Actions

''دیباچہ''

From IQBAL

دیباچہ

مفکرِ اسلام اور ترجمانِ ملتِ اسلامیہ علامہ اقبال کی تصنیف ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کواچھی طرح سمجھنے اور اس کے نمایاں ترین پہلوئوں سے بخوبی آگاہی حاصل کرنے کے لیے اس کے دیباچہ کا گہرا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ اس مفصل دیباچہ میں ظہور اسلام سے قبل کے ایرانی فلسفیانہ نظام اور ایران پر غلبہ اسلام کے بعد رونما ہونے والے فکری واقعات کوبیان کیا گیا ہے۔ ایران کے قدیم فلسفیانہ افکار اور بعدازاں تشکیل پانے والے فکری نظام خصوصاً فلسفہ و مذہب کی آمیزش، ایرانی مفکرین پر یونانی مفکرین کے اثرات اور اسلامی تعلیمات میں عجمی عقائد کی پیوند کاری کے پس منظر کو جاننے کے لیے بھی یہ دیباچہ کافی اہمیت و افادیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال نے اس میں جن اہم اور اساسی تصورات کا تذکرہ کیا ہے وہ درج ذیل ہیں: (۱) ایرانی فلاسفہ اور مفکرین کے نظام ہائے فکر کے مطالعہ سے پتا چلتاہے کہ وہ کسی ضابطۂ فکر کو جامعیت کے ساتھ پیش کرنے سے قاصر ہیں یہی وجہ ہے وہ اشیائے کائنات کے اجمالی مطالعہ کو تفصیلی مشاہدات پر ترجیح دیتے ہیں۔ (۲) اہل ایران کے کردار کا نمایاں ترین پہلو ان کی فلسفیانہ خیال آرائی ہے۔ وہ غیر مادی اور نادیدنی حقائق سے شدید محبت رکھتے ہیں۔ (۳) ایرانی ذہن کا بھرپور اظہار مجمل خیالات اور متشر افکار کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس لیے غیرمربوط اشعار یعنی غزل اس کے لیے بہترین ذریعہ اظہار ہے۔ (۴) ایرانی ذہن کے برعکس ہندو ذہن اپنے تجربات و مشاہدات کوبڑی تفصیل اور اطمینان کے ساتھ بیان کرنے کا عادی ہے۔ اس طریق کار کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہندو فلاسفہ اور مفکرین جامع اور ہمہ گیر فلسفیانہ نظام کے مالک ہیں۔ (۴) اشیائے کائنات میںمخفی وحدۃ الوجود (خالق عالم کے وجود کی وحدت) میں ایرانی مفکرین کئی طرح ہندو مفکرین بھی گہری دل چسپی رکھتے تھے لیکن دونوں کے طریق کار اور انداز فکر مختلف ہیں۔ ہندو فلاسفہ اور مفکرین کا تجزیاتی طریقہ ایرانی مفکرین کے اجمالی مشاہدہ سے زیادہ مفصل اور جامع ہے۔ (۶) اندلس کے مسلمان وجودی مفکر محی الدین ابن عربی کی تصانیف میں نظریہ وحدۃ الوجود کی ہمیں جامع و مانع وضاحت ملتی ہے۔ (۷) ہندوستان، ایران اور یورپ قدیم آریائی خاندان کے افراد کے مساکن تھے۔ آریائی نسل کی ایک نمایاں خوبی مشالیت پسندی (عینیت پسندی یا تصوریت) رہی ہے۔ اس آریائی عادت نے ہندوستان میں گوتم بدھ، ایران میں بہاء اللہ اور یورپ میں مشہور قنوطیت پرست مفکر شوپنہار (Svhopenhauer) کے یکساں فکری نظام کی تخلیق کی ہے۔ (۸) شاید سامی اثرات کی بدولت ایران میں مذہب اورفلسفہ کے درمیان نہ ٹوٹنے والا رشتہ موجود رہا ہے۔ اسی لیے وہاں نئے نئے فلسفیانہ نظاموں نے کئی نئی مذہبی تحریکوں کو جنم دیا ہے۔ (۹) اگرچہ فلسفہ یونان سرزمین ایران میں پیدا نہیں ہوا تھا تاہم یہ آخرکار ایرانی نظام فکر کالازمی جزو بن گیا تھا۔ مسلم مفکرین نے فلسفہ یونان کے زیر اثر یونانی مفکرین خصوصاً افلاطون اور ارسطو کی فلسفیانہ اصطلاحات کو اپنے عقائد و افکار کی حمایت اور مخالفین کی مخالفت میں استعمال کرناشروع کردیا تھا۔ اس طرح فلسفہ یونان کی فلسفیانہ زبان مسلم تصوف، شریعت اور فلسفہ سے ہم آہنگ ہوگئی۔ (۱۰) ظہور اسلام کے بعد پروان چڑھنے والے ایرانی افکار و نظریات کا صحیح تجزیہ کرنے کے لیے اس بات کو ذہن نشین کرنااشد ضروری ہے کہ یونانی فلسفہ نے فلسفۂ ایران کو خاصا متاثر کردیا تھا۔ (۱۱) علامہ اقبال کی یہ کتاب دراصل فلسفۂ ایران کی آیندہ تاریخ کے لیے بنیاد کادرجہ رکھتی ہے اس میں انھوں نے دو نئی باتوں کا اضافہ کیا ہے۔ (ا) علامہ اقبال دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے فلسفۂ ایران کے منطقی تسلسل کا کھوج لگا کر اسے عصر حاضر کی فلسفیانہ زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ (ب) ان کا مزید کہنا ہے کہ انھوں نے تصوف کے موضوع کو سائنسی انداز میں بیان کرنے کے علاوہ اس کے فکری اور اخلاقی پس منظر پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔ (۱۲) علامہ اقبال نے اپنی اس کتاب کی تیاری کے لیے بہت سے اصل عربی اور فارسی مسودات کا مطالعہ کیا تھا۔ (۱۳) انھوں نے اپنی اس تصنیف کے انیس اہم منابع کی فہرست درج کی ہے۔ یہ اہم مسودات جرمنی اوربرطانیہ کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ یہ مسودات مسلمان مفکرین، فلاسفہ، صوفیا اور علمائے شریعت کی ذہنی کاوش کے غماز ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنی اولین فلسفیانہ کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کے دیباچہ میں مندرجہ بالا نکات میں بہت سے فلسفیانہ امور پر روشنی ڈالی ہے۔ اگر ان بنیادی نکات کو مدنظر رکھا جائے تو پھر اس کتاب کے کافی مباحث باآسانی سمجھے جاسکیں گے۔ علامہ اقبال نے اپنی اس کتاب کے دیباچہ میں ایرانی فلاسفہ اور مفکرین کی مابعد الطبیعیاتی مسائل میں گہری دل چسپی اور ان کے نامکمل نظام فکر کے بارے میں اپنے خیالات کابڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ ایرانی لوگوں کی نازک خیالی اور دروں بینی کے تو قائل ہیں لیکن وہ ان کے افکار کو صحیح طور پر منظم اور مربوط خیال نہیں کرتے۔ اس کے برعکس وہ ہندو فلاسفہ اور مفکرین کے مشاہدات و تجربات کی کلیت کی تعریف کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ اس کتاب کے دیباچہ کے آغاز میں یوں رقم طراز ہیں: ایرانی لوگوں کے کردار کا نمایاں ترین پہلو مابعد الطبیعیاتی تفکر سے محبت ہے۔ تاہم جویائے حقیقت ایران کے معدوم لٹریچر کا مطالعہ کرکے کپلا (Kapila) اور کانٹ (Kant) کے جامع نظام ہائے فکر کی طرح کوئی مربوط فکری نظام تلاش کرنے کی امید رکھے تو اسے مایوسی کے سوا کچھ بھی نہیں ملے گا یہ الگ بات ہے کہ وہ ایرانی ادب میں پنہاں حیرت انگیز ذہنی ذکاوت سے بہت زیادہ متاثر ہو۔ میری رائے میں ایرانی ذہن تفصیلات کا متحمل نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اس تنظیمی صلاحیت سے محروم ہے جو مشاہدہ کے عام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بنیادی اُصولوں کی تشریح کے ذریعے بتدریج خیالات کا ایک نظام تشکیل دیتی ہے۔ اس اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ زیرک برہمن اشیائے کائنات کی باطنی وحدت کو دیکھ لیتا ہے۔ ایرانی مفکر کا بھی یہی حال ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ برہمن مفکر اس وحدت اشیا کو انسانی تجربات کے تمام پہلوئوں میں منکشف کرنے اور ٹھوس حقائق میں اس کی پوشیدہ موجودگی کو مختلف طریقوں سے واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے برعکس ایرانی مفکر اشیا کی اس وحدت کی محض آفاقیت سے مطمئن ہوکر اس کے مخفی مواد کی وسعت کی تصدیق و تحقیق کی سعی نہیں کرتا۔ علامہ اقبال ایرانی تخیل کو اس تتلی کی مانند قرار دیتے ہیں جو باغ کو مجموعی طور پر دیکھنے سے قاصر ہو کر ایک پھول سے دوسرے تک ان کے رس سے نیم سیراب ہوکر اڑتی ہے۔ ان کی نگاہ میںایرانی ذہن چیزوں کی مجموعی اور مفصل وحدت کو دیکھنے کی بجائے اسے مختلف حصوں میں دیکھنے کا عادی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ منتشر اشعار یعنی غزل میں ایرانی افکار کا بہترین اظہار ہوتا ہے۔ اس بارے میں موجودہ عالم اسلام کے یہ نامور ترجمان یوں اظہار خیال کرتے ہیں۔ ’’اس بنا پر ایرانی مفکر کے عمیق ترین خیالات اور احساسات غیر مربوط اشعار یعنی غزل میں زیادہ تر بیان کیے جاتے ہیں جن سے اس کی فنکارانہ روح کی باریک بینی کا پتا چلتا ہے۔‘‘ مابعد الطبیعیات فلسفے کی وہ شاخ ہے جو مادی اور دیدنی چیزوں کی بجائے نظر نہ آنے والے غیرمادی حقائق کو معلوم کرنے کی کوشش کیا کرتی ہے۔ طبیعی عالم کے پس پردہ جو حقائق موجود ہوتے ہیں وہ غیر طبیعی یا مابعد الطبیعیاتی حقائق کہلاتے ہیں۔ یہ غیر طبیعی حقیقتیں شروع ہی سے انسان کی جستجو اور غیرمعمولی دل چسپی کا سبب رہی ہیں۔ دنیا کے دیگر فلاسفہ اور مفکرین کی طرح ایرانی اور ہندو مفکرین بھی اپنے اپنے نقطہ نظر سے ان پوشیدہ امور کو جاننے اور انھیں بیان کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مختلف قومی خصائص، ثقافتی اطوار، سماجی حالات، معاشی نظریات اور مذہبی رجحانات کی وجہ سے مختلف نظام ہائے فکر معرض وجود میں آتے ہیں۔ ایرانیوں اور ہندوئوں کے مختلف فلسفیانہ خیالات اور فکری اعتقادات بھی اس حقیقت کے غماز دکھائی دیتے ہیں چنانچہ علامہ اقبال ان دونوں قوموں کے مابعد الطبیعیاتی نقطہ ہائے نگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ایرانی ذہن کی طرح ہندو ذہن بھی علم کے بلند تر سرچشمے کی ضرورت کو تسلیم کرتا ہے تاہم وہ بڑے صبر و تحمل کے ساتھ ایک تجربے سے دوسرے تجربے تک پہنچتا ہے۔ وہ اپنے ان تجربات کا بڑی بے رحمی کے ساتھ تجزیہ کرکے انھیں اپنے اندر چھپی ہوئی آفاقیت کو ظاہر کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ دراصل ایرانی مفکر ضابطہ افکار کے طور پر مابعد الطبیعیات سے صرف نیم آگاہ ہے۔ اس کے برعکس اس کا برہمن بھائی اپنے نظریے کو ایک مکمل عقلی نظام کی شکل میں پیش کرنے کی ضرورت سے کلیتاً واقف ہے۔ ان دونوں قوموں کے ذہنی اختلاف کا نتیجہ ظاہر ہے۔ ایک طرف تو ہمیں صرف جزوی طور پر پیش کردہ نظام فکر ملتا ہے اور دوسری طرف ہمیں حقیقت طلب دیدانت کی حیرت افزا عظمت کا احساس ہوتا ہے۔ وحدۃ الوجود نظریے کی مکمل توضیح و تشریح کے لیے اندلس کے شہرہ آفاق صوفی مفکر محی الدین ابن عربی کی تصانیف کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ محی الدین ابن عربی کو اگر وجودیوں کا امام کہا جائے تو اس میں ہرگز کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ ان کے بعد آنے والے وجودیوں نے زیادہ تر ان کے افکار و تشریحات ہی کا سہارا لے کر نظریہ وحدۃ الوجود کی تبلیغ و اشاعت کی ہے۔ علامہ اقبال وحدۃ الوجود کے اُصول اور محی الدین ابن عربی اندلسی کے بارے میں اپنی رائے کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: اسلامی تصوف کاوہ طالب علم جو اُصول وحدۃ الوجود کی ہمہ گیر وضاحت کو جاننے کے لیے مضطرب ہے اسے اندلس کے رہنے والے ابن العربی کی ضخیم کتابوں کا مطالعہ کرناچاہیے جس کی گہری تعلیمات اس کے اہل وطن کے خشک اسلام سے مختلف دکھائی دیتی ہیں۔ ایرانی اور ہندو فلسفیوں اور مفکروں کے تحقیقی طریق کار، تجزیاتی نوعیت مخصوص قومی انداز فکر اور وجودی تعبیرات کی بحث کو ختم کرنے سے پہلے ایک اور پہلو کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔ مورخین کی رائے میں آریائی نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ ہندوستان سے نکل کر دنیا کے دوسرے علاقوں میں جاکر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ زبان، رنگ اور رہایش کے اختلافات کے باوجود ان میں بعض موروثی اثرات باقی رہے۔ اس عظیم اور قدیم خاندان کی مختلف شاخوں کی ذہنی سرگرمیوں کے بعض نتائج یکساں نظر آتے ہیں ان کی آبائی فلسفیانہ خیال آرائی اور عینیّت (Idealism) نے مختلف ملکوں میں ایک ہی طرز کی بعض فکری تحریکوں کو جنم دیا تھا۔ علامہ اقبال ایران اور ہندوستان میں خصوصاً اور یورپ میں عموماً اس حیرت انگیز فکری یکسانیت کی کرشمہ سازی کو بیان کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں: عظیم آریائی خاندان کی مختلف شاخوں کی ذہنی سرگرمی کے نتائج حیرت انگیز طور پر یکساں ہیں۔ تمام عینیت پرستانہ افکار کا نتیجہ ہندوستان میں گوتم بدھ کا وجود، ایران میں بہاء اللہ کا ظہور اور مغرب میں شوپنہار کی نمود ہے۔ ہیگل کی زبان میں شوپنہار کا فلسفہ آزاد مشرقی آفاقیت اور مغربی محدودیت کا امتزاج ہے۔ ایران کی تاریخ فلسفہ کا گہرا مطالعہ کرنے سے ہم پر یہ امر بھی عیاں ہوجاتا ہے کہ وہاں مذہب اور فلسفہ کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ وہاں نئے نئے فلسفیانہ افکار و نظریات نئی نئی مذہبی تحریکوں کو جنم دیتے رہے ہیں اور بعض مسلمان فلاسفہ اور مفکرین فلسفہ یونان کے زیر اثر اپنے مذہبی اعتقادات اور مخصوص مزعومات کو فلسفیانہ زبان میں بیان کرنے کے عادی ہوگئے تھے۔ ایران میںظہور اسلام کے بعد اگرچہ عارضی طور پر مذہب اور فلسفہ کی راہیں جدا ہوگئیں مگر بعدازاں آہستہ آہستہ فلسفہ یونان فسلفہ ایران کالازمی جزو بن گیا تھا۔ شاعرِ مشرق اور حکیم الامت علامہ اقبال فلسفۂ ایران کی تاریخ کے اس پہلو کی نقاب کشائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایران میں شاید سامی اثرات کی بنا پر فلسفیانہ تفکر نے اپنے آپ کو مذہب کے ساتھ اس حد تک پیوست کرلیا تھا کہ ان کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے فلسفیانہ افکار کو نئے خطوط پر تشکیل دینے والے مفکرین ہمیشہ نئی مذہبی تحریکوں کے بانی رہے ہیں۔ ایران پر غلبہ اسلام کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ افلاطون اور ارسطو کے نئے مسلمان مقلدین نے خالص فلسفے کو مذہب سے جدا کردیا تھا مگر یہ جدائی صرف عارضی واقعہ ثابت ہوئی۔ اگرچہ یونانی فلسفہ سرزمین ایران میں ایک اجنبی (بدیشی) پودا تھا تاہم انجام کار یہ فلسفۂ ایران کا جزو لاینفک بن گیا تھا۔ اس اقتباس سے یہ اہم حقیقت نکھر کر ہمارے سامنے آجاتی ہے کہ یونانی فلسفیوں اور مفکروں نے ایرانی فلسفیانہ نظام کو کافی حد تک اپنا غلام بنالیا تھا۔ ایران پر اسلامی فتوحات کی وجہ سے اہل ایران اگرچہ کافی حد تک اور کافی تعداد میں اسلامی تعلیمات کے حامل بن گئے تھے لیکن بعض تبلیغی کوتاہیوں اور سیاسی مصلحتوں سے فائدہ اٹھا کر بعض ایرانی ذہن اپنے بعض قدیم غیر اسلامی عقائد و نظریات سے چھٹکارا نہ پاسکے چنانچہ وہ در پردہ اسلام کی بیخ کنی کے درپے رہے۔ بعض لوگ جہالت کی بنا پر اور بعض افراد دیدہ ودانستہ اسلام کے صاف و شفاف دریا کو گدلا بنانے میں مصروف رہے۔ غیر اسلامی نظریات اور عقائد صرف کوچۂ فلسفہ ہی میں داخل نہ ہوئے بلکہ رفتہ رفتہ وہ ہمارے تصوف، شریعت، روایات سلف اور قرآنی تفاسیر کا بھی جزو بنتے گئے۔ اسی غلامانہ ذہنیت اور یونانی مرعوبیت کے زیر اثر ہمارے بعض تصوف پسند مفکرین اور علمائے شریعت نے اسلامی تعلیمات اور قرآنی اصطلاحات کی بجائے زیادہ تر یونانی افکار اور فلسفہ یونان کی مخصوص زبان پر تکیہ کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عامۃ المسلمین انتشار فکر و نظر کا شکار ہو کر سعی و عمل سے محروم ہوتے گئے۔ نباض ملت ہونے کی حیثیت سے علامہ اقبال ایرانی اہل فکر کی اس یونانی محکومیت اور ذہنی غلامی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: حکمت یونانی کے حامی نقاد اور مفکرین ارسطو اور افلاطون کی فلسفیانہ زبان میں گفتگو کرنے لگے اور وہ زیادہ تر قدیم مذہبی مفروضات سے متاثر ہوئے۔ ایران میں ظہورِ اسلام کے بعد پروان چڑھنے والے ایرانی فلسفے کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ علامہ اقبال ہندوستانی اور ایرانی مفکرین کے طریق مطالعہ کائنات اور انداز مشاہدات اور فلسفۂ ایران پر حکمت یونان کے اثرات کوبیان کرنے کے بعد اپنی کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا کی تاریخی اہمیت اور فلسفیانہ افادیت کے بعض پہلوئوں پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ اپنی تحقیق پسندی کے ثمرات اور طرز بیان کی جدت کو انھوں نے ابڑے مختصر طور پر تحریر کیا ہے۔ ان کی یہ تحقیقی کتاب شاعرانہ تَعلّی اور علمی غرور کی بجائے واقعہ نگاری، حقیقت پسندی اور ذاتی انکسار کی منہ بولتی تصویر ہے۔ وہ اس کتاب کے چند اہم گوشوں سے ہمیں روشناس کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس علمی تحقیق کا مقصد، جیسا کہ واضح ہوگا، ایرانی مابعد الطبیعیات (فلسفۂ ایران) کی آیندہ تاریخ کے لیے بنیادی کام مہیا کرنا ہے۔ اگرچہ خالصتاً تاریخی نوعیت کے علمی جائزے میں جدت خیال کی توقع نہیں کی جاسکتی تاہم میں مندرجہ ذیل دو نکات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانے کی جسارت کرتا ہوں: (الف) میں نے فلسفۂ ایران کے منطقی تسلسل کا سراغ لگانے کی کوشش کرکے اسے جدید فلسفے کی زبان میں بیان کرنے کی سعی کی ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس سے بیشتر یہ کام نہیں ہوگا۔ (ب) میں نے تصوف کے موضوع پر زیادہ سائنٹیفک انداز میں بحث کرکے اسے بروئے کار لانے والے ذہنی کوائف کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ عام مروجہ تصور کے برعکس میں نے یہ بتانے کی سعی کی ہے کہ تصوف ان مختلف فکری اور اخلاقی قوتوں کی پیداوار ہے جو لازمی طور پر خوابیدہ روح میں زندگی کا بلند تر نصب العین بیدار کیا کرتی ہے۔‘‘ اپنی اس فلسفیانہ اور صوفیانہ کتاب کے دیباچہ کے آخر میں علامہ اقبال نے ان تمام عربی اور فارسی، مخطوطات، مسودات اور مطبوعات کی طویل فہرست دی ہے جن کا مطالعہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنی کتاب ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقا ہے۔ یہ مسودات اور مطبوعات بلند پایہ حکما، صوفیا، فلاسفہ، علما اور مفکرین کی ذہنی کاوش کانتیجہ ہیں۔ ’’علم کے وہ موتی‘‘ یعنی کتابیں اپنے آبا کی غیروں کے کتب خانوںکی زینت کا باعث بن چکی ہیں۔ چنانچہ اپنی کتاب کی تیاری اور ضروری مواد کی تحقیق کے لیے علامہ اقبال کو ان سب نایاب مسودات اوربعض اہم مطبوعات کے مطالعہ کے لیے یورپ کی مختلف لائبریریوں کا رخ کرنا پڑا۔ ان کتابوں اور مسودوں کا زیادہ تر تعلق رائل لائبریری آف برلن، انڈیا آفس لائبریری لندن، برٹش میوزیم لائبریری کیمبرج یونیورسٹی لائبریری اور ٹرینٹی کالج لائبریری سے ہے جیسا کہ علامہ اقبال کی تحریر کردہ فہرست کتب سے عیاں ہوتا ہے۔ علامہ موصوف اپنی علمی تحقیق کے ان اہم منابع کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ژند زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے زرتشت کے بارے میں میری معلومات براہ راست نہیں ہیں۔ جہاں تک میری کتاب کے دوسرے حصے کا تعلق ہے میں اپنی اس علمی تحقیق سے متعلق فارسی اور عربی کے اصلی مسودات کے علاوہ بہت سی مطبوعہ کتابوں کو دیکھ سکا ہوں۔ میں ذیل میں ان عربی اور فارسی مسودات کا نام درج کرتا ہوں جن سے میں نے اپنی کتاب کی تیاری کے لیے زیادہ تر مواد حاصل کیا ہے… علامہ اقبال نے جن کتابوں اور مسودات کا مطالعہ کیا تھا ان کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں تاکہ قارئین کرام کو معلوم ہو کہ انھوں نے اپنے علمی مقصد کے حصول کے لیے کتنی جانفشانی، انتھک کوشش اور لگن سے کام لیا تھا۔ ان مخطوطات اور مسودات کی فہرست ملاحظہ ہو: (۱) تاریخ الحکماء از البہیقی رائل لائبریری آف برلن(جرمنی) (۲) شرح انواریہ(اصلی متن کے ساتھ) از محمد شریف ہراتی ایضاً (۳) حِکمۃُ العین از الکاتبی ایضاً (۴) شرح حکمۃ العین از محمد ابن مبارک البخاری انڈیا آفس لائبریری (لندن) (۵) عوارف المعارف از شہاب الدین ایضاً (۶) شرح حکمۃ العین از حسینی ایضاً (۷) مشکواۃ الانوار از الغزالی ایضاً (۸) کشف المحجوب از علی ہجویری ایضاً (۹) رسالہ نفس (ارسطو کی کتاب کا ترجمہ) از افضل کاشی ایضاً (۱۰) رسالہ میر سید شریف ایضاً ایضاً (۱۱) خاتمہ از سید محمد گیسو دراز ایضاً (۱۲) منازل السائرین از عبد اللہ اسماعیل ہراتی ایضاً (۱۳) جاوادں نامہ از افضل کاشی ایضاً (۱۴) تاریخ الحکماء از شاہ حضوری برٹش میوزیم لائبریری (لندن) (۱۵) بو علی سینا کامجموعہ تصانیف ازبو علی سینا ایضاً (۱۶) رسالہ فی الوجود از میر جرجانی برٹش میوزم لائبریری (لندن) (۱۷) جاودان کبیر

کیمبرج یونیورسٹی لائبریری (برطانیہ) (۱۸) جام جہاں نما

ایضاً (۱۹) مجموعہ فارسی (رسالہ نمبر۱، رسالہ نمبر۲) از اُنسفِیَ ٹرنیٹی کالج لائبریری (برطانیہ) علامہ اقبال نے اپنی کتاب کے حصہ اول میں ایران کے ایک قدیم اور مشہور فلسفی زرتشت کے فلسفیانہ نظام پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے کیوں کہ فلسفۂ ایران کو سمجھنے اور زرتشت کے مسلمان مقلدین کے بعض خیالات کے اصل مأخذ کو جاننے کے لیے زرتشت کے نظریات کا مفصل اور گہرا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ فارسی زبان کی ایک پرانی شکل یعنی ژند میں زرتشت کے خیالات بیان کیے گئے تھے۔ علامہ اقبال چونکہ اس پرانی زبان سے واقف نہیں اس لیے انھوں نے زرتشت کے خیالات کو اصلی مسودہ سے جاننے کی بجائے اس کے تراجم کاسہارا لیا تھا۔ باقی ایرانی مفکرین کے افکار و خیالات سے بخوبی آگاہی حاصل کرنے کے لیے انھوں نے فارسی اور عربی کے اصل مخطوطات کو پڑھا تھا۔ انھوں نے صرف دو کتابوں کے مصنفین کا نام تحریر نہیں کیا البتہ باقی تحریر کنندگان کے نام فہرست مسودات میں دیئے گئے ہیں۔ اوپر دی گئی فہرست سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے زیادہ تر لندن سے اپنا تحقیقی مواد حاصل کیا تھا۔ مسودات کی فہرست کے آخر میں انھوں نے اپنانام شیخ محمد اقبال لکھنے کی بجائے صرف ایس۔ ایم۔ اقبال تحریر کیا تھا۔