Actions

تمہید"

From IQBAL

’’ذوق و شوق‘‘ میں علامّہ نے اظہارِ خیال کے لیے تمہیدی طور پر ایک منظرِ فطرت کا سہارا لیا ہے۔ ’’ خضر راہ‘‘ کی طرح زیر مطالعہ نظم میں بھی انھوں نے ایک منظرِ فطرت کو اپنے حکیمانہ خیالات کی تمہید بنایا ہے۔ شاعر کے دل میں آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر کی زیارت کی خواہش کروٹیں لے رہی ہے‘ اس لیے وہ خودکو عالم تصو ّر میں مدینۂ طیبہ کے آس پاس محسو س کرتا ہے۔ اس تصو ّراتی منظر کا نقشہ کچھ یوں ہے: مدینہ منور ہ کے قریب صحرا میں صبح کا سہانا وقت ہے۔ ٹیلوں کی اوٹ سے سورج نمودار ہوتا ہے تو اس کی نورانی کرنیں چاروں طرف یوں بکھر جاتی ہیں جیسے حسن ازل نے اپنا نقاب اتار دیا ہے۔رات کی بارش کے سبب نواحِ کاظمہ کی ریت ریشم کی مانند نرم ہو گئی ہے۔ درختوں کے پتے دھل کر پاک و صاف اور چمک دار ہو گئے ہیں ۔ فضا ہر طرح کی آلودگی سے مبرّا ہے۔ رات کے برسے ہوئے بادلوں کے چھوٹے چھوٹے رنگا رنگ ٹکڑے ادھر اُدھر دوڑتے پھر تے ہیں۔ کوہ اِضم کی پہاڑیوں کے پس منظر میں جب ان بدلیوں پر سورج کی نقرئی کرنیں پڑ تی ہیں تو ان کی رنگینی اور رعنائی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ شاعر فطرت کی اس رنگینی میں کھویا ہواہے ۔ اچانک اسے صحرا میں کسی گزرے ہوئے کارواں کے نشاناتِ قیام نظر آتے ہیں۔ اس ایک لمحے میں شاعر کی نگاہِ تخیل کے سامنے تاریخ کی بساط پر سیکڑوں قافلے گزر جاتے ہیں۔ اقوامِ عالم کے عروج و زوال کے پس منظر میں اسے یوں احساس ہوتا ہے جیسے جبرئیل ؑ اسے غور و فکر کی دعوت دے رہے ہوں کہ اہلِ دل کے لیے یہی مقامِ عبرت ہے اور لمحۂ فکریہ بھی! اس بند میں لفظ ’’ کاظمہ‘‘ اور ’’ کوہِ اِضم‘ ‘ وضاحت طلب ہیں۔ کاظمہ مکہ کی جانب والے ایک راستے ‘ ایک مقام یا ایک چشمے کا نام ہے۔ یہ مدینے کے متعدد ناموں میں سے ایک نام ہے۔اِضم مضافاتِ مدینہ کے ایک پہاڑ یا وادی کا نام ہے۔ اقبال نے پہاڑ مراد لیا ہے۔ کاظمہ اور اِضم کے نام قصیدۂ بردہ کے اس شعر سے ماخو ذ ہیں: اَمْ ہَبَّتِ الرِّیْحُ مِنْ تِلْقَآئِ کَا ظِمَۃٍ اَوْ اَوْمَضَ الْبَرْقُ فِی الظَّلَمَآئِ مِنْ اِضَمٖ (کاظمہ کی جانب سے ہو ا چلی یا وادی ِاِضم سے اندھیری رات میں بجلی چمکی ہے۔) قصیدہ بردہ کے مصنّف امام محمد بن سعید بوصیری ( پیدایش: ۷ مارچ ۱۲۱۳ء ) ایک جامع الصفات بزرگ تھے۔ وہ حسّان بن ثابتؓ کے بعد عربی کے سب سے بڑے نعت گو سمجھے جاتے ہیں۔ ۱۶۵ اشعار کے اس قصیدے سے روحانی اور معجزانہ صفات بھی وابستہ کی جاتی ہیں۔ عربی ادب میں یہ قصیدہ ایک مسلمہ شاہ کار ہے۔ علامّہ اقبال کے بعض خطوط میں بھی امام بوصیری کا ذکر ملتا ہے( اقبال نامہ ‘اول: ص ۹۴ ا‘انوار اقبال: ص ۱۵۴) اردو میں قصیدۂ بردہ کے بہت سے ترجمے ہو چکے ہیں۔