Actions

Difference between revisions of "تاریخ"

From IQBAL

(Blanked the page)
(Tag: Blanking)
m (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(Tag: Rollback)
 
Line 1: Line 1:
 
+
<div dir="rtl">
 +
(۱)ابن خلدون کا نظریہ تاریخ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ تاریخ کو پہلے سے مقرر کردہ راستے کی بجائے مسلسل حرکت زمانی اور صحیح طور پر تخلیقی سمجھتا ہے۔اپنے تصورِ زمان کی نوعیت کے اعتبار سے اُسے بجا طورپر برگساں کا پیش رو کہا جاسکتا ہے‘‘
 +
(پانچواں خطبہ)
 +
علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالاقول میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ابن خلدون (۱۳۳۲۔۱۴۰۶) کا نظریہ تاریخ اور اس کے اس حرکی تصور کا برگساں کے نظریہ زمان پر تقدم۔علامہ اقبالؒ کے نظام فکر میںحرکت اور تخلیقی صلاحیت کو خاص مقام حاصل ہے۔ اسی لیے وہ ہر اس تصور کی حمایت کرتے ہیں جو زندگی کی حرکت‘ ارتقا پذیری،رعنائی،توانائی،استحکام اور تخلیقی رو پر مبنی ہو۔وہ زندگی کو جوہڑ کی بجائے جوئے رواں سمجھ کر حرکت،عمل اور سعی کے مدح خواں ہیں۔ ابن خلدون کا نظریہ تاریخ مشہور فرانسیسی مفکر ہنری برگساں(۱۸۵۹۔۱۹۴۱ئ) کے نظریات حرکت وارتقا کامظہرہے ،اسی باعث وہ ان دونوں کی یہاں تعریف وتوصیف کرتے ہیں۔
 +
تاریخ کے بارے میں عام طور پر دو مکاتب خیال پائے جاتے ہیں۔ایک مکتب فکر کے حامی تاریخ کو ماضی کے واقعات کی تکرار سمجھتے ہیں۔اس لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ تاریخ اور وقت کو ایک چکر کی مانند قرار دیتے ہیں جس میں پرانی چیزیں اور پرانے واقعات ہی کودہرایا جاتاہے۔اس تصور تاریخ میں تنوع اور جدت طرازی کا عنصر موجود نہیں ہوتا۔دوسرے مورخین اور مفکرین تاریخ اور وقت کو ارتقائی،حرکی اور تخلیقی خیال کرتے ہیں۔اس طرح جدت ،حرکت،ارتقا اور تخلیق اس کی لازمی صفات قرارپاتی ہیں۔ زیادہ تر یونانی فلاسفہ وقت کی عدم حرکت کے قائل تھے۔اس لیے علامہ اقبالؒ نے یونانی تصور تاریخ کو ہدف تنقید وتنقیص بنایا ہے۔ان یونانی فلسفیوں کے برعکس مشہور عرب مورخ ابن خلدون نے اپنے انقلاب خیز اور سائنسی نظریات کی بناء پر تاریخ کے میدان میں نمایاں کردارادا کیا تھا۔ ابن خلدون نے اسلامی نظریہ تاریخ کی روشنی میں اسے پہلے سے مقررکردہ راستے کی بجائے وقت کی مسلسل حرکت اور تخلیقی رو قرار دیا تھا۔ قرآن حکیم نے گردش لیل ونہار اور کائناتی تبدیلیوں کو’’ایاّم اﷲ‘‘ کہہ کر اس کی اہمیت اور اس کے تخلیقی عنصر کو واضح کیا ہے۔خداتعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی نشانیاں نہ صرف باطن میں بلکہ خارج میں بھی ظاہر کرتا ہے۔اﷲ تعالیٰ کی یہ نشانیاں(آیات اﷲ) تکرار اور بے مقصدیت سے خالی ہیں۔خدا تعالیٰ کے بارے میں قرآن حکیم نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہر لمحہ جلوہ گری کرتا رہتا ہے۔’’کل یوم ھو فیِ شان‘‘۔ (الرحمن ۵۵:۲۹)اس نقطہ نظر سے خدا کائنات میں بھی تنوع ،تغیر،جدت اور ارتقاء وحرکت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔مفکر اسلام اس قرآنی تصور کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخ کو بھی انسانی علم کا ایک اہم سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔قرآن نے صرف گذشتہ قوموں کے واقعات ہی بیان نہیںکئے بلکہ اُن کے زوال وعروج اور موت وحیات کے اسباب ونتائج پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے تاریخ کی زمانی حرکت اور ارتقاء پذیری کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ یہاں چند اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے۔وہ تاریخی روایات کے تحفظ،وقت کے تسلسل اور شعوری حرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
 +
ربط  ایاّم  است  مارا  پیرہن        سوزنش  حفظِ  روایات  کہن
 +
چیست  تاریخ  اے ز  خود  بیگانہ        د استانے  ،    قصۂ  ،    افسانۂ
 +
ایں  ترا  از  خویشین  آگہ کند        آشنائے  کار  و  مردِ  رہ کند
 +
مشکن  ار خواہی  حیات  لازوال          رشتہ  ماضی  زا استقبال  وحال
 +
موج ادراک تسلسل زندگی  است          میکشاں را شور قلقل زندگی است
 +
(رموز بیخودی،کلیات اقبال،ص۱۴۸۔۱۴۷)
 +
فرانس کے شہرہ آفاق فلسفی ہنری برگساں نے بھی ابن خلدون کی طرح وقت کے بارے میں انقلاب آفریں تصورات پیش کئے ہیں۔اس نے’’قوت حیات‘‘ کو ارتقا کا اُصول قرار دیا اور وقت کی حرکت اور ارتقا پذیری کو ناقابل تقسیم کہا تھا۔ابن خلدون نے بھی اپنے نظریہ تاریخ کو بیان کرتے ہوئے وقت کی مسلسل حرکت،ارتقا پذیری،جدت،تغیر اور تخلیق پر کافی زور دیا تھا۔اس لحاظ سے علامہ اقبال ؒنے اسے بجا طورپر’’برگساں کا پیش رو‘‘ کہا ہے۔ برگساں کے تصور زمان کی یہ جھلکیاں ملاخطہ ہوں۔
 +
"----For a conscious being to exist is to chang, to chang is to mature to mature is to go on creating one's self endlessly"
 +
(Creative  Evolution)
 +
"Each moment is not only something new, but something unforeseeable----change is far more radical than we suppose".
 +
(Creative  Evolution)
 +
</div>

Latest revision as of 01:02, 20 July 2018

(۱)ابن خلدون کا نظریہ تاریخ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ تاریخ کو پہلے سے مقرر کردہ راستے کی بجائے مسلسل حرکت زمانی اور صحیح طور پر تخلیقی سمجھتا ہے۔اپنے تصورِ زمان کی نوعیت کے اعتبار سے اُسے بجا طورپر برگساں کا پیش رو کہا جاسکتا ہے‘‘ (پانچواں خطبہ) علامہ اقبالؒ کے مندرجہ بالاقول میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ابن خلدون (۱۳۳۲۔۱۴۰۶) کا نظریہ تاریخ اور اس کے اس حرکی تصور کا برگساں کے نظریہ زمان پر تقدم۔علامہ اقبالؒ کے نظام فکر میںحرکت اور تخلیقی صلاحیت کو خاص مقام حاصل ہے۔ اسی لیے وہ ہر اس تصور کی حمایت کرتے ہیں جو زندگی کی حرکت‘ ارتقا پذیری،رعنائی،توانائی،استحکام اور تخلیقی رو پر مبنی ہو۔وہ زندگی کو جوہڑ کی بجائے جوئے رواں سمجھ کر حرکت،عمل اور سعی کے مدح خواں ہیں۔ ابن خلدون کا نظریہ تاریخ مشہور فرانسیسی مفکر ہنری برگساں(۱۸۵۹۔۱۹۴۱ئ) کے نظریات حرکت وارتقا کامظہرہے ،اسی باعث وہ ان دونوں کی یہاں تعریف وتوصیف کرتے ہیں۔ تاریخ کے بارے میں عام طور پر دو مکاتب خیال پائے جاتے ہیں۔ایک مکتب فکر کے حامی تاریخ کو ماضی کے واقعات کی تکرار سمجھتے ہیں۔اس لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔دوسرے لفظوں میں وہ تاریخ اور وقت کو ایک چکر کی مانند قرار دیتے ہیں جس میں پرانی چیزیں اور پرانے واقعات ہی کودہرایا جاتاہے۔اس تصور تاریخ میں تنوع اور جدت طرازی کا عنصر موجود نہیں ہوتا۔دوسرے مورخین اور مفکرین تاریخ اور وقت کو ارتقائی،حرکی اور تخلیقی خیال کرتے ہیں۔اس طرح جدت ،حرکت،ارتقا اور تخلیق اس کی لازمی صفات قرارپاتی ہیں۔ زیادہ تر یونانی فلاسفہ وقت کی عدم حرکت کے قائل تھے۔اس لیے علامہ اقبالؒ نے یونانی تصور تاریخ کو ہدف تنقید وتنقیص بنایا ہے۔ان یونانی فلسفیوں کے برعکس مشہور عرب مورخ ابن خلدون نے اپنے انقلاب خیز اور سائنسی نظریات کی بناء پر تاریخ کے میدان میں نمایاں کردارادا کیا تھا۔ ابن خلدون نے اسلامی نظریہ تاریخ کی روشنی میں اسے پہلے سے مقررکردہ راستے کی بجائے وقت کی مسلسل حرکت اور تخلیقی رو قرار دیا تھا۔ قرآن حکیم نے گردش لیل ونہار اور کائناتی تبدیلیوں کو’’ایاّم اﷲ‘‘ کہہ کر اس کی اہمیت اور اس کے تخلیقی عنصر کو واضح کیا ہے۔خداتعالیٰ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کی نشانیاں نہ صرف باطن میں بلکہ خارج میں بھی ظاہر کرتا ہے۔اﷲ تعالیٰ کی یہ نشانیاں(آیات اﷲ) تکرار اور بے مقصدیت سے خالی ہیں۔خدا تعالیٰ کے بارے میں قرآن حکیم نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ہر لمحہ جلوہ گری کرتا رہتا ہے۔’’کل یوم ھو فیِ شان‘‘۔ (الرحمن ۵۵:۲۹)اس نقطہ نظر سے خدا کائنات میں بھی تنوع ،تغیر،جدت اور ارتقاء وحرکت کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔مفکر اسلام اس قرآنی تصور کو مد نظر رکھتے ہوئے تاریخ کو بھی انسانی علم کا ایک اہم سرچشمہ قرار دیتے ہیں۔قرآن نے صرف گذشتہ قوموں کے واقعات ہی بیان نہیںکئے بلکہ اُن کے زوال وعروج اور موت وحیات کے اسباب ونتائج پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ علامہ اقبالؒ نے تاریخ کی زمانی حرکت اور ارتقاء پذیری کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔ یہاں چند اشعار کا حوالہ دیا جاتا ہے۔وہ تاریخی روایات کے تحفظ،وقت کے تسلسل اور شعوری حرکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔ ربط ایاّم است مارا پیرہن سوزنش حفظِ روایات کہن

چیست  تاریخ  اے ز  خود  بیگانہ         د استانے  ،    قصۂ  ،    افسانۂ
ایں   ترا  از  خویشین   آگہ کند         آشنائے  کار  و   مردِ   رہ کند

مشکن ار خواہی حیات لازوال رشتہ ماضی زا استقبال وحال

موج ادراک تسلسل زندگی  است          میکشاں را شور قلقل زندگی است 

(رموز بیخودی،کلیات اقبال،ص۱۴۸۔۱۴۷) فرانس کے شہرہ آفاق فلسفی ہنری برگساں نے بھی ابن خلدون کی طرح وقت کے بارے میں انقلاب آفریں تصورات پیش کئے ہیں۔اس نے’’قوت حیات‘‘ کو ارتقا کا اُصول قرار دیا اور وقت کی حرکت اور ارتقا پذیری کو ناقابل تقسیم کہا تھا۔ابن خلدون نے بھی اپنے نظریہ تاریخ کو بیان کرتے ہوئے وقت کی مسلسل حرکت،ارتقا پذیری،جدت،تغیر اور تخلیق پر کافی زور دیا تھا۔اس لحاظ سے علامہ اقبال ؒنے اسے بجا طورپر’’برگساں کا پیش رو‘‘ کہا ہے۔ برگساں کے تصور زمان کی یہ جھلکیاں ملاخطہ ہوں۔ "----For a conscious being to exist is to chang, to chang is to mature to mature is to go on creating one's self endlessly" (Creative Evolution) "Each moment is not only something new, but something unforeseeable----change is far more radical than we suppose". (Creative Evolution)