Actions

یورپی فلسفہ

From IQBAL

(ا)’’ گذشتہ پانچ صدیوں سے مسلمانوں کے مذہبی افکار عملی طور پر جامد ہوچکے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب کہ فلسفہ یورپ عالم اسلام سے متاثر ہوا تھا‘‘۔ (پہلاخطبہ) قرآن حکیم کی تعلیمات نے مسلمانوں کو مطالعہ انفس(مطالعہ باطن) کے ساتھ ساتھ مطالعہ آفاق کا بھی حکم دیا تھا اور دنیا میں بکھری ہوئی آیاتِ الہٰی یعنی مظاہر فطرت کے غور وفکر کو ارباب دانش اور صاحبانِ ایمان کی ایک اہم صفت بتایا تھا۔جب تک مسلمان صحیفہ فطرت کے حسین وجمیل اوراق کو بغور دیکھ کر اسرارِ حکمت اور رموزِ کائنات سے آگاہ ہوتے رہے،وہ مختلف علوم وفنون کے بانی اور مربی ثابت ہوئے۔اس مطالعہ کائنات نے اُنھیں دنیا کی دیگر اقوام کا معلّم بنادیا تھا۔ جب سیاسی غلامی‘کاہلی‘رہبانیت اور دیگر اسباب کے پیش نظر اُنھوں نے حکمت جوئی‘علم طلبی اور تحقیق پسندی کا دامن اپنے ہاتھوں سے چھوڑ دیا تو وہ ذہنی جمود‘فکری کم مائیگی،معاشرتی انحطاط اور سیاسی زوال کا بری طرح شکار ہوگئے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام میں جابجا عہد حاضر کے مسلمانوں کے فقدان اجتہاد‘تقلید پرستی‘ تنگ نظری اور ہمہ گیر پستی کا بڑے پرسوز انداز میں رونا رویا ہے۔ وہ جب اپنے اسلاف کے عملی موتی غیروں کے کتب خانوں میں دیکھتے ہیں تو وہ بے اختیار ہوکر پکارتے اُٹھتے ہیں:۔ ؎ گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

حکومت کا  تو کیا رونا کہ وہ  اک عارضی شے تھی      نہیں  دنیا  کے  آئین مسلّم  سے  کوئی  چارا
  مگر وہ علمِ  کے  موتی، کتابیں  اپنے  آباء کی       جو دیکھیں ان کو  یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا   

(کلیات اقبال،ص ۱۸۰) علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں دو اہم باتوں کو بیان کیا ہے۔ایک بات کا تعلق تو موجودہ مسلمانوں کے مذہبی افکار کے جمود سے ہے اور دوسری بات کا تعلق فلسفہ یورپ پر اسلامی اثرات سے ہے۔ ہم ان دونوں اُمور کے پس منظر کا کسی قدرے سراغ لگاتے ہیں۔اُنھوں نے جو کچھ یہاں کہا ہے ۔اُس کی تفصیل یہ ہے:۔ (ا) گذشتہ پانچ صدیوں سے مسلمانوں کے مذہبی افکار عملاً جمود پرستی کے آئینہ دار ہیں۔قرآن حکیم نے تو ہمیں کائنات کے حیرت انگیز اور بصیرت افروز مظاہر وکمالات کے مطالعہ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا: (۱)’’…لاٰیٰت لقوم یعقلون‘‘(الروم ۳۰:۲۴)( عقل مندوں کے لیے نشانیاں موجود ہیں)۔ (۲) ’’قل سیرُ و فیِ الارضِ فانظرُ واکیف بداُ الخلقُ‘‘(العنکبوت۲۹:۲۰)۔ ( اے رسولؐ آپ فرمادیجیے کہ زمین میں چل پھر کر غور سے دیکھو کہ خدا نے کس طرح آفرنیش کا آغاز کیا تھا)۔ (۳) وکُا یّن منِ اٰیتہ فیِ السّموٰات والارضِ یمّرون علیھا وھُم عنُہا مُعرِضُون‘‘( یوسف۱۲:۱۰۵)(آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی ایسی نشانیاں ہیں جن سے یہ لوگ منہ پھیر کر گذر جاتے ہیں)۔

  بے شمار قرآنی آیات میں ہمیں خدا تعالیٰ کی قدرت ِکاملہ اور حکمتِ بالغہ کی ظاہری نشانیوں پر غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔بدقسمتی سے ہم نے محض اُن کی تلاوت پر ہی تکیہ کیا ہے اور وہ بھی اُن کامطلب سمجھے بغیر۔کیا ان آیات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے ان ظاہری نشانات مثلاً چاند،سورج، ستاروں، بادلوں،ہوائوں، زمینی دفائن اور بحری خزانوں،عالم نباتات، اور عالمِ حیوانات وغیرہ کا بغور مطالعہ کرکے اپنی حکمت پسندی اور دانش مندی کو ثابت کرنا چاہیے؟ کیا یہ آیات تلاوت کے علاوہ ہم سے یہ مطالبہ نہیں کرتیں کہ ہم ان احکام خداوندی پر عمل بھی کریں؟ زندگی کی کامیابی کے لیے محض فکر و عقیدہ ہی کافی نہیں بلکہ عمل بھی ضروری ہوا کرتا ہے۔ کیا قرآن حکیم ایمان کے ساتھ ساتھ عمل کا مطالبہ نہیں کرتا؟جب کبھی فکر کو عمل سے الگ رکھا جاتا ہے تو پائیدار تہذیب وتمدن کی عمارت استوار نہیں ہوتی۔علامہ اقبالؒ نے یہاں اسی فکری جمود پر اظہار تاسف کیا ہے۔اس مذہبی اور فکری جمود کی کئی وجوہات ہیں…سیاسی انتشار‘معاشرتی انحطاط، سلاطین کا آزادی فکر وخیال سے خوف‘ عوام کی تقلید پسندی‘تنگ نظر علما کی مخالفت‘ مذہبی اجارہ داری کا جذبہ اور غیر اسلامی تصوف خصوصاً رہبانیت کا اثر وغیرہ۔تنگ نظر اور خو دغرض لوگوں نے اپنے آپ کو قرآنی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی بجائے قرآن حکیم کی ایسی تعبیر کی جو اُن کے مزعومات اور مفروضات کی تائید کرسکے۔ علامہ موصوف ؒ نے کیا خوب کہا ہے:

؎ خود بدلتے نہیں قرآںکو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق (ب)علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں دوسری بات یہ کہی ہے کہ ایک وقت ایسا تھا جب یورپی فلسفہ اسلامی نظریات کے زیر اثر آیا تھا۔اس ضمن میں اُنھوں نے بریفالٹ کی کتاب’’’تشکیل انسانیت‘‘ سے متعدد اقتباسات اپنے اس قول کی تائید میں پیش کئے ہیں۔مفکر اسلام اور ترجمان حقیقت علامہ اقبالؒ نے اس ضمن میں جو کچھ بھی کہا ہے اُس کا خلاصہ یہ ہے: (۱) سقراط اور اس کے شاگرد افلاطون نے عالمِ محسوسات اور خارجی دنیا کو لائقِ مطالعہ خیال نہیں کیا تھا۔اس کے برعکس اسلام نے خارجی دنیا اور محسوسات کے عالم کو بھی باطن کی طرح اہم‘مفید اور لازم قرار دیاتھا جس کااثر یہ ہوا کہ قدیم مسلمانوں نے تجرباتی علوم کی بنیاد رکھی جو یورپ میں بعد ازاں مقبول ہوئے تھے۔ (۲)قرآن حکیم نے کائنات میںحرکت اور ارتقا کا نظریہ پیش کیا جسے بعد میں یورپ میں اختیارکیاگیا۔اس سے پہلے بیشتر یونانی مفکرین نے جمود کائنات کا تصور پیش کیا تھا جو قرآنی تعلیمات اور جدید سائنس کے خلا ف تھا۔ (۳)قرآن حکیم نے اشیائے کائنات خصوصاً نباتات‘ حیوانات اور انسانوں کی زندگی کے اہم پہلوئوں کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی تھی۔ یورپی سائنس نے اس قرآنی پہلو کے زیر اثر ہی قدرتی علوم کو فروغ دیا۔ (۴)انگریز فلسفی راجر بیکن(۱۲۹۲۔۱۲۱۵ئ) کو جدید فلسفہ اور سائنسی طریق کار کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مسلّمہ تاریخی حقیقت ہے کہ فرانسس بیکن نے ہسپانوی مسلمان مفکرین سے ہسپانیہ کی درس گاہوں میں یہ فیض پایا تھا۔عرب مفکرین نے اس پر کافی اثر ڈالا تھا۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں: "And where did Roger Bacon receive his scientific training? In the Muslim universities of spain. Indeed part v of his 'Opus Maju's Practically a copy of Ibn-I-Haitham's Optics." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.129) (۵) نّظام اور امام غزالی ؒکے اُصول تشکیک کاپرتو ہمیں ڈیکارٹ کے طریق استدلال میں دکھائی دیتا ہے۔ (۶) ابن حزم اور ابن تیمیہ کی تصانیف نے مشاہدہ وتجربہ کو فروغ دیا تھا۔جدید یورپی فلسفہ میں تجربیت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ (۷)البیرونی نے ریاضیاتی انداز میں کائنات کے جمود پرستانہ نظریے کو ناکافی قرار دیا تھا۔ یہ چیزبھی یونانی فلسفے سے انحراف کا ثبوت ہے۔ (۸) جاحظ نے سب سے پہلے پرندوں کی زندگی میں ترکِ مکانی کی تبدیلیوں کو بیان کیا‘بعد ازاں ابن مسکویہ نے اسے مزید ترقی دے کر اپنا مشہور تصورِ ارتقا پیش کیا۔ (۹) قرآنی تعلیم کے زیر اثر ابن خلدون نے اپنا نظریہ تاریخ پیش کیا جس کی رُو سے اس نے تاریخ کو زمان میں ایک مسلسل تخلیقی حرکت قرار دے کر زندگی کی دوری شکل اور جبریت کی تردید کی۔اس لحاظ سے اسے برگساں کا پیش رو خیال کرنا چاہیے۔ اس بحث کا خاتمہ علامہ اقبالؒ کے ان الفاظ سے کیا جاتا ہے: "The anti-classical spirit of the modern world has really arisen out of the revolt of Islam against Greek thought." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.142)