام سناتے رہے تھے۔وحی والہام کا یہ اشتراک حضرت محمد ﷺ کو گزرے ہوئے نبیوں سے ملا دیتا ہے۔اس زاویہ نگاہ سے اُن کی وحی کا سرچشمہ بھی وہی تھا جہاں سے سابقہ انبیائے کرامؑ فیض ربانی حاصل کرتے رہے تھے۔ یہ تو نبوت محمدی ﷺکا ایک پہلو ہے۔اسکا دوسر اپہلو یہ ہے کہ ختم نبوت نے رسول کریمؐ کے پیغام اور سیرت طیبہ پر ابدیت اور آفاقیت کی مہر ثبت کردی ہے۔اب موجودہ دور ہو یا آنے والے ادوار ان سب میں رسالت محمدیؐ آخری سند کا درجہ رکھے گی۔ جس طرح محسن انسانیتؐ کی نبوت آخری ہے۔اسی طرح قرآن حکیم بھی تمام انسانوں کے لیے آخری کتاب ہدایت کی حیثیت کا حامل ہے۔علامہ اقبالؒ نے اس امر کی مزید صراحت ان اشعار میں کی ہے:۔

دین فطرت از نبیؐ آمو ختیم در رہِ حق مشعلے افر و خیتم پس خدا برما شریعت ختم کرد بر رسولؐ ما رسالت ختم کرد

رونق   ازما   محفل  ایّام   را      اُو  رُسل  را  ختم   و  ما  اقوام را

خدمت ساقی گری باما گذاشت داد مارا آخریں جامی کہ داشت ( رموز بے خودی،کلیات اقبال،ص۱۰۲)

علامہ اقبالؒ نے اپنے قول میں یہ بھی کہا ہے کہ رسو ل خداؐ کی بدولت’’زندگی نے اپنی نئی سمتوں کے لیے مناسب علوم کے نئے سرچشمے دریافت کئے ہیں۔دراصل اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے‘‘ ختم نبوت کے عقیدے کی عملی اور ثقافتی قدر وقیمت یہ ہے کہ اب کوئی شخص بھی وحی والہام کے پردے میں اپنی ذاتی رائے ٹھونس نہیں سکتا۔ انسانیت جب عہد طفولیت میں تھی تو اس وقت وہ بچے کی مانند نبوت کی انگلی پکڑ کر چلنے پر مجبور تھی لیکن جب وہ بلوغت کے مرحلے میں داخل ہوئی تو اسے اپنے پائوںپر کھڑا ہونے کی تلقین کی گئی۔ نبی کریمؐ کی نبوت کی تکمیل دراصل اس بات کی شاہد ہے کہ اب انسانوں کو آپؐ کی نبوت کی روشنی میں اپنے نت نئے مسائل اور حالات کو اپنی عقلی استعداد کی بدولت سمجھ کر حل کرنا ہوگا۔اب کوئی انسان وحی والہام کا سہارا لے کر انسانی عقل وفکر کو اپنا غلام نہیں بنا سکتا۔اسی عقل خداداد سے کام لے کر مسلمانوں نے نئے نئے علوم کے باب کھولے اور استقرائی عقل کی افادیت کو ظاہر کیا۔علامہ اقبالؒ رسالت محمدیہ ؐکے چند پہلوئوں پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں:۔

؎ تاز ہ جاں اندر تن آدم دمید بندہ را با ز از خداونداں خرید زا دنِ اُو مرگ دنیائے کہن مرگ آتش خانہ و دیر دشمن حریت زاد ازضمیر پاکِ اُو ایں مئے نوشیں چکید از تاکِ اُو

  نقش  ِنو  بر  صفحہ ہستی کشید       اُمّتے  گیتی   کشائے    آفرید    

(رموز بے خودی،کلیات اقبال،ص۱۰۴)

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول کریم ؐ کی بعث نے مجبور ومحکوم انسانوں کو کئی چھوٹے چھوٹے خدائوں اور آقائوں کی غلامی سے نجات دلا کر خدائے واحد کا پرستار بنایا اور قدیم باطل نظریات کے خرمن کو جلا کر راکھ کردیا ہے۔ جب اُن کی نبوت کے طفیل انسانوں کو آزادی فکر نصیب ہوئی تو مسلمانوں نے علمی کمالات کے فیضان سے دوسری قوموں کو بھی متمتع کیا۔جدید دور کی ذہنی بیداری اور فکری آزادی اصل میں ہادی اعظمؐ کی نبوت ورسالت کا فیض ہی تو ہے۔اسی طرح زمانہ تاریک کے گمراہ کن نقوش کو مٹا کر زندگی کی راہ کو رشک کہکشاں بنادیا گیا اور ایک عالمگیر اُمت معرض وجود میں آگئی۔علامہ اقبالؒ کے ان ولولہ انگیز اور حقیقت کشا اشعار سے عشق ِرسول ﷺ کی فکری شدت کا پتہ چلتا ہے۔