اختر صبح
From IQBAL
اختر صبح
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا
ملی نگاہ مگر فرصت نظر نہ ملی
ہوئی ہے زندہ دم آفتاب سے ہر شے
اماں مجھی کو تہ دامن سحر نہ ملی
بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی
نفس حباب کا، تابندگی شرارے کی
!کہا یہ میں نے کہ اے زیور جبین سحر
غم فنا ہے تجھے! گنبد فلک سے اتر
ٹپک بلندی گردوں سے ہمرہ شبنم
مرے ریاض سخن کی فضا ہے جاں پرور
میں باغباں ہوں، محبت بہار ہے اس کی
بنا مثال ابد پائدار ہے اس کی