Actions

جسم وجان( روح وبدن)

From IQBAL

(۱)’’ جوہر صفت حیات حاصل کرنے کے بعد مکانی نظر آتا ہے۔ اس کی ماہیت روحانی ہے۔نفس خالصتاً ایک عمل ہے لیکن جسم ایک دیدنی اور پیمائش پذیر عمل ہے‘‘ (تیسرا خطبہ)

علامہ اقبالؒ اشیائے کائنات اور خارجی مظاہر کی اصل کو روحانی سمجھتے ہیں اس لیے وہ کسی بھی اس نظریے کو قبول نہیں کرتے جو مادی تصور کائنات سے تعلق رکھتا ہو۔ بیشتر یونانی فلاسفہ خصوصاً ارسطو اور اس سے قبل دیمقر اطیس(Democritus) نے کائنات کو جامد اور مادی قرار دیا تھا۔ مسلم حکما خاص طور پر اشاعرہ نے اس یونانی تصور کائنات کو قرآنی تعلیمات کی ضد قرار دیتے ہوئے حرکی اور ارتقا پذیر تصور دیا۔ اشاعرہ کا نظریہ جواہر کائنات کی تغیر پذیری کے ساتھ ساتھ روح کو لطیف شکل بھی قرار دیتا تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اشاعرہ کے تصور روح کو ہدف تنقید بناتے ہوئے جوہر کی ماہیت کو روحانیت پر مبنی کہا ہے۔مندرجہ بالا اقتباس میں اس مرکزی خیال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔اس کی وضاحت درج ذیل ہے:۔

(الف) اشاعرہ کے نظریہ تخلیق کائنات کے ایک پہلو کا تو اس بات سے گہرا تعلق ہے کہ یہ کائنات لاتعداد چھوٹے چھوٹے غیر منقسم ذرّات کا مجموعہ ہے اور چونکہ خدا ہر لمحہ تخلیقی سرگرمی کا اظہار کرتا رہتا ہے اس لیے نئے نئے جواہر معرض وجود میں آکر اس کی تغیر پذیری اور ارتقا کا باعث بنتے ہیں۔ اُن کے اس نظریہ کے دوسرے پہلو میں روح کو مادے کی لطیف تر صورت کہا گیا ہے۔ وہ یہ رائے بھی رکھتے تھے کہ جوہر خدا کی خلاقی صفت کی بدولت موجود ہوکر مکانی نظر آتا ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ مکانیت کو جواہر کے مجموعہ پر منحصر خیال کرتے تھے۔ (ب) اشاعرہ کی رائے میں جواہر کا مسلسل وجود اصل میں حادثات وواقعات کی پیہم تخلیق پر دارومدار رکھتا ہے۔علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے’’ تصور روح‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ "It is my belief that the Ash'arite view that the 'Nafs' is accident is opposed to the real trend of their own theory which makes the continuous existence of the atom dependent on the continuous creation of accidents in it" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p70) علامہ اقبالؒ کی رائے میںاشاعرہ کا تصور روح ان کے بنیادی نظریہ تخلیق کائنات کی خود تردید کررہا ہے۔علاوہ ازیں وہ ایک اور دلیل کے ذریعے اس کا ردّ کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ اشاعرہ حرکت کائنات کے زبردست قائل ہیں۔حرکت وقت کے بغیر اور وقت نفسی زندگی کے بغیر ممکن نہیں اس لیے نفسی زندگی حرکت سے زیادہ بنیادی ہے۔نفسی زندگی عالم محسوسات اور مادّے کی حدود میں نہیں آتی کیونکہ حقیقت کاملہ صورت،مادّہ، زمان ومکان کی پابند نہیں۔اس استدلال کا سہارا لیتے ہوئے وہ جوہر کے بارے میں کہتے ہیں:۔ "Regarded as a phase of Divine energy,it is essentially spiritual" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.71) )ج) علامہ اقبالؒ اشاعرہ کے نظریہ روح کی تردید کے لیے ایک اور دلیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اشاعرہ نے مکانی لمحہ کا نظریہ پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ مکان کو وقت پر ترجیح دیتے تھے۔ وہ اس حقیقت کو نہ سمجھ سکے کہ لمحہ(وقت) مکان سے مقدم اور ارفع ہوتا ہے اور اسے زمان سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔حضرت علامہ اقبالؒ(مکان‘جگہ) کو مادی شے خیال نہیں کرتے بلکہ وہ اسے صرف اندازِ فکر قرار دیتے ہیں۔اس لحاظ سے مکان(space) مادی نہیں بلکہ یہ ایک عمل بن جاتا ہے۔ظاہر ہے کہ عمل مادیت پر مبنی نہیں بلکہ مادہ اس کی خارجی صورت ہے۔ مولانارومؒ نے بھی قلب کو قالب اور روح کو جسم پر ترجیح دیتے ہوئے کائنات کی روحانی اصل کی طرف لوٹ جانے کی طرف ہماری توجہ دلائی تھی۔علامہ اقبالؒ زمان کو مکان پر‘شعور کو مادے پر اور روح(نفس) کو جسم پر ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ "The point is not a thing, it is only a sort of looking at the instant.Rumi is far more true to the spirit of Islam than Ghazali when he says: پیکر ازما ہست شد نے ما ازو بادہ از ماست شدنے ما ازو "Reality is,therefore,essentially spirit,but,of course,there are degrees of spirit." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam.p.71) (د) علامہ اقبالؒ نفس انسانی(روح) کو باطنی اور نادیدنی کہتے ہیں لیکن وہ جسم کو نظر آنے والا خارجی اور قابل پیمائش عمل قرار دیتے ہیں۔روح کے لیے موجودہ سطح زندگی پر جسم کا ساتھ لازمی اور مفید ہے مگر موت کے بعد ان دونوں میں جدائی ہوجاتی ہے۔ جسم فنا ہوجاتا ہے اور روح حیات بعد الممات کے سفر کے لیے کوئی اور سواری اختیار کرلیتی ہے۔جسم وجان کے بارے میں علامہ اقبال ؒفرماتے ہیں:۔ تن وجاں را دو تاگفتن کلام است تن وجاں را دو تادیدن حرام رات

بہ جاں پوشیدہ رمزِ کائنات است         بدن حالے زا حوال حیات است

(کلیات اقبال، ص ۵۴۷) (ر) ’’متوازیت اور تعامل دونوں غیر تسلی بخش تصورات ہیں کیونکہ کوئی کام کرتے وقت جسم اور ذہن ایک ہوجاتے ہیں مثلاً جب میں میز سے کتاب اُٹھاتا ہوں تو میرا یہ فعل واحد اور ناقابل تقسیم ہوگا۔اس کام کے سلسلے میں جسم اور ذہن کے الگ الگ اعمال کو متعین کرنے کے لیے کوئی خط فاصل کھینچنا قطعی ناممکن ہوگا۔کسی نہ کسی طرح وہ دونوں ایک ہی نظام سے تعلق رکھتے ہیں اور قرآن کی رُو سے ان دونوں یعنی امردخلق کا سرچشمہ خدا ہے‘‘ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے جسم وروح کی بحث کے دوران یہاں ایک اہم مسئلے پر اظہار خیال کیا ہے۔جسم وروح کے باہمی ربط اور اُن کی جدائی کے بارے میں مختلف مکاتب فکر پائے جاتے ہیں۔ایک مکتب فکر روح کو جسم کی ترقی یافتہ شکل تصور کرتا ہے جبکہ اس نقطہ نظر کے مخالفین روح کو جسم پر فوقیت دیتے ہوئے جسم کو روح کا خادم قرار دیتے ہیں۔ فلاسفہ اور مفکرین کا تیسرا گروہ کہتا ہے کہ جسم اور روح ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔چوتھا مدرسہ خیال اس بات کا حامی ہے کہ جسم وروح دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔مندرجہ بالا اقتباس میں علامہ اقبالؒ نے جن جن اہم باتوں کا تذکرہ کیا ہے،اُن کی توضیح حسب ذیل ہے:۔ (ا) متوازیت اور تعامل دونوں کو علامہ اقبال نے غیر تسلی بخش نظریات کہا ہے۔متوازیت کے نظریے کی رو سے جسم اور روح پراسرار طور پر متحد ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے آزاد ہیں۔ یہ نظریہ مشہور فلسفی ڈیکارٹ نے پیش کیا تھا۔مفکر اسلام علامہ اقبالؒ اسے عیسائیت سے متاثر مانی کی ثنویت سمجھتے ہوئے ردّ کردیتے ہیں۔اسی طرح وہ تعامل(باہمی اثر اندازی) کے نظریے کو بھی مستحسن خیال نہیں کرتے کیونکہ اس طرح یہ پتہ لگانا مشکل ہوجا تا ہے کہ پہلے کون اثر انداز ہو ااور اس اثر کی نوعیت کیا ہے۔اسی ضمن میں وہ لانگے کے تصور جذبہ کو درست قرار نہیں دیتے جس کی رُو سے اثر اندازی کا آعاز جسم سے ہوتا ہے۔ (ب)علامہ اقبالؒ متوازیت اور تعامل دونوں کوثنویت (جسم اور روح کی تفریق) کا آئینہ دار خیال کرتے ہوئے ردّ کردیتے ہیں۔قرآن حکیم توحید اور وحدت فکر وعمل اور وحدت جسم وروح کی تعلیم دیتا ہے۔اس لحاظ سے متوازیت اور تعامل دونوں غلط ہیں۔اُن کے نزدیک کوئی کام کرتے وقت جسم اور دماغ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔جسم وروح کی یہ ہم آہنگی اُنکی ناقابل تقسیم وحدت کار پر دلالت کرتی ہے۔وہ ایک قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے ان دونوں کو ’’عالم امر‘‘ اور’’عالم خلق‘‘ سے وابستہ تصور کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فرماتے ہیں : "According to the Quran they do belong to the same system. "To Him belong' Khalq (creation) and 'amr'(direction)."Thus my real personality is not a thing, it is an act. My whole reality lies in my directive attitude. You cannot perceive me like a thing in space" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam p.103) شاعر مشرق ’’خلق ‘‘و’’امر‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان دونون طریقوں سے خدا اپنی تخلیقی فعالیت کو ہم پر منکشف کرتا رہتا ہے۔ وہ خداتعالیٰ کو انائے مطلق اور تمام نفوس وارواح کا منبع ومصدر تصور کرتے ہیں۔اس لحاظ سے تخلیق کا پہلا مرحلہ’’امر‘‘ ہے جہاں اشیا کی صورتوں کی تدبیر کی جاتی ہے اور اُن کے لیے خاص قوانین اور پیمانے (تقدیرات) وضع کئے جاتے ہیں۔عالم ’’امر‘‘ میں مادہ اور صورت کا جوود نہیں ہوتا۔خدا کی تخلیقی صلاحیت کا دوسرا مرحلہ عالم’’خلق‘‘ ہے جہاں غیرمادی اور نادیدنی قوانین اور تقدیرات اشیاء کی صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔اس طرح عالم’’امر‘‘ عالم معانی بن جاتا ہے اور عالم ’’خلق‘‘ صورتوں کا مظہر ہوجاتا ہے۔ان دونوں کا خالق ایک ہی ہے۔امر اور خلق کے بعد تیسرا مرحلہ’’ہدایت‘‘ کا ہے۔ بے جان اشیا اور حیوانات میں جبلت اس کی آئینہ دار ہوتی ہے اور انسان میں عقل ‘شعوراور وجدان اور وحی اس ہدایت کے مراتب ومراحل ہیں۔علامہ اقبالؒ نے اپنے ایک شعر میں ان اہم کڑیوں کو ان الفاظ کا جامہ پہنایا ہے ‘وہ فرماتے ہیں:

ترا  تن  روح  سے ناآشنا ہے      عجب کیا آہ  تیری   نارسا  ہے
تن بے روح سے بیزار ہے حق       خدائے زندہ، زندوں کا خدا ہے

( کلیات اقبال،ص ۲۸۲) (۳)’’جسم کوئی ایسی چیز نہیں جو خلائے مطلق میں واقع ہے بلکہ یہ حادثات اور اعمال کا نظام ہے جو جسم وجان کے امتیاز کو تو ختم نہیں کرتا بلکہ یہ اُنھیں ایک دوسرے کے قریب تر کردیتا ہے… بدن چونکہ روح کے اعمال وعادات کا مجموعہ ہے اس لیے اُسے روح سے جدا نہیں کیا جاسکتا‘‘ (چوتھا خطبہ) اس اقتباس سے معلوم ہوتاہے کہ علامہ اقبال ؒ جسم وروح کے مسئلے میں کتنی گہری دلچسپی لیتے تھے۔وہ کائنات،زندگی اور روح سے متعلق مادہ پرستانہ تصور کے شدید مخالف تھے۔اُنھوں نے اپنی اس عظیم فلسفیانہ کتاب’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ میں اکثر مقامات پر ا س مشکل مگر اہم موضوع پر مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے غور وفکر کیا ہے۔اس عبارت میں بھی اُنھوں نے اسی موضوع پر اظہار خیال کیا ہے جس کے اہم نکات مختصراً یہ ہیں: (ا) جسم کوئی ایسی چیز نہیں جو خلائے مطلق میں واقع ہے۔ متعدد فلسفیوں،سائنس دانوں اور اہل دانش نے کائنات کی مادی انداز میں توضیح کی ہے۔اس کے برعکس دوسرے اصحاب فکر ونظر نے اس کی روحانی تعبیروتشریح پر خاص زور دیا ہے۔ علامہ اقبالؒ روحانی تصور کائنات کے عظیم علم بردار ہونے کی حیثیت سے جسم کو بھی اسی انداز سے دیکھتے ہیں اور بیان کرتے ہیں۔ نیوٹن نے کائنات اور اس کی اشیا کی مادی تعبیر کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’’مادہ ہی سب کچھ ہے‘‘ علامہ اقبالؒ اس کے تصور کو یوں بیان کرتے ہیں:۔ "The scientific view of nature as pure materiality is associated with the Newtonian view of space as an absolute void in which things are situated." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.34)

روحانیت پر پختہ یقین رکھنے کے باعث علامہ اقبالؒ اس مادی تصور کو کسی طرح بھی پسند نہیں کرتے۔یہی وجہ ہے کہ وہ جسم کے مادی تصور کے بھی خلاف ہیں۔

(ب)علامہ اقبال جسم کو حادثات اور اعمال کا نظام قرار دیتے ہیں۔وہ کائنات کے حرکی اور ارتقائی نظریے اور اس کی روحانی اصل کے بہت بڑے حامی تھے۔وہ پروفیسر وہائٹ ہیڈ کے تصورِکائنات کے روحانی‘حرکی اور تخلیقی پہلو کی تعریف میں یہ کہتے ہیں: "--Professor Whitehead describes the universe, not as something static, but as a structure of events posessing the character of a continuous creative flow" (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.45) اشاعرہ کے نظریہ تخلیق کائنات کی بحث کے ضمن میں اُنھوں نے جوہر کی اصل مکانیت کو نہیں بلکہ خدا کے تخلیقی عمل کو قرار دیا تھا جو مادہ وصورت سے بالکل پاک ہوتا ہے۔جسم ظاہر میں مادی شے دکھائی دیتا ہے لیکن اس کی اصل بھی خدا کا تخلیقی عمل ہے۔ (ج) خدا تعالیٰ ہر وقت جلوہ گری اور تخلیقی عمل میںمصروف رہتا ہے۔ تخلیقی عمل مشین کے برعکس تکرار اور یکسانیت سے مبرا ہوتا ہے۔تخلیق نئی اشیا اور واقعات کی صورت گری کا دوسرا نام ہے۔اس لحاظ سے خدا کے تخلیقی عمل کو میکانکی اور مادی طریق پر نہیں سمجھا جاسکتا جیسا کہ علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: " Creation is opposed to repetition which is a characteristic of mechanical action. That is why it is imposible to explain the creative activity of life in terms of mechanism". )د) بدن روح کے اعمال وعادات کا مجموعہ ہوتا ہے اس لیے اسے روح سے جدا نہیںکیا جاسکتا۔ارتقائے حیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع شروع میں شعور طبعی حالات سے مغلوب ہوتاہے لیکن بعد ازاں تدریجی ترقی کے سبب وہ طبعی حالات پر غالب آجاتا ہے۔روح اور جسم کے باہمی ربط کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت ملاخطہ ہو:’’ نخن اقربُ الیہ من حبل الورید‘‘ (ق ۵۰:۱۶) (ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں)۔ خدا اگر ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو اس نزدیکی اور ربط کی نوعیت کیا ہے؟اس ضمن میں علامہ اقبالؒکا قول دیکھئے: "But we must not forget that the words proximity,contrast and mutual sepration,which apply to natural bodies do not apply to God. Divine life is in touch with the whole universe on the anal- -ogy of the soul's contact with the body, The soul is neither inside nor outside the body; neither proximate nor separate from it". (Thoughts And Reflections of Iqbal,p.154) علامہ اقبالؒ کے مرشد روحانی مولانا رومؒ جسم اور روح کے اس تعلق پر یوں گوہر فشانی کرتے ہیں:

اتصال بے تخیل بے قیاس      ہست ربّ الناس را باجانِ ناس

(۴)’’خودی کی نمایاں صفت اختیار ہے۔اس کے برعکس جسمانی اعمال اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں‘‘ (چوتھا خطبہ) علامہ اقبالؒ جسم اور روح کی بحث کے دوران خودی کا بھی ضمناً تذکرہ کردیتے ہیں۔و ہ خدا کی ذات بے ہمتاکو ارواح اور نفوس کا حصہ وسرچشمہ خیال کرتے ہوئے نفس انسانی( روح انسانی) کو بھی’’انائے مطلق‘‘ یا ’’انائے کامل(خدا)کی تخلیقی سرگرمی کا سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔خدا کی اس تخلیقی فعالیت کے دو اہم مراحل’’امر‘‘اور’’خلق‘‘ہیں۔عالم امر کا تعلق محسوسات سے نہیں ہوتا لیکن عالم خلق میںمحسوسات اور مظاہر سے واسطہ پڑتا ہے۔علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالا الفاظ میں جن باتوں کو اجمالاًبیان کیا گیا ہے اُن کی تفصیل یہ ہے:۔

(الف)خودی(انسانی نفس)کی امتیازی خصوصیت ارادہ واختیارہے۔علامہ اقبا ل ؒ روحانی تجربات اور باطنی کیفیات کے نظام کو روح یا خودی کہتے ہیں اور وہ اس نظام کو نظام اعمال کہتے ہیں۔روح اور خودی کو اپنے افعال و اعمال کے اظہار کے لیے کسی خارجی اور محسوس پیکر کی اشد ضرورت ہوتی ہے اس لیے جسم،روح وخودی کے اعمال کا مظہر ہوتا ہے۔چونکہ انسانی خودی انائے مطلق سے خارج ہوئی ہے بنا بریں اسے بھی اپنے باطن کے اظہار کے لیے جسم اور بدن کی حاجت  ہوتی ہے۔عالم امر میں روح،جسم ، مادے اور صورت کے بغیر ہوتی ہے مگر عالم خلق میں آکر اسے ان سے رابطہ قائم کرنا پڑتا ہے۔علامہ ؒمرحوم خودی کی ذاتی آزادی کے بارے میں کہتے ہیں:

"The element of guidance and directive control in the ego's activety clearly shows that the ego is a free personal causality" )ب)حضرت علامہ اقبالؒ کے خیال میں جسمانی اعمال تکرار کے مظہر ہوتے ہیں جبکہ خودی تخلیق کی عادی ہوتی ہے۔خودی چونکہ گوناگوں مقاصد کی تخلیق سے بھی عبارت ہے اس لیے وہ اپنی تخلیقی صلاحیت کا اظہار کرتی رہتی ہے۔ یہ جدت آفرینی اور تازہ کاری تکرار نہیں بلکہ یہ ارتقائی عمل ہے۔روح اپنے اعمال کے اظہار کے لیے جسم کو بمنزلہ آلہ استعمال کرتی ہے۔علامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل اشعار اس موضوع کے مختلف گوشوں کی نقاب کشائی کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:

بجا نِ من کہ جاں نقشِ تن انگیخت       ہوائے جلوہ ایں گل را دو رُو کرد
ہزاراں شیوہ دارد جان بے تاب       بدن گرد دچو  بایک شیوہ خو کرد

(کلیات اقبال،ص ۲۴۵) خودی شیر مولا‘جہاں اس کاصید زمیں اس کی صید‘آسماں اس کاصید (کلیات اقبال،ص۴۲۰)

پسند روح وبدن کی ہے وانمود اس کی     کہ ہے نہایت مومن خودی کی عریانی

(ایضاً)

وہ اپنی ایک اور نظم ’’جان وتن‘‘ میں روح اور بدن کی اصلیت اور ربط پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

عقل مدت سے ہے اس پیچاک میں اُلجھی ہوئی روح کس جوہر کی؟خاک تیرہ کس جوہر سے ہے

ارتباط  حرف  و  معنی ؟  اختلاط  جان  و  تن    جس طرح  اخگر  قبا پوش  اپنی  خاکستر سے ہے    

(ایضاً ص ۵۱۷) جو لوگ خودی پر بیرونی اثرات اور اُصول علت ومعلول کے قائل ہیں وہ خودی کی آزادی اور اصلیت سے آگاہ نہیں۔ وہ غلط فہمی کی بنا پر روح کو جسم کی مانند خیال کرکے اُسے بھی پابند زمان ومکاں بنادیتے ہیں۔علامہ اقبالؒ اُن کے اس نظریے کو جبریت اور میکانیت پر مبنی سمجھ کر ہدف تنقید بناتے ہیں: (۵) ’’اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مادہ کیا ہے۔مادہ دراصل پست درجہ رکھنے والی خودیوں کی ایک ایسی بستی ہے جن میں سے بلند مرتبہ خودی اُس وقت منصّہ شہود پر آتی ہے جبکہ اُن کا اتصال اور باہمی ردّ عمل یگانگت کے خاص مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں ہدایت نفس اپنے نقطہ عروج پر پہنچ جاتی ہے۔یہی وہ دنیا ہے جس میں حقیقت مطلقہ اپنا راز فاش کرتی ہے اور ہمیں اپنی ماہیت یا کنہ کا پتہ دیتی ہے‘‘ (چوتھا خطبہ)

    علامہ اقبال ؒنے اس اقتباس میں خودی اور جسم یا روح و بدن کی بحث پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کئی ا ہم اُمور کی طرف اشارے کئے ہیں۔اُنھوں نے اس میں مندرجہ ذیل باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے:

(ا) علامہ اقبالؒ نے بدن کو پست مرتبہ رکھنے والی خودیوں کی بستی کہا ہے جن کے اتصال اور باہمی رد عمل سے بلند تر خودی کی نمود ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ خودی اس زمانی اور مکانی نظام میں سے کیسے نمودار ہوتی ہے؟اس سوال کا جواب علامہ اقبالؒ نے ان قرآنی آیات(۱۴۔۱۲/۲۸) کا حوالہ دیا ہے جن میں شکم مادر میں انسانی پیدائش کے ارتقائی مدارج کا ذکر ہے۔ان آیات کے آخر میں خدا تعالیٰ کو ’’اُحسن الخا لقین‘‘کہا گیا ہے۔ان آیات کی روشنی میں علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: "Physical organism--that colony of sub egos through which a profounder Ego constantly acts on me,and thus permits me to build up a systematic unity of experience: (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.104)

علامہ اقبالؒ ڈیکارٹ کی طرح جسم اور روح کو الگ الگ نہیں سمجھتے بلکہ وہ جسم کو روح کے عملی اغراض کے لیے مفید اور لازمی آلہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان دونوں میں وحدت اور یگانگت پائی جاتی ہے جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں:

"mind and body become one in action----It is the mind's consent which eventually decides the fate of an emotion or a stimnlus" مولانا رومؒ کے مندرجہ ذیل اشعار اس موضوع کی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں: آمدہ اوّل بہ اقلیم جماد وز جمادی در نباتی او فتاد

وز نبا تی  چوں بہ حیواں او  فتاد      نا مدش  حالِ   نباتی   ہیچ   یاد

ہمچنین اقلیم تا ا قلیم رقت تاشداکنوں عاقل ودانا وزفت

جمادات سے نباتات،نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسانیت کی طرف ارتقا کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہی قانو ن ارتقا ہے۔تمام کائنات میں درجات اور مراتب کا سلسلہ ہے۔ بہت سی اشیا میں ارتقا اور عروج کی طرف میلان پایا جاتا ہے ۔آخر کار یہی سلسلہ خدا تعالیٰ تک جاپہنچتا ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ واِلی رّبک المنتھیٰ‘‘(النجم ۵۳:۴۲) (اور تیرے پروردگار کی طرف ہر شے کی انتہاہے)۔ جسم(قالب) روح (قلب)  کے لیے اس مادی دنیا میں ایک آلہ ہے۔غیر مادی عالم میں اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ مادی دنیا عالم صور ہے اور غیر فانی دنیا عالم معانی ہے۔ تمام موجودات کا ارتقا کثافت سے لطافت کی طرف ہوتا ہے۔

(ب) جب ہدایت نفس اپنے عروج پر پہنچتی ہے تو حقیقت مطلقہ اپنا راز فاش کرتی ہے۔قرآن حکیم نے نفس انسانی کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔نفس اماّرہ،نفس لوّامہ اور نفس مطمئنہ۔ یہ خودی کے تین مراحل ومدارج ہیں۔نفس مطمئنہ خودی کا آخری مرحلہ ہے جس کے بارے میں قرآن حکیم کا ارشاد ہے:’’ اے نفس مطمئنہ!تو اپنے رب کی طرف خوشی خوشی آجا‘‘۔ خدا کی خلاقی صفت کے تین مراحل یہ ہیں:امر‘خلق اور ہدایت: تخلیق سے پہلے اشیا عالم امر میں موجود ہوتی ہیں اور خدا نے ان کی ہدایت کا بھی انتظام کیا ہے۔روح سے متعلق دو قرآنی آیات قابل غور ہیں۔’’لیسئلونک عن الرّوح قل الرّوح من امر رّبی‘‘(بنی اسرایل۱۷:۸۵) (اے نبی ؐ آپ سے روح کے بارے میں لوگ پوچھتے ہیں‘آپ ان سے کہہ دیں کہ روح میرے ربّ کے ’’امر‘‘ سے ہے)۔’’ ونفخ فیہ منِ روحہ‘‘ (السجدہ ۳۲:۹)(اس میں خدا نے اپنی روح پھونکی)۔ بعض مفسرین اس روحِ خدا وندی کو ایزدی توانائی کا نام دیتے ہیں۔ جوں جوں روح میں خدا کی صفات کا پرتو نظر آتا ہے اس میں انکشاف حقیقت کی قوت بھی بڑھ جاتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں وہ اسرار خداوندی کا عرفان حاصل کرتی ہے۔علامہ اقبالؒ بجا فرماتے ہیں: برمقام خود رسیدن زندگی است ذات را بے پردہ دیدن زندگی است

مردِ مومن در  نسازد  باصفات       مصطفی   راضی    نشد   اِلاّ  بذات

( کلیات اقبال‘ص۶۰۷) (۶)’’اسلام میں روحانی اور مادی دنیا الگ الگ نہیں… اسلام ایک ایسی واحد حقیقت ہے جس کا تجزیہ نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (چھٹاخطبہ)

علامہ اقبالؒ نے بار بار اس امر کی وکالت کی ہے کہ اسلام روح اور مادے کی ثنویت اور دین وسیاست کی جدائی کا قائل نہیں ہے۔ ہماری نیت اور نقطہ نگاہ کے مطابق کوئی چیز سیکولر یا مذہبی صورت اختیار کرتی ہے۔مفکر اسلام اس اہم نکتے کی یوں وضاحت کرتے ہیں:

"It is the invisible mental background of the act which ultimately determines its character. An act is temporal or profane if it is done in a spirit of detachment from the infinite complexity of life behind it; it is spiritual if it is inspired by that complexity." (The Reconstrustion of Religious Thought in Islam-p.154)

علامہ اقبالؒ زندگی کو ناقابل تجزیہ واحد حقیقت مانتے ہوئے مادہ اور روح اور دین وسیاست کے جداگانہ وجود کے زبردست خلاف ہیں۔ اُن کی رائے میں عیسائیت شریعت اور سیاسی نظام سے عاری تھی اس لیے اس کے پیروکاروں نے مذہب اور سیاست اور دنیا اور دین میں تمیز پیدا کردی تھی۔ اسلام تو مکمل ضابط حیات ہے اس لیے یہ اس قسم کی تفریق کی اجازت نہیں دیتا۔
     علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں اسے یوں بیان کیا گیا ہے:

"In Islam it is same reality which appears as church looked at from one point of view and the State another.It is not true to say that Church and State are two sides or fcets of the same thing" (The Reconstrustion of Religious thought in Islam-p.154)

ترکی کی دو سیاسی جماعتوںقوم پرست پارٹی اور جماعت اصلاح مذہب کے نقطہ ہائے نگاہ کی بحث کے دوران مفکر اسلام نے اسلام کی ناقابل تجزیہ وحدت پر اظہار خیال کیا ہے۔ ترکی کی قوم پرست جماعت مذہب وسیاست کی جدائی پر یقین رکھتے ہوئے سیاست اور ریاست کو مذہب پر ترجیح دینے کے حق میں تھی جبکہ مذہبی اصلاح کی جماعت مذہب وسیاست کی یک رنگی اور مذہب کی سیاست پر بالاتری کی علم بردار تھی۔علامہ موصوف مذہبی اصلاح کی پارٹی کے موقف کو درست قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ریاست اسلامی اُصول حکمرانی کے نفاذ وترویج کا عملی اور موثر ذریعہ ہے اس لیے دین کو سیاست پر فوقیت دینی چاہیے‘‘۔اس لحاظ سے وہ  اسلامی عقیدہ توحید کے تین اہم معاشرتی اُصولوںمساوات‘استحکام اور حریت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"The essence of"Tauhid" as a working idea is equality, solid- -arity, and freedom.The state, from the Islamic stand point, is an endeavour to transform these ideal principles into space-time forces" (The Reconstrustion of Religious Thought in Islam-p154) علامہ اقبالؒ کائنات کی حقیقت کو روحانی اور اس کے زمانی‘ مکانی اور خارجی مظاہر کو مادہ کہتے ہیں۔ ہمارا فکر ان خارجی اور مادی مظاہر کے عمیق مطالعہ و مشاہدہ کے ذریعے ترقی کرتا ہوا انکشاف کے لیے کوشاں ہوتا ہے۔ جب خدا ظاہر کے علاوہ باطن کا بھی مظہر ہے تو پھر باطنی حقائق‘ قلبی واردات اور روحانی کیفیات کی اہمیت سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے۔ جب حقیقت مطلقہ اپنے آپ کوخارجی طور پر منکشف کرتی ہے تو ہمیں عالم خلق میں اشیامادہ اور کثرت پر مشتمل دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارا ذہن اُنھیں زمان ومکان میں تقسیم کرکے مادی تصور کرنے لگتا ہے حالانکہ عالم امر یا عالم معنی میں نہ مادہ ہے اور نہ صورتیں اور نہ ہی کثرت۔شاعر مشرق علامہ اقبالؒ اشیائے کائنات کی روحانی اساس اور کثرت کو ان فکر انگیز اشعار میں پیش کررہے ہیں: یکی را آں چنان صد پارہ دیدیم عد د بہر شمارش آ فریدیم

کہن دیرے کہ بینی مشت خاک است        دمے از سرگذشت ذات پاک است      

(کلیات اقبال‘ص ۵۴۸)

 علامہ اقبا لؒ تخلیق کائنات کو خدا کے جذبہ عشق کا کرشمہ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہی جذبہ عشق روحانیت کا مظہر ہے:
    بہ برگ لالہ رنگ آمیزئی عشق         بجان    ما   بلا انگیزی  عشق
   اگر ایں  خاکداں را  وا شگافی        در ونش بنگری خوںریزی عشق   

(کلیات اقبال‘ص ۱۹۶)