Actions

قوم

From IQBAL

Revision as of 19:08, 24 June 2018 by Tahmina (talk | contribs) (Created page with "<div dir="rtl"> (۱)’’ کوئی قوم بھی مکمل طور پر اپنے ماضی کو نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ ماضی ہی سے اس کے...")
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ کوئی قوم بھی مکمل طور پر اپنے ماضی کو نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ ماضی ہی سے اس کے وجود کی تشکیل ہوتی ہے‘‘ (چھٹا خطبہ)

زندگی کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا نظریہ یہ ہے کہ اس کو حرکت وارتقا کے ساتھ خاص نسبت ہے۔ یہ کبھی جامد نہیں رہتی بلکہ ہر دم متغیر رہتی ہے۔زندگی اور جمود ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جہاں زندگی ہوگی وہاں حرکت کا وجودہوگا اور جہاں جمود ہوگا وہاں زندگی رُک جائے گی۔اس لحاظ سے جمود افراد اور قوم دونوں کے لیے پیام موت ثابت ہوتا ہے بقول علامہ اقبالؒ: ہستم اگرمی روم، گر نہ روم نیستم۔( یعنی اگر میںحرکت کروں تو میں زندہ ہوں اور اگر میں رُک جائوں تو یہ جمود میری موت کے مترادف ہوگا)۔قرآن حکیم نے خداتعالیٰ کی لگا تار جلوہ گری اور اس کے مسلسل عمل تخلیق پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ کہا ہے:’’ یزیُد فیِ الخلق مایشآئ‘‘(ناظر ۳۵:۱)(وہ اپنی مشّیت کے مطابق تخلیق میں اضافہ کرتا رہتا ہے )۔جب خالق کائنات ہر لمحہ کائنات میں اپنی مخلوقات میں اضافہ کرتا رہتا ہے اور نئے نئے واقعات کو جلوہ گر کرتا ہے تو پھر یہ دنیا تغیر وتبدل سے کیسے محروم ہوسکتی ہے؟زندگی کے بارے میں اکثر فلاسفہ کا یہ نظریہ ہے کہ زندگی ایک دوری حرکت ہے۔ اس لیے یہاںتکرار کا چکر پایا جاتا ہے۔قرآن اس تصور کو غلط قرار دیتا ہے۔اس کی رُو سے زندگی حرکی اور ارتقا پذیر ہے۔علامہ اقبالؒ زندگی اور تغیر کے باہمی تعلق کے علاوہ اس میں ثبات و دوام کے عنصر کے بھی زبردست قائل ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ثبات و دوام کے بغیر دائمی تغیر پر مبنی ہوکر زندگی کسی قسم کے دیرپا کلچر کو جنم نہیں دے سکتی۔شجر حیات کی شاخوںمیں ہوا کی جبنش تو لازمی ہے مگر اس کی جڑوں کا مضبوطی کے ساتھ زمین میں پیوست رہنا بے حد لازم ہے۔ اگر اس کی جڑیں مضبوط نہ ہوں تو اس کا وجود ہی ختم ہوجائے گا۔اسی طرح تغیر وثبات کے ساتھ زندگی کا ربط ہونا چاہیے۔اُن کی رائے میں اسلام نے ہمیں ابدی اور عالمگیر قوانین دئیے ہیں تاکہ ہم ان کی حدود میں رہتے ہوئے زندگی کی بدلتی حالتوں اور نئے مسائل کو بخوبی حل کرسکیں۔وہ زندگی اور قوم کے لیے تغیر وثبات کے اس لازمی اور مفید امتزاج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"----We should not forget that life is not change, pure and simple. It has within it elements of conservation also." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam,p.166)

   علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا اقتباس میں اس امر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کوئی قوم بھی تغیر واجتہاد کے اُصول پر چل کر اپنے ماضی کو کلیتہً نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ ماضی کی روایات کی کوکھ ہی سے اس نے جنم لیا ہوتا ہے۔ جس طرح بچہ بڑا ہوکر اپنی ماں کے وجود سے صرفِ نظر نہیں کرسکتا۔اسی طرح کوئی قوم بھی اپنی سابقہ روایات اور تاریخی ورثے کی قدر وقیمت سے منہ نہیں موڑ سکتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی کا مستقبل کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس کا حال اس کے ماضی ہی کا پروردہ ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ زندگی کو ایک اسی ناقابل تقسیم وحدت خیال کرتے ہیں ۔ قوموں کی ارتقائی حرکت بلا روک ٹوک آگے نہیں بڑھتی بلکہ یہ اپنے دوش پر ماضی کا بوجھ بھی اُٹھائے ہوتی ہے۔ہر مصلح اور مجدد کو قومی اصلاح کے وقت اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے قومی ماضی کی اہم اور بنیادی روایات،عقائد،اقدار اور مخصوص اطوار کو نظر انداز نہیںکرسکتا۔اگر اس نے اپنے ماضی سے مکمل طور پر رشتہ توڑدیا تو یہ قوم کے حق میں مفید اور دیرپا ثابت نہ ہوگا۔علامہ اقبالؒ ہی کے الفاظ میں قوم اور اُس کے اس باہمی اور ناگریز تعلق کی اہمیت ملاخطہ کیجیے۔وہ فرماتے ہیں:

"-----In any view of social change the value and function of the forces of conservatism cannot be lost sight of. It is with this organic insight into the essential teaching of the Quran that modern Rationalism taught to approach our existing intstitutions." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.166)

ماضی کی شاندار روایات اور اعلیٰ اقدارِ حیات کی اہمیت سے متعلق علامہ اقبالؒ کے مندرجہ ذیل اشعار اس بات کی مزید صراحت کرسکیں گے۔ وہ عہدِ ماضی کو کسی قوم کا حافظہ قرار دیتے ہوئے اپنی فارسی تصنیف ’’رموز بے خودی‘‘ میں فرماتے ہیں:
فرد   چوں  پیوند  اّیا مش گسیخت     شانہ ادراک  اُو دندانہ ریخت
قوم   روشن  از سوادِ  سرگزشت     خود شناس  آمد زیادِ سرگزشت  
سرگزشت  اُو گر  ا ز  یادش رود      باز   اندر  نیستی گم  می  شود

ربط اّیام است ما را پیرہن سوزنش حفظ روایات کہن (کلیات اقبال، ص۱۴۷)

    اگر کسی انسان کی یادداشت ہی ختم ہوجائے تو وہ اپنی شناخت اور شعور سے محروم ہوکر کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اسی طرح قومیں اپنے ماضی کو فراموش کرکے اپنی شناخت کو کھو بیٹھتی ہیں۔ شاعرِ مشرق اسلام کے شاندار ماضی سے اپنی قلبی اور ذہنی وابستگی کا اپنی نظم’’مسلم‘‘ میں یوں اظہار خیال کرتے ہیں:

؎ ہاں یہ سچ ہے، چشم بر عہدِ کہن رہتا ہوں میں اہل محفل سے پرانی داستاں کہتا ہوں میں

یاد  عہدِ رفتہ  میری  خاک  کو اکسیر ہے     میرا  ماضی  میرے  استقبال کی تفسیر ہے

سامنے رکھتا ہوں اس دورِ نشاط افزا کو میں دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں ( کلیات اقبال ، ص ۱۹۶)