Actions

توحید

From IQBAL

(۱)’’ عقید توحید کا نچوڑ مساوات‘ حرّیت اور استحکام میں ہے۔اسلام کے زاویہ نگاہ سے سیاست ان مثالی اُصولوں کو زمان ومکان کی قوتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کا دوسرا نام ہے‘‘۔ (چھٹاخطبہ) اسلام ایک عالمگیر اور انسانیت سا زانقلابی دین ہے جو زندگی کے تمام اہم شعبہ جات مثلاًمعاشرت،سیاست،تہذیب،ثقافت،اقتصادیات اور اخلاقیات میں رہنما اُصول مہیا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے اسے زندگی کا مکمل ضابطہ کہا جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات کی بنیاد عقیدہ توحید ہے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:’’خلقکم منِ نفس واحدہ‘‘ (النساء ۴:۱)(خدا نے تمھیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے)۔ تمام انبیائے کرام ؑ خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی محکومیت اختیار کرنے کی تعلیم دیا کرتے تھے۔وہ اپنی قوم کو خدائے واحد کی غلامی کا درس دیتے ہوئے یہ کہتے تھے’’ یٰقوم اعبد واﷲ‘‘ (ھود ۱۱:۸۴)(اے قوم! تم سب اﷲ کی غلامی اختیار کرو)۔یہ قرآنی آیت بھی خدا کی وحدانیت پر زور دیتی ہے’’ الٰھکم اِلہ واحدِ‘‘ (الحج ۲۲:۳۴) ( تمہارا اِلہ خدائے واحد ہے)۔اس زاویہ نگاہ سے آسمانی کتب اور انبیائے کرام کی تعلیمات کا خلاصہ عقیدہ توحید ہی تھا۔ہمارے ہادی اعظم حضرت محمد ﷺ بھی لوگوں کو ایک خدا کے عقیدے کی طرف متوجہ کرتے رہے۔ جب خدائے واحد ہی تمام انسانوں کا خالق‘مالک اوررزّاق ہے تو پھر کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنا غلام بنائے۔ بقول علامہ اقبالؒ  :۔ سروری زیبا فقط اُس ذات بے ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری علامہ اقبالؒ کو خدا تعالیٰ نے دین اسلام کا صحیح فہم عطا کیا تھا اس لیے اُن کے نظریات وافکار میں ہمیں جابجا اسلامی تعلیمات کا عکس نظر آتا ہے۔وہ دوسرے انسانوں کو بھی اسلام کی انقلابی‘ تعمیری اور آفاقی قدروں سے روشناس کرانے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے۔اُن کا یہ کہنا بجا ہے کہ:’’عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات‘حریت اور استحکام میں ہے‘‘ خدا کی مخلوق ہونے کی حیثیت سے تمام انسان اُس کی نگاہ میں برابر ہیں البتہ تقویٰ کی بنیاد پر ہمیں دوسروں پر فوقیت حاصل ہوجاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں جب مسلمان خدائے واحد کے عقیدے کے علم بردار بن جاتے ہیں تو وہ سب آئین خداندوی کی رُو سے برابری کا درجہ رکھتے ہیں۔رنگ‘نسل‘ زبان اور جغرافیائی حدود کے اختلاف کے باوجود ہم سب مساوات کے مستحق ہوجاتے ہیں کیونکہ’’لا اِلہ اِلا اﷲ‘‘( اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں) کی اساس ان تمام ظاہری امتیازات پر نہیں ہے۔ اسلامی آئین کسی عجمی اور عرب‘کسی گورے اور کالے‘کسی امیر اور غریب‘کسی حاکم ورعایا کی تمیز نہیں کرتا۔علامہ اقبالؒ نے اس اسلامی مساوات کو مزید واضح کرتے ہوئے اپنی کتاب’’ رموز بے خودی‘‘ میں سلطان مراد اور ایک مسلمان معمار کی کہانی بیان کی ہے جس میں بادشاہ کو اس معمار کی درخواست پر عدالت میں طلب کیا گیا تھا۔ کہانی کے آخر میں وہ اسلامی مساوات پر اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ؎ پیش قرآں بندہ و مولا یکے است بوریا ومسندِ دیبا یکے است (رموز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص۱۰۸) وہ اپنے ایک انگریزی مضمون میں بھی اسلامی برابری کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں: "--This principle of equality of all believers made the early mussalmans the greatest political power in the world. Islam worked as a levelling force; it elevated those who were socially low" (Islam As A Political Ideal, P 109) اسلامی عقیدہ توحید کے دو لازمی ثمرات اخوت(بھائی چارہ) اور حریت(آزادی) ہیں۔علامہ اقبالؒ نے اسلامی اخوت کو واضح کرنے کے لیے ایک تاریخی واقعہ سے مددلی ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں مسلمانوں نے ایران فتح کرلیا تھا۔ایران مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو گوارہ نہ کرسکا چنانچہ ایرانی بادشاہ یزدجرد کی فوج اور مسلمان فوج کے درمیان ایک معرکہ میںایرانی فوج کا ایک لیڈر جابان ایک مسلمان مجاہد کے ہاتھوں قیدی ہوگیا تھا۔ مسلمان مجاہد کو اس ایرانی لیڈ ر کے بار ے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے اور اس کا نام کیا ہے۔جابان مسلمانوں کا سخت دشمن تھا۔اُس نے بڑی مکاری سے کام لیتے ہوئے اپنے نام اور مرتبے کو ظاہر نہ کیا اور اُس مسلمان فوجی سے جان بخشی کی درخواست کی جسے اُس نے قبول کرتے ہوئے اُس کی جان بخش دی۔جب دوسرے مسلمان فوجیوں کو جابان کی گرفتاری کاعلم ہوا تو وہ اُسے قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔مسلمان فوج کے امیر حضرت ابو عبیدؓ نے اُنھیں کہا کہ ہم اُسے قتل نہیں کرسکتے کیونکہ ہمارے ایک بھائی نے اس کی جان بخشی کا وعدہ کرلیا ہے۔ اس لیے اس کا وعدہ ہم سب کا وعدہ ہے۔علامہ اقبالؒ اس کہانی کا خاتمہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:۔ ہریکے ازما امین ملت است صلح وکینش‘صلح وکینِ ملت است

ملت ار گردو اساسِ جانِ فرد        عہد  ملت  می  شود  پیمان  فرد

( رموز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص ۱۰۶) توحید کے تصور کا تیسرا لازمی نتیجہ حریت فکر وعمل ہے۔اس لحاظ سے مسلمان خدا کی حاکمیت کے سوا کسی اور کی حاکمیت قبول نہیں کرسکتا۔فکر اور عمل کی یہ آزادی قرآنی تعلیمات کا طرہ امتیاز ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا قول میں اس کی جگہ لفظ’’استحکام‘‘ استعمال کیا ہے۔اس سے اُن کی مراد غالباًملی استحکام ہے جو مساوات اور حریت کی بدولت مسلمانوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اپنی نظم میں اُنھوں نے عقیدہ توحید کا نچوڑ مساوات، حریت اور اُخوت کو قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ اقبالؒ فارسی نظم’’ درمعنئی ایں کہ مقصودِرسالت محمدّیہ تشکیل وتاسیسِ حرّیت ومساوات و اُخوت آدم است‘‘ میں نبی اکرمؐ کی رسالت کی برکات(اُخوت‘حریت ومساوات) کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ کلّ مومنِ اِخوۃ اندر دِلش حریت سرمایہ آب وگلشںِ ناشکیب امتیازات آمدہ در نہادِ او مساوات آمدہ

ہمچو سرو آزاد فرزندانِ  اُو       پختہ  از قالو  بلیٰ پیمانِ اُو

(مورز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص ۱۰۴) اسلامی تصور حریت کی وضاحت کے لیے اُنھوں نے واقعہ کربلا بیان کیا ہے کہ کس طرح حضرت امام حسینؒ نے خدائی حاکمیت کی بجائے انسانی حاکمیت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں خلافت راشدہ کے مثالی اور بابرکت دور میں خدائی حاکمیت کا تصور عام تھا مگر بعد ازاں جب خلافت کی جگہ بادشاہت(ملوکیت) نے لی تو مسلمانوں کو آزادی فکر وعمل سے محروم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔وہ خلافت کے زوال اور خدائی حاکمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔ چوں خلافت رشتہ از قرآں گیخت حریت را ز ہر اندر کام ریخت

ماسو اﷲ را  مسلماں  بندہ  نیست       پیش فرعونے سرش افگندہ نیست

(رموز بے خودی‘کلیات اقبال‘ص ۱۱۰۔۱۱۱) سیاست کو اسلامی تصور حیات میں کافی اہم مقام دیا گیا ہے۔ قرآنی تعلیمات اور اُسوہ رسول ؐ کی روشنی میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ سیاست اسلام کا جزو ہے کل نہیں۔اسلام چونکہ زندگی کا ایک جامع نظام ہے اس لیے انسانی زندگی کا کوئی بھی شعبہ اس پرفوقیت نہیں رکھتا۔ جو لوگ مغربی نظام سیاست سے مرغوب ہوکر دین اور سیاست کی جدائی یا دین پر سیاست کی بالا تری کے حامی ہیں وہ اسلامی تصور سیاست سے بخوبی آگاہ نہیں ۔اسلام کی بنیاد عقیدہ توحید اور رسالت محمدیؐ ہے۔باقی تمام نظریات اسی محور کے گردگردش کرتے نظر آتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی طاقت کے زوال کی بنا پر اُمت مسلمہ کو گوناگوں مشکلات درپیش آئیں مگر اسے اسلام کی بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا۔علامہ اقبالؒ کے اپنے دور میں ترکی میں دو بڑی جماعتیںقوم پرست اور مذہبی اصلاح کی پارٹی تھیں۔ قوم پرست پارٹی مذہب پر سیاست کی فوقیت کی علم بردار تھی جبکہ دوسری پارٹی سیاست پر مذہب کو ترجیح دینے کی حامی تھی۔علامہ اقبالؒ بھی موخر الذکر مکتب فکر کی حمایت کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’ اسلام کے زاویۂ نگاہ سے سیاست ان مثالی اُصولوں کو زمان ومکان کی قوتوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کا دوسرا نام ہے‘‘۔ دوسرے لفظوں میں وہ سیاسی نظام کو اسلامی تعلیمات کے تین اہم اور زرّیں اُصولوں مساوات،حرّیت اور اُخوت کو عملی اور خارجی شکل دینے کا موثر ذریعہ قرار دیتے ہیں۔اس عملی کوشش کے بغیر مساوات،آزادی اور بھائی چارے کے تین اُصول محض نظریات اور فلسفہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔عقائد ونظریات کو نافذ کرنے اور اُن کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے ایک موثر اور طاقتور سیاسی نظام اور حکومت کا قیام لازمی ہوا کرتے ہیں۔ طاقت واقتدار کے بغیر مذ ہب محض فلسفہ رہ جاتا ہے جیسا کہ اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:۔

نہ ہو مذہب میں گر زورِ حکومت         نرا اک فلسفہ ہی فلسفہ ہے
اسلامی نظام حکومت کے لیے بھی اقتدار اور طاقت ضروری ہیں۔اسلام کا اخلاقی نظام اگر اس کا جمالی پہلو ہے تو نظام غلبہ اسکے جلالی پہلو کا مظہر ہے۔خدا تعالیٰ اپنی پیدا کردہ کائنات میں کسی غیر خدائی نظام حکومت کے نفاذ و قیام کو پسند نہیں کرتا۔ وہ اپنے آخری نبی  ﷺکی رسالت کا ایک اہم مقصد دین حق کا اظہار وغلبہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: ’’ھوُ الذّی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحقّ لیظھرہ علی الدّین کلہ‘‘ (التوبہ۹:۳۳)(خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دین حقیقی کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو دیگر تمام ادیان پر غالب کردے)۔ اس لحاظ سے دین اسلام ایسے نظام حکومت کا حامی ہے جو دنیا میں انسانی برابری، انسانی آزادی اور انسانی بھائی چارے کے سنہری اُصولوں کو نافذ بھی کرے اور اس انسانیت ساز،قدرتی اور عالمگیر دین کو باقی نظامہائے حیات پرغالب بھی کردے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں اگر کوئی طرز حکومت ان اسلامی اُصولوں کے عملی نفاذ وغلبہ کا ذریعہ نہیں تو وہ اسلامی کہلانے کا ہرگز مستحق نہیں۔وہ تو حقیقی مسلمان کی پہچان یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ آفاقی غلبہ کے بغیر ایک لمحہ بھی آرام سے نہیں بیٹھ سکتا۔
علامہ اقبالؒ کا یہ شعر ملاخطہ ہو:۔

تانخیزد بانگ ِحق از عالمے گر مسلمانی نیآ سائی دمے (ترجمہ:جب تک دنیا سے حق کی آواز بلند نہ ہو جائے تو اگر مسلمان ہے تو ایک لمحہ کے لیے آرام نہ کر)۔