Actions

فقہ

From IQBAL

Revision as of 01:03, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’آغاز اسلام سے لے کر عباسیوں کے ابتدائی دورِ حکومت تک ہمارے پاس قرآن حکیم کے علاوہ عملی طور پر کوئی مدوّن آئین نہیں تھا‘‘ (چھٹا خطبہ) اسلامی تاریخ خصوصاً تاریخِ فقہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فقہ یعنی دینی اُمور کی سوجھ بوجھ کا صحیح آغاز اُموی سلطنت کے اختتام پر ہوا تھا۔ یہی وہ دور تھا جس میں ہمارے جلیل القدر فقہائے اسلام مثلاً امام ابو حنیفہؒ(۵۰ھ سے۸۰ھ تک) امام مالکؒ(۹۳ھ سے۱۷۹ھ تک) امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام ابو یوسفؒ(۱۱۳ھ سے۱۸۳ھ تک) نے علمِ فقہ کے میدان میں نمایان ترین خدمات سرانجام دیں تھیں۔اس کے علاوہ اسی دور عباسیہ میں احادیث کے تمام مشہور مجموعے یعنی صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ،جامع ترمذی، سنن ابو دائو،مشکوٰۃ اور مئوطا امام مالک مرتب ہوئے۔اس لحاظ سے عباسی حکمرانوں کے ابتدائی دورِ حکومت تک ہمارے پاس قرآن حکیم کے علاوہ کوئی مدوّن قانون نہیں تھا۔اسلامی فقہ کی تدوین اور برتری کا اصل دور دوسری صدی ہجری سے لے کر چوتھی صدی ہجری کے نصف پر مشتمل ہے۔اُس زمانے میں فقہ نے مستقل علم کی حیثیت اختیار کی اور بڑے بڑے علما اور فقہا نے اُصول فقہ پر کتابیں لکھیں۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عباسیوں کا یہ عہد علمی ترقیات کا سنہری زمانہ تھا۔مختلف قوموں کے باہمی میل جول،توسیع سلطنت اور یونانی علوم کی ترویج و اشاعت نے لوگوں کے ذہنوں میں نئے نئے خیالات اور نئے مسائل کے حل کے جذبات کو جنم دیا۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جب تمدن،تہذیب اور کلچر میں تبدیلیاں رونما ہوجائیں تو اُس وقت نئے نئے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں جن کے تسلی بخش حل کے لیے ارباب فکر ودانش نئے نئے زاویہ ہائے نگاہ اختیارکرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔عباسی شاہوں کے اسی دور میں تدوین حدیث اور فن جرح وتعدیل کے قواعد بھی مکمل ہوئے۔

علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں تاریخِ اسلام کے ایک خاص دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نبی کریمؐ کے دور ہمایوں‘ خلافتِ راشدہ اور اُموی خلفا وسلاطین کے آخری دور تک مسلمانوں کے پاس فقہ اور حدیث کے علوم کا باقاعدہ کوئی ذخیرہ موجود نہیں تھا۔لامحالہ مسلمانوں کو اپنے سیاسی،معاشرتی،اقتصادی اور مذہبی معاملات کو طے کرنے کے لیے قرآن حکیم کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔اسی نقطہ نگا ہ سے یہ کتاب ہدیٰ ہی اسلامی آئین کا اوّلین اور واحد منبع تھی۔مسلمان نئے نئے مسائل حل کرنے کے لیے قرآن حکیم کی بنیادی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنایا کرتے تھے۔اُموی سلطنت کے خاتمہ پر عباسی خاندان برسرِ اقتدار آیا اور اُس عہد میں بڑے بڑے ائمہ اور فقہا پیدا ہوئے جنہوں نے قرآن حکیم کے علاوہ احادیث، قیاس، استحسان اور اجتہاد سے کام لے کر بڑھتی ہوئی تمدنی ضرورتوں کو پورا کرنے کی سعی بلیغ کی تھی۔اُس زمانے میں یونانی علوم کا چرچا ہوا اور بغداد کی عملی درس گاہ’’بیت الحکمت‘‘ نے اس ضمن میں بہت معیاری کام کیا۔ علامہ اقبالؒ کی رائے میں ہمارے بلند نظر، دُور اندیش اور حقیقت پسند فقہا نے زمانے کے نئے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کے اساسی اور ابدی قوانین سے رہنمائی حاصل کی اور نئے حالات سے پیدا شدہ مسائل کا حل پیش کیا۔ یہ فکری اجتہاد اور فقہی کاوش اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی آئین ہرگز جامد نہیں بلکہ یہ تغیر وثبات کا حسین امتزاج ہے۔قرآن حکیم چونکہ آخری کتاب ِہدایت ہے اس لیے اب اس کی اساسی تعلیمات کی روشنی ہی میں انسانو ںکے سارے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

(۲) پہلی صدی کے تقریباً نصف سے لے کر چوتھی صدی کے آغاز تک کم وبیش انیس فقہی مسالک موجود تھے‘‘ (چھٹا خطبہ) (۳)’’کیا فقہی مذاہب ومسالک کے بانیوں نے کبھی اپنے دلائل اور تعبیرات کو حرفِ آخر مامنے کامطالبہ کیا ہے؟ ہر گز نہیں‘‘۔ (ایضاً) علامہ اقبالؒ اسلام اور زندگی کو حرکی‘ارتقائی اور تغیر پذیر خیال کرتے ہوئے اسلامی آئین کو حرکت وارتقاء اور لچک کی خصوصیات کا حامل قرار دیتے ہیں۔خدا کی خلاقی صفت اب بھی اپنی جلوہ گری کے ذریعے نئے نئے مظاہر پیش کررہی ہے۔خدا کے بارے میں قرآن حکیم نے کہا ہے: ’’کُّل یوم ھُو فی شانِ‘‘(ہر روز نئی شان سے جلوہ گر ہوتا ہے)۔ اگر خدا ہر لمحہ نئی شان سے ظاہر ہورہا ہے تو پھر کائنات اور زندگی کے مختلف گوشے اس کی خلاقی صفت کے مظہر کیوں نہیں ہیں؟ اس کائنات رنگ وبو میں تغیر وارتقا کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ موجود ہے۔بقول علامہ اقبالؒ: ؎ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکوں (کلیات اقبال،ص۳۲۰)

  اس قانو ن تغیر وارتقا کے سبب دنیامیں نئے نئے واقعات رونما ہوکر نئے مسائل پیدا کرتے ہیں جن کے تسلی بخش حل پر ہماری سماجی زندگی کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار ہے۔اسلام چونکہ ہماری دنیا وآخرت کی کامرانی کا ضامن اور کامل کتاب ہدایت کا دعوے دار ہے اس لیے ہمیں اس کے اساسی نظریات کی روشنی میں ہی  پنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔علامہ اقبالؒ اسلامی آئین کی لچک اور وسعت پذیر ی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

"The assimilative spirit of Islam is even more manifest in the sphere of law." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.164)

  علامہ اقبالؒ کا کہنا ہے کہ عباسی حکمرانوں کے دور خصوصاً چوتھی صدی ہجری کے آغاز تک عالم اسلام میں کم وبیش انیس فقہی مسالک اور مذاہب موجود تھے۔اتنے فقہی مکاتب فکر کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے قدیم فقہا اور بانیان فقہ نے بڑھتے ہوئے تمدنی حالات اور نئے تہذیبی مسائل کو حل کرنے کی خاطر غور وفکر اور تدبر وتفکر سے خوب فائدہ اُٹھایا۔کیا قرآن حکیم نے جگہ جگہ ہمیں غور وفکر کی دعوت نہیں دی؟ کیا عقل ایک اہم عطیہ خداوندی نہیں؟ کیا ہمیں اسکے جائز استعمال کی اجازت نہیں دی گئی۔علامہ اقبالؒ نے تو انیس فقہی مکاتب خیال کا ذکر کیا ہے مگر اسی موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بون یونیورسٹی میں سامی زبان کا ماہر پروفیسر ہورٹن (Horten) کہتا ہے:

"From 800 to 1100, not less than one hundred systems of theology appeared in Islam, a fact which bears ample estimony to the elasticity of Islamic thought as well as to the ceaseless activity of our early thinkers." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p.164)

اب علامہ اقبالؒ یہاں ایک اور سوال اُٹھاتے ہیں کہ کیا ان مختلف فقہی مکاتب فکر کے بانیوں نے کبھی اپنے نتائج فکر ی کو حرفِ آخر تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا؟وہ اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے قدیم فقہا نے ایک ہی مسلک کے بارے میں اپنی اپنی رائے کا اظہار بڑے خلوص کے ساتھ کیا تھا اور اُنھوں نے کبھی اپنی رائے کو دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش نہیں کی تھی۔وہ اپنی وقتی رائے کو حرف ِ آخر کا درجہ نہیں دے سکتے تھے کیونکہ تمام حقائق حیات کا کّلی اور یقینی علم صرف خدا تعالیٰ کے پاس ہے اس لیے قرآن حکیم نے انسانی علم کو قلیل اور محدود قرار دیتے ہوئے کہا :۔’’وما اُوتیتم منِ العلمِ اِلاّٰ قلِیلاً ‘‘  (الاسراء ۱۷:۸۵)، (تمھیں تو قلیل علم دیا گیا ہے)۔

(۳) ’’اب زمانہ بدل چکا ہے اور آجکل دنیائے اسلام… نئی قوتوں سے دوچار اور متاثر ہے۔اندریں حالات میرے خیال میںفقہ کی خاتمیت میں یقین رکھنا معقول نہیں‘‘ ۔ ( چھٹا خطبہ)

اس امر سے انکار محال ہے کہ’’قانون تغیر‘‘ کی رُو سے تمام کائنات میں تغیر وتبدل کا عمل جاری رہتا ہے۔لمحہ بہ لمحہ ماضی،حال اور مستقبل میں بدلتا رہتا ہے۔جوئے حیات ہر وقت رواںدواں رہتی ہے اس لیے اس کی گذشتہ لہر دوبارہ واپس نہیں آتی۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ بیرونی تبدیلیاں لانے سے پہلے ہمیں اپنے دل ودماغ میں بھی تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔علامہ اقبالؒ کی رائے میں زندگی ہر دم متغیر، حرکت پذیر اور آگے بڑھتی رہتی ہے کیونکہ ماضی حال میں واپس نہیں آسکتا:۔ 
 ؎ جو تھا نہیں ہے،جو ہے نہ ہوگا۔
  علامہ اقبالؒ اسلام کو ایک جاندار، قابل عمل،حرکی اور لچک دار ضابطہ حیات اور مجموعہ قوانین سمجھتے ہیں ۔اس لیے وہ بار بار زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور نئے تقاضوں کے مطابق ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نیا اندازِفکر اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔وہ بجا کہتے ہیں:

؎ آئین نو سے ڈرنا،طرز ِکہن پہ اُڑنا منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

  وہ اپنی ایک نظم’’ اجتہاد‘‘ میں تقلید پرستی کی مذمت کرتے ہوئے اجتہاد کی اہمیت کو یوں اجاگر کرتے ہیں:

؎ ہند میں حکمت دین کوئی کہاں سے سیکھے نہ کہیں لذّت کردار نہ افکار ِعمیق

حلقہ شوق  میں وہ  جرأت اندیشہ کہاں    آہ ! محکومی  و تقلید  وزوالِ تحقیق

( کلیات اقبال،ص۴۸۴) علامہ اقبالؒ نے اپنے مندرجہ بالا قول میں جن اُمور کا تذکرہ کیا ہے،اُن کی کسی قدر یہاں وضاحت کی جاتی ہے۔ اُنھوں نے اس میں ان باتوں کی طرف ہماری توجہ دلائی ہے: (الف ) اب زمانہ بدل چکا ہے اور مسلم ممالک نئی قوتوں سے دوچار اور متاثر ہیں۔ ابھی بیان کیا جاچکا ہے کہ زمانہ ہمیشہ حرکت وارتقا کے اُصول کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔موجودہ زمانے کی نئی نئی ایجادات اور حیرت انگیز اکتشافات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اب زمانہ کافی بدل چکا ہے۔وہ کونسا شعبہ زندگی ہے جس میں جدت ِفکر اور تازگی خیال کے اثرات نمایاں نہیںہیں۔اب گھوڑوں اور اونٹوں پر سفر کرنے کی بجائے زیادہ تر لوگ کاروں‘ ٹرینوں اور ہوائی جہازوں کو استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح ٹیلی فون، ٹیلی ویثرن، بجلی،گیس اور کمپیوٹر نے مشینی زندگی کی برتری اور مقبولیت کا ثبوت بہم پہنچایا ہے۔علاوہ ازیں اب تیغ وسنان کی بجائے نئے نئے آلات جنگ معرضِ وجود میں آچکے ہیں۔زمان ومکان کی دُوری اب کوئی خاص دشواری پیش نہیںکرتی۔زمین پر بسنے والا انسان اب چاند پر بھی اپنی کمند ڈال چکا ہے۔ایسے نئے حالات میںمسلم ممالک کا بھی متاثر ہونا لازمی اور قدتی امر ہے۔علامہ اقبالؒ کی نگاہ میں اب مسلمانوں کو بھی بدلتے ہوئے حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے علمی دوڑ میں حصہ لینا چاہیے وگرنہ اُنھیں بعد ازان کفِ افسوس ملنا پڑے گا۔کیا یہ امرِ واقعی نہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے رہ کر مسلم ممالک غیروں کے محتاج،غلام اور کاسہ لیس بن کر رہ گئے ہیں؟ اب تواُنھیں اپنے دفاع کے لیے بھی غیروں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔غیر مسلم ممالک نے اُنھیں مختلف قوموں اور متحارب گروہوں میں تقسیم کرکے اُن کی مذہبی اور سیاسی وحدت کو پارہ پارہ کردیا ہے۔ایران وعراق کی حالیہ باہمی جنگ،افغانستان میں روسی جارحیت اور کشمیر وفلسطین و بیروت میں خون ِمسلم کی ارزانی ہماری علمی پسماندگی،سیاسی بے چارگی‘اقتصادی غلامی اور ذہنی محکومیت پر دلالت کرتے ہیں۔ان نئی قوتوں سے ہم بری طرح دوچار اور متاثر ہیں۔ (ب) علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ موجودہ بین الاقوامی واقعات اور سائنسی ترقیات کے پیش نظر فقہ کی خاتمیت میں یقین رکھنا اور اجتہاد سے کام نہ لینا حماقت کے سوا کچھ بھی نہیں۔کیا ائمہ اربعہ(امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، اور امام شافعیؒ ) اور اُن کے شاگردوں نے مختلف فقہی، بحثوں اور کئی مکاتب ِفکر کے قیام سے یہ ثابت نہیں کردیا تھا کہ بدلتے ہوئے حالات ومسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں اسلامی آئین کے چار اہم سرچشموں(قران، احادیث مبارکہ، اجماع اور قیاس) کی طرف رجوع کرنا چاہیے؟کیا اُنھوں نے اجماع، قیاس اور استحسان کے اُصول اپنا کر انسانی فکر وتدبر کی اہمیت وافادیت کا اعتراف نہیں کیا تھا ؟ کیا اُنھوں نے کبھی اپنی رائے کو حرفِ آخر کا درجہ دیا تھا؟ہرگز نہیں۔علامہ اقبالؒ کو بے حد افسوس ہے کہ بعد کے زمانے کے سست، کاہل، کم عقل، تنگ نظر، جمود پسند، تقلید پرست اور شخصیت پرست علما نے یہ کہا کہ اب اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔کیا چاروں اماموں نے اپنے محضوص حالات اور نئے تمدنی مسائل کو مد نظر رکھ کر ان کا اسلامی حل تلاش کرنے کے لیے ذاتی غور وفکر سے رہنمائی حاصل نہیں کی تھی؟کیا موجودہ دور کے نئے حالات کے لیے ہمیں بھی وہی طریق کار اختیار نہیں کرنا چاہیے؟اگر ہم نے خواہ مخواہ فکر ی جمود پر اصرار کیااور قرآنی تعلیمات اور اُسوئہ رسول کریمؐ کی روشنی میں غور وفکر سے کام نہ لیا تو ہمیں مزید رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا۔اس بارے میں حضرت علامہ ؒ کے درج ذیل ارشادات کا مطالعہ بصیرت افروز اور حقیقت کشا ثابت ہوگا۔وہ فرماتے ہیں: (1)"The only course open to us is to approach modern know- -ledge with a respectful but independent attitude and to appreciate the teachings of Islam in the light of that know- -ledge, even though we may be led to differ from those who have gone before us." (The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam, p.168) (2)"The teaching of the Quran that life is a process of progres- -sive creation necessitates that each generation, guided but unhampered by the work of its predecessors, should be permitted to solve its own problems." (The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam, p.168) (3)"Spiritually we are living in a prison house of thoughts and emotions which during the course of centuries we have woven round ourselves." (Presidential Address,21march 1932)

علامہ اقبالؒ نے اجتہاد فکر ونظر کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآنی تعلیمات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس بارے میں سورئہ عنکبوت کی یہ آیت ملاخطہ ہو:’’والّذین جا ھُد و فِینا لنھدِ ینّھُم ُسلبنا‘‘ )اور جو لوگ ہمارے لیے جدوجہد کرتے ہیں ہم اُنھیں اپنا راستہ ضرور دکھاتے ہیں)۔جدوجہد کا تعلق صرف عسکری جہاد ہی سے نہیں بلکہ زندگی کے نئے معاملات میں قرآنی رہنمائی کے لیے کوشش کرنا بھی اس میں شامل ہے۔اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے اس میں زندگی کے تمام معاملات… معاشرتی‘معاشی سیاسی‘عسکری اور علمی اُمورکے لیے بھی رہنمائی کا سامان موجود ہے۔نبی کریمؐ کا بھی ارشاد ہے:’’ من یُّردِ اﷲ ُ بہِ خیراً یُفقِّھہ فیِ الّذِین‘‘  ( اﷲ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے وہ اُسے دین کا فہم وشعور عطا کرتا ہے)۔ لفظ فقہِ کا لغوی مطلب ہے فہم وادراک اور سوجھ بوجھ لیکن اس کا اصطلاحی مفہو م ہے’’شرعی احکام کا علمِ‘‘۔ فقہ تو دین اور قرآنی تعلیمات کا فہم ہے مگر ہمارے فقہا نے اسے شریعت کے فروغی اُمور تک محدود کردیا ہے۔ تفقّہ فی الدین واقعی خدا کی طرف سے عظیم خیر ہے اس لیے اسے استعمال نہ کرنا خدائی نعمت کے کفر کے مترادف ہے۔