Actions

رب کے حضور میں اقبال دعا مانگتے ہیں

From IQBAL

Revision as of 00:12, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

رب کے حضور میں اقبال دعا مانگتے ہیں

تیرے آسمانوں کے تاروں کی خیر
زمینوں کے شب زندہ داروں کی خیر
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا شوق میری نظر بخش دے
مرے دیدہء ترکی بے خوابیاں
مرے دل کی پوشیدہ بے تابیاں
امنگیں مری، آرزوئیں مری
امیدیں مری، جستجوئیں مری
یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
مرے قافلے میں لٹا دے اسے
لٹا دے ٹھکانے لگا دے اسے
ان کی تمنا ہے :
جوانو کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال وپر دے
خدایا آرزو مری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
اقبال نوجوانوں کو حکمت کلیمی سے نوازنا چاہتے ہیں۔ جان افروز ،سینہ تاب، نور بصیرت،جو شرط راہ ہے، وہ عطا کرنا چاہتے ہیں۔ تجلی کی فراوانی سے اپنے دامن کی وسعت میں جو کچھ انہوں نے سمیٹ لیا ہے۔
حیات بر نفس یا خودی کے بحر بے رواں میں شعور وآگہی کے جو در آبدار ان کو ملے ہیں۔وہ اپنے قافلے میں لٹانے کے لئے بے چین ہیں۔
وہ نوجوانوں کو وہ عرفان وہدایت بخشنا چاہتے ہیں ،جو یقین محکم اور عمل پیہم کی بنیادیں دے سکے۔وہ دانائے راز اور درویش خدا مست ہیں۔ جن کی ذوق نگاہ نے لا الہ الا ا لا اللہ سے تاب و تب جاودانہ پا کر ان کو شرق وغرب کی قیود سے آزاد کر دیا ہے۔
انسانیت جن مصائب سے دوچار ہے۔ اس کا حل مشرق کے پاس ہے نہ مغرب کے، مغرب کی سیاسی اور معاشرتی زندگی میں پریشان حالی کا باعث اس کی بنیادی حکمت سے محرومی ہے۔مشرق کی زبوں حالی کا باعث ترقی پذیر ماحول سے ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ ایک جانب تہذیب نو اور عصر حاضر کا طلسم ہوش ربا ہے تو دوسری طرف قدامت، تنگ نظری اور جمود۔یہی دو نسلوں میں تصادم ،کشاکش، اور خلیج کا سبب ہے۔
اس انتشار میں مصنوعی شیرازہ بندی کی کوشش کار گر نہیں ہو سکتی۔ ایسے میں ضرورت ہوتی ہے ۔تدریجی اور اساسی انقلاب کی، جس میں ترقی اور تبدیلی کے ساتھ ازلی اور ابدی حقیقت کار فرما ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس کائنات کی پہنائی میں اپنے آپ کو کھو بیٹھے ہیں۔ہم جزئیات جمع کرکے اس میں کل کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں۔جب ناکامی ہوتی ہے ،تو اسی خود ساختہ نگار خانہ میں اپنے مقام کا تعین کرلیتے ہیں۔ جو اس میں اعلیٰ ہونے کے باوجود ادنیٰ رہتا ہے۔ہیگل نے فکر محض کے ذریعہ حل پیش کیا۔مگر اس کا صدف گوہر سے خالی اور تصور سارا کا سارا خالی رہا۔مارکس کا دل مومن اور دماغ کافر ثابت ہوا۔اور عمل کو اخلاق اور وجدان سے ہم آہنگ نہ کر سکا۔ اقبال آفاق میں گم نہیں ،بلکہ آفاقی ان میں گم ہے۔وہ خودی کاترجمان ہو کر جس سر نہاں تک پہنچتے ہیں۔وہ انہیں حقیقت کا راز داں بنا دیتا ہے۔گرمیء گفتار اور شعلہ کردار بہار فطرت ہے۔ مگر بہار فطرت کردگار فطرت سے ہے۔زمانے کے نشیب وفراز ،گردش روز گار، طلسم روز وشب، نغمہ ء حیات کا زیر وبم سب کل یوم ھو فی شان کی تفسیر ہے۔ ترقی وارتقا کے پیچھے کن فیکون کی صدا ہے۔ساری کائنات رزم گاہ شوق وعمل، حدیث ناظرہ ومنظور ہے۔
حقیقت روئے خود را پردہ باف است
کہ او را لذتے در انکشاف است
بخلوت ہم بجلوت نور ذات است
میاں انجمن بودن حیات است
کثرت میں وحدت کی جلوہ نمائی ،زیست کی گہرائیوں میں نور ازل کی جھلک انسان کو من وتو کے باوجود من وتو سے پاک کر دیتی ہے۔ وہ رنگ ونسل ،قبیلہ،و وطینت سے بلند ہو جاتا ہے۔
ہمسایہ جبریل امیں، بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں
در گزر مثل کلیم از رود نیل
سوئے آتش گامزن مثل خلیل
نغمہ مردے کہ دارد بوئے دوست
مفت را می برد در کوئے دوست
تخلیق کا عمل ساری کائنات میں جاری وساری ہے۔ ذروں کی خود نمائی، تاروں کی تنک تابی، سبزہ وگل کے جوش نمو سے لے کر ذوق وشوق آرزو تک کہیں قیام وسجود میں ،کہیں رقص بسمل میں،ہر جگہ اس کی کار فرمائی ہے۔لذت انکشاف ہر جگہ ،ہر گام پر ہر سطح پر جاں فزا اور نظر نواز ہے۔ کہیں ٹھہراؤ اور رکاؤ نہیں، ایک ہی جذبہ ہے جو مظاہر فطرت اور کائنات کو قافلہ شوق کا مسافر بنا دیتا ہے۔ یہی جدت وایجاد،ترقی وانقلاب، تشکیل نو اور ارتقاء کی بنیاد ہے۔ اس سے انکار اپنی فطرت سے انکار ہے۔اور قانون الہیٰ سے انحراف ہے۔
آئین نو سے ڈرنا،طرز کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
جمود وتنگ نظری،کوتاہ بینی اور بے عملی ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔خواہ،ملا میں، صوفی میں، فلسفی میں،کلیسا میں ہو یا دیر وحرم میں۔
سب اپنے بتائے ہوئے زندان میں ہیں اسیر
خاور کے ثوابت ہیں کہ افرنگ کے سیار
پیران کلیسا ہوں کہ شیخان حرم ہوں
نے جدت گفتار ہے نہ جدت کردار
ہیں اہل سیاست کے وہی کہنہ خم وپیچ
شاعر اسی افلاس تخیل میں گرفتار
ان کے یہاں تو:۔
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے

کا معاملہ ہے۔

زندگی جز لذت پرواز نیست
آشیاں با فطرت اوساز نیست
ایشیا اس لیے پس ماندہ رہ گیا کہ اس کا قلب واردات نو بہ نو سے خالی،اور ذوق عمل سے محروم رہ گیا۔ اور اس کے روز گار اس دیرینہ در میں ساکن ویخ بستہ بے ذوق سفر ہو گئے۔ان کو سخت صدمہ ہے کہ مسلمانوں نے اجتہاد کے دروازے بند کرکے فکر وعمل کی راہیں مسدود کر دیں۔فقیہ شہر قارون لغت ہائے حجازی تو بن گئے،مگر وہ حرف لا الہ کو بھول گئے۔ جس سے سر چشمہ ہدایت پھوٹتا،اور ہر لمحہ نئی تازگی عطا کرتا ہے۔ قوم کی زندگی اور تازگی کا دار ومدار دل کی ان گہرائیوں اور دماغ کی جولانیوں پر منحصر ہے۔ جو نئے تصورات سے روشناس کر اکر تمدن کی بدلتی ہوئی ضروریات سے ہم آہنگ کرکے مزید ارتقا کے امکانات پیدا کر سکے۔ اسلام نے مشاہدہ اور تجربے کی دعوت دے کر استقرائی ذہن کا آغاز کیا۔ جو سائنسی طریقہ کار ہے۔

فطرت اور تاریخ پر دعوت فکر دے کر ان بنیادوں کی نشان دہی کی،جو قوموں کے عروج وزوال کا باعث ہیں۔

عقیدہ تو حید نے دین ولادین کی تقسیم کو ختم کرکے انسانی ارتقا کے لئے کائنات کو جولان گاہ اور حدیث کے مطابق مقدس مسجد بنا دیا تھا۔قرآن کا حیات آفرین پیغام ہر عہد اور عصر کے نئے تقاضوں کے مطابق اس کی ترقی میں حائل ہونے کی بجائے ،اس کو صحیح سمت عطا کرتا ہے۔

وہ ہر عہد کو نیا نظام دینے کو تیار ہے۔

بشرطیکہ ہم اس کو اپنے دل میں اتار کر دل کی گہرائیوں میں اتار کر اس کی روح کو پہچان لیں۔

وہ فرماتے ہیں

فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
چوں بجاں دررفت جان دیگر شود
جان چوں دیگر شود جہاں دیگر شود
مثل حق پنہاں وہم پیدا است ایں
زندہ وپائندہ وگویا است ایں
اندر او تقدیر ہائے شرق وغرب
سرعت اندیشہ پیدا کن چوں برق
چوں مسلمانان اگر داری جگر
در ضمیر خویش ودر قرآن نگر
صد جہاں تازہ در آیات اوست
عصر ہائے پیچیدہ در آنات اوست
بندہ مومن زآیات خدا است
ہر جہاں اندر برش مثل قبا است
چون کہن گردد جہانے دربرش
می دید قراں جہانے دیگرش
عالمے در سینہ ء ماگم ہنوز
عالم در انتظار قم ہنوز
اقبال اہل فکر ونظر کے لئے وہ عظیم شاہراہ کھولنا چاہتے تھے،جو ہمیں اس سفر مسلسل پر تیز گام کر دے۔جو تخلیق کا منشاء ہو۔ وہ افراتفری بے راہ روی سے محفوظ رہ کر واردات نو اور لذت پرواز سے آشنا کرنا چاہتے ہیں ،طلسم روزگار کے پیچھے نور کی وہ لہر ہے۔ جو راہوں کو ہموار کرکے سمت کا تعین کرکے منزل کا پتا دیتی ہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان تقدیر یزداں بن جاتا ہے۔جو جادہ بھی ہے اور رہبر بھی۔
وہ لکھتے ہیں دین اسلام ،نفس انسانی اور اس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا۔ بلکہ عمل کے لئے حدود معین کرتا ہے۔ ان حدود کے معین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانون الہیٰ ہے۔شریعت کوقلب کی گہرائیوں سے محسوس کرنے کا نام طریقیت ہے۔’’ یہ ہماری فطرت کے عین مطابق ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے جو ہنگامہ ء عالم کو رحمت اللعالمین سے ہم کنار کرکے جودت کردار اور جدت افکار کو تب وتاب جاودانہ عطا کرتی ہے۔
علامہ اقبال کی مناجات حقیقت میں ان کی آرزوؤں اور تمناؤں کا خلاصہ ہے۔ وہ تمنائیں اور آرزوئیں جن کی انہوں نے اپنی تمام عمر اپنے کلام اور بیان سے متنوع پیرایہ ء بیان اور مختلف اسلوب سے اشاعت کی ہے۔
علامہ اقبال نے اس بے پایاں سمندر کو مناجات کے کوزے میں سمو دیا ہے۔ اور قدسی صاحب نے اس کی تفسیر بیان کرکے علامہ کے افکار اور ان کی آرزوؤں سے ایک حد تک نئی نسل کو بہرہ یاب ہونے کا موقع دیا ہے۔