Aqal Go Aastan Se Door Nahi
From IQBAL
Revision as of 11:46, 26 May 2018 by Armisha Shahid (talk | contribs)
عقل گو آستاں سے دور نہیں
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
کیا غضب ہے کہ اس زمانے میں
ایک بھی صاحب سرور نہیں
اک جنوں ہے کہ باشعور بھی ہے
اک جنوں ہے کہ باشعور نہیں
ناصبوری ہے زندگی دل کی
آہ وہ دل کہ ناصبور نہیں
بے حضوری ہے تیری موت کا راز
زندہ ہو تو تو بے حضور نہیں
ہر گہر نے صدف کو توڑ دیا
تو ہی آمادہ ظہور نہیں
ارنی میں بھی کہہ رہا ہوں، مگر
یہ حدیث کلیم و طور نہیں