Actions

ذوق و شوق

From IQBAL

٭تعارف اور پس منظر

علامّہ اقبال ؒ دوسری گول میز کانفرنس ( منعقدہ لندن ۷ ستمبر تا یکم دسمبر ۱۹۳۱ئ) میں مسلم لیگ کے نمایندے کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ ابھی کانفرنس ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ ۲۱ نومبر کو لندن سے واپس روانہ ہوگئے۔ اٹلی میں چندروزہ قیام کے دوران میں مسولینی اور سابق شاہِ افغانستان امان اللہ خان سے ملاقات کی ۔ پھر مصر سے ہوتے ہوئے ۶ دسمبر کو بیت المقدس پہنچے۔جہاں انھیں مؤتمر عالمِ اسلامی کے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔ اس اجلاس میں وہ ہندی مسلمانوں کے نمایندے کی حیثیت سے مدّعو تھے۔ غلام رسول مہرؔ اس سفر میںاقبال کے ہمراہ تھے۔ اقبال نے مؤتمر کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔ مؤتمر کے چار نائب صدور منتخب ہوئے ،ان میں علامّہ اقبالؔ بھی شامل تھے۔ وہ ۱۵دسمبر تک بیت المقدس میں مقیم رہے اور مؤتمر کی کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے۔ اس دوران میں جب بھی موقع ملتا ‘ تاریخی مقامات دیکھنے نکل جاتے۔ روانگی سے ایک روز قبل ۱۴ دسمبر کی شام آپ نے انگریزی میں ایک مؤثر خطبہ دیا۔کانفرنس سے فارغ ہوکر فلسطین سے مصر پہنچے اور وہاں سے بذریعہ بحری جہاز ہندستان روانہ ہو گئے۔ ۳۰ دسمبر ۱۹۳۱ء کو لاہور پہنچے۔ فرمایا: میرایہ سفر زندگی کا نہایت دل چسپ واقعہ ثابت ہوا ہے۔ ’’ ذوق وشوق‘‘ اسی دل چسپ سفر کی یادگار ہے اور جیسا کہ اقبال نے خودتصریح کی ہے : ’’اس نظم کے اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لکھے گئے‘‘۔ مؤتمرِ عالمِ اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر، مسلم ممالک کے متعدد وفود سے اقبالؔ کی ملاقات ہوئی۔ اجلاس میں مسلمانوں اور مسلم ممالک کے مسائل پر بحثیں ہوئیں ۔ مختلف تجاویز پیش ہوئیں اور کئی اہم امور طے پائے۔ اقبال بعض ملکوں کے وفود سے مل کر بے حد خوش ہوئے۔ فرمایا:’’ فلسطین کے زمانۂ قیام میں متعدد ممالک‘ مثلاً: مراکش‘ مصر‘ یمن ‘ شام ‘ عراق ‘ فرانس اور جاوا کے نمایندوں سے ملاقات ہوئی۔ شام کے نوجوان عربوں سے مل کر میں خاص طور پر متاثر ہوا۔ ان نوجوانانِ اسلام میں اس قسم کے خلوص و دیانت کی جھلک پائی جائی ہے جیسی میں نے اطالیہ کے فاشسٹ نوجوانوں میںدیکھی۔ کانفرنس کے دوران میں بعض موقعوں پر باہمی اختلاف کے مناظر بھی سامنے آئے۔ اس سلسلے میں علامّہ نے فرمایا کہ مقامی جماعتی اختلاف کے باوجود، مؤتمر شان دار طریق پر کامیاب ہوئی۔ اس اجتماع میں اکثر اسلامی ملکوں کے نمایندے شریک ہوئے اور اسلامی اخو ّت اور ممالک اسلامی کی آزادی کے مسائل پر مندوبین نے بے حد جوش و خروش کا اظہار کیا۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :سفرنامہ اقبال:ص ۱۶۰تا ۱۸۳) بہرحال کانفرنس میں شرکت‘ اسلامی وفود سے ملاقاتوں اور مقدس مقامات کی زیارت کے بعد علامّہ کے دل میں مسلم ممالک کی ترقی‘ احیاے اسلامی اور زیارتِ روضۂ اطہر کی تمناوآرزو کا از سرِ نو تازہ ہو نا قدرتی بات تھی۔ یہی اس نظم کا پس منظر ہے… اسی تمنا اور آرزوکے تحت انھوں نے اپنے جذبات و احساسات کو ’’ذوق و شوق‘‘ میں نظم کر دیا۔ یہ نظم ایک تواس ذوق و شوق کی آئینہ دار ہے ‘ جو اقبال کے دل میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے موجود تھا۔ دوسرے اس میں ملت اسلامیہ کے احیا کا ذوق و شوق ہے ‘ جس کے لیے اقبال عمر بھر تڑپتے رہے اور روشن مستقبل کے لیے پر امید بھی رہے۔ ابتدامیں نظم زیادہ طویل تھی‘ نظرثانی میں اقبال نے کم وبیش تین درجن اشعار قلم زد کردیے۔