Actions

دیباچہ

From IQBAL

مفکر اسلام اور شاعرِ انسانیت علامہ اقبالؒ زیادہ تر اپنی شاعری کی بنا پر مشہور و معروف ہوچکے ہیں اس لیے اُن کی نثری تصانیف کو وہ مرتبہ حاصل نہیں ہوا جواُن کی شعری تصانیف کو دیا جاتا ہے۔ایک عظیم 

فلسفی،دور اندیش مفکر اور اعلیٰ مدبر کی حیثیت سے اُنھوں نے اپنے افکار عالیہ کو نثر میں بھی بیان کرکے اپنی فکر ی عظمت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔اس نقطہ نظر سے اُنکی نثری نگارشات کا گہرا مطالعہ بھی ہمارے لیے بہت زیادہ مفید اور فکر انگیز ثابت ہوگا۔اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ اب اُن کے نثرپاروں کو بھی عوام میں مقبول بنایا جائے تاکہ ہم اُن کے اعلیٰ خیالات کی وسعت اور گہرائی سے آگاہ ہوسکیں۔ علامہ اقبالؒ کی نثری تصانیف میںاُن کی کتاب’’ تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کو فلسفیانہ، مذہبی اور سیاسی لحاظ سے بلند ترین مقام کی مستحق قرار دیا جاتا ہے۔اس بات میں ہرگز کوئی کلام نہیں کہ اُن کی یہ بے مثال اور خیال افروز تصنیف اُن کے پختہ خیالات،زندگی کے عمیق مشاہدات ،سیاست کے اعلیٰ تجربات،گہری روحانی واردات اور گوناگوں حقائق و معارف کا ایک انمول خزانہ ہے۔دوسرے لفظوں میں اس کتاب میں اُنھوں نے فکر وفن،سیاست ودین اور تہذیب وثقافت کے مختلف اہم امور کے بارے میں اپنے عملی نظریات کا نچوڑ پیش کردیا ہے۔بلاشبہ اُن کی یہ کتاب اُن کے فکر و نظر کی معراج اور اُنکی عمیق ذہنی کیفیات کا عکس تمام ہے۔ یہ ہمارا عظیم قومی المیہ ہے کہ اس کتاب کی کماحقہ،اشاعت وفروغ کا انتظام نہیں ہوسکا۔اس امر سے تو انکار نہیں کہ فلسفیانہ مسائل، سیاسی حقائق اور دینی غوامض پر مبنی ہونے کے باعث اس کی تفہیم اُن کی شاعری کی طرح آسان نہیں تاہم اقبالیات سے بخوبی آشنا حضرات اور مداحین اقبال ؒ کی سب سے بڑی ذمہ داری تھی کہ وہ اُس کے متنوع مندرجات کو عوام الناس کی سمجھ کے قریب تر لانے کی ہرممکن کوشش کرتے۔ہمارے فضلا اور عقیدت مندان اقبال ؒشاعر مشرق کی شاعری کی دنیا میں ایسے گم ہوگئے ہیں کہ اُنھوں نے دور حاضر میں اسلام کے اس نابغہ شارح کی نثر کی طرف چنداں توجہ نہ دی۔ کیا یہ امر مسلمہ نہیں کہ کسی ممدوح اور محبوب کی ہر بات لائق التفات اور باعث کشش تصور کی جاتی ہے؟ شاعر مشرق،مفکر اسلام حضرت علامہ اقبالؒ سے عقیدت و محبت رکھنے والوں کیلیے اُن کی نثر بھی اتنی ہی اہم ہونی چاہیے جتنی کہ اُن کی شاعری ہے۔اُن کی نظم سے بے پناہ لگائو اور اُنکی نثر سے اس قدر کھچائو کا انداز اب راہ ِاعتدال پر چلنے کامتقاضی ہے۔کیا ہمارے یہ عظیم شاعر اور فلسفی اپنے نور بصیرت کو عام کرنے کے خواہش مند نہیں تھے؟ نظم ہو یا نثر وہ دونوں اظہار کے علاوہ ابلاغ کا بھی تقاضا کرتے ہیں۔خدا کرے کہ ہمارے دانشور اب علامہ اقبالؒ کی اس کتاب کو بھی مقبول عام بنانے کی طرف متوجہ ہوں۔

مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں نے دنیائے اسلام کے اس شہرہ آفاق مفکر اور عظیم المرتبت فلسفی کی مذکورہ بالا مشہورکتاب’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے اہم مندرجات کی ترجمہ نما تشریح کرکے اسے آسان زبان میں پیش کرنے کی حتی الامکان سعی کی تھی۔ میرا مقصد یہ تھا کہ مشکل اصطلا حات سے کافی حد تک دامن چھڑا کر اسے عام فہم بنادوں تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک حضرت علامہ اقبالؒ کے افکارو احساسات کا ابلاغ ممکن ہوجائے۔میں نے اُن کے سات خطبات پر مشتمل اس کتاب کی تلخیص وتشریح کو اپنی کتاب’’ خطبات اقبالؒ پر ایک نظر‘‘ میں بیان کردیا تھا۔میری یہ حقیر علمی کتاب اپریل1974 ء میں لاہور سے شائع ہوگئی تھی۔اس کا دیباچہ مشہورماہراقبالیات،ممتازتعلیم دان اورصدر شعبہ اُردو ،دائرہ معارف اسلامیہ،پنجاب یونیورسٹی، ڈاکٹر سیّد عبداﷲ مرحوم نے تحریر کیا تھا۔اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن اب اقبال اکیڈمی پاکستان شائع کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہے۔اس کتاب کو مزید واضح کرنے کے لیے میں نے اپنی یہ موجودہ کتاب’’موضوعات خطبات اقبالؒ ‘‘ تیار کی ہے جس میں علامہ اقبالؒ کے مختلف موضوعات سے متعلق افکار کو ترتیب وار درج کردیا ہے تاکہ پڑھنے والوں کو اُن کے فکری ارتقا کا پتہ چل سکے۔اُن تمام موضوعات کو حروف تہجی کے لحاظ سے قلم بند کردیا گیا ہے۔ان موضوعات کی وضاحت کے دوران،میں نے کہیں کہیں علامہ اقبالؒ کے وہ اشعار بھی بطور حوالہ درج کردئیے ہیں جن کا متعلقہ موضوع کے کسی نہ کسی پہلو سے گہرا ربط ہے۔ اس لحاظ سے اُن کی شاعری اور اُن کی نثر کے درمیان اس فکری یگانگت اور اتحاد خیال پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ یہ موجودہ کتاب بھی اقبالیات کی تسہیل اور تفہیم کے سلسلے کی اہم کڑی ہے۔خد ا تعالیٰ کرے میری یہ موجودہ سعی بار آور ہو اور اس سے زیادہ سے زیادہ آسان ابلاغ کی راہ ہموار ہوجائے۔ اب قارئین کرام اس کا بخوبی فیصلہ کرسکیں گے کہ میں کس حد تک اس کوشش میں کامیاب ہوا ہوں۔میںنے تو اپنی متاعِ فکر کو اُن کے سامنے پیش کردیا ہے۔ اب اس کی کمی اور بیشی کاحساب وہ جانیں:۔