Actions

جنگِ عظیم کے نتائج و اثرات پر تبصرہ

From IQBAL

چھٹے بند میں جنگِ عظیم ( اول ) کے واقعات کے آئینے میں اس کے نتائج اور خصوصاً عالم اسلام پر اس کے اثرات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر آچکا ہے‘ پہلے پہل یونانیوں نے برطانیہ کی مدد سے ترکوں سے ان کے بہت سے علاقے چھین لیے مگر ۱۹۲۲ء میں پانسا پلٹا‘پہلے تو سقاریا کی جنگ میں یونانی ‘ ترکوں کے ہاتھوں پٹ گئے ۔ سمرنا کی فتح سے ان کے حوصلے بہت بڑ ھ گئے۔ یہاں ترکوں اور یونانیوں کے درمیان برپا ہونے والے انھی معرکوں کی طرف اشارہ ہے۔ ’’ ہوئے مدفونِ دریا زیردریا تیرنے والے‘‘ کا اشارہ ان یونانیوں کی طرف ہے جنھوں نے آب دوزوں کے ذریعے جنگ میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر ریاض الحسن کا خیال ہے کہ اس مصرعے میں اقبال کا اشارہ لارڈ کچنر کی طرف ہے ۔ کچنر ‘ جنگِ عظیم اول میں برطانیہ کا وزیر جنگ تھا۔ مذاکرات کے لیے‘ ایک آب دوز کے ذریعے ‘ روس جارہا تھا کہ جرمنوں نے حملہ کر کے اس کی آب دوز غرق کر دی۔ ( قومی زبان کراچی: نومبر ۱۹۸۰ئ) کیمیا پر ناز کرنے والے یونانی جدید ترین اسلحے اور جنگی سازو سامان سے لیس تھے۔ ترکوں کے پاس اسلحہ کم اور ناقص تھا‘ مگر ان کے عزم و ہمت ‘ جرأت و شجاعت اور ولولۂ تازہ نے انھیں مفتوح سے فاتح بنا دیا۔ اقبال نے ’’ خضر راہ‘‘ میں شریف مکہ کی غداری کا ذکر کیا تھا: بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفی یہاں دوبارہ اس کا تذکرہ ہوا ہے کہ ’’ پیرحرم‘‘ ( شریف مکہ) کی غداری کے سبب حرم رسوا ہوا۔ اس بند کے آخری شعر میں اقبال نے ایک بار پھر ایمان و ایقان کو تعمیر ملت کے لیے ناگزیر قرار دیا ہے کہ ملت کی تقدیر اسی سے وابستہ ہے اور یہی اس کی اصل قو ّت ہے۔