Actions

علم دوستی

From IQBAL

Revision as of 18:35, 27 June 2018 by Zahra Naeem (talk | contribs)

علم دوستی

اقبال کی نمایاں ترین خصوصیت جو ان مکاتیب سے سامنے آتی ہے ان کی علم دوستی ہے۔ خالص مذہبی مباحث سے قطع نظر بھی کرلیجیے تو اقبال ایک علم دوست اور علم پرور انسان نظر آتے ہیں اور حالات سازگار ہوتے تو یہی ان کا محبوب مشغلہ ہوتا۔ حکمائے اسلام کی بحث زمان اور مکان کی حقیقت تلاش کی جا رہی ہے۔ متکلمین نے علم مناظر و رویا کی رو سے خدائے تعالیٰ کی رویت کے امکان سے جو بحث کی ہے اس کا سراغ لگایا جا رہا ہے۔ حال کے روسی علماء کی تصانیف کی جستجو کرائی جا رہی ہے۔ اور ان کے ترجمہ کی سفارش کی جا رہی ہے۔ تصوف اور حافظ پر سیر حاصل ریسرچ اور تحقیق علمی کا اہتمام کیا جا رہا ہے مسلمانوں نے منطق اسقرائی پر جو کچھ خود لکھا ہے اوریونانیوں کی منطق پر انہوںنے جو اضافے کے ہیں۔ اس کے متعلق خود تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ دارالمصنیفن کی طرف سے ہندوستان کے حکما ئے اسلام پر ایک کتاب لکھنے کی فرمائش کی جا رہی ہے۔ الغزالی سے متعلق ریسرچ پر مشورہ دیا جا رہا ہے۔ نادر مخطوطات کی فہرست کی تیاری کا کام کرایا جا رہا ہے۔ ہندوستان اور بیرون ہند میں کتابوں کی تلاش جاری ہے۔ کبھی فارسی کا کورس تیار کرنے کا خیال ہے۔ غرض علم دوستی علامہ کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی۔ اسی علم دوستی کا نتیجہ ہے کہ ان کے مکاتیب کے سطر سطر سے اہل علم کا احترام پایا جاتاہے جس کی مثالیں صفحہ صفحہ پر بکھری نظر آتی ہیں۔

                 *معرکہ اسرار و رموز یا شریعت و طریقت کی جنگ*

شریعت اور تصوف

لسان العصر کو لکھتے ہیں:

’’کئی صدیوں سے علماء اور صوفیا میں طاقت کے لیے جنگ ہو رہی تھی جس میں آخر کار صوفیا غالب آئے یہاں تک کہ اب برائے نام علماء جو باقی ہیں جب تک کسی خانوادے میں بیعت نہ لیتے ہوں ہر دل عزیز نہیں ہو سکتے۔ یہ روش گویا علماء کی طرف سے اپنی شکست کا اعتراف ہے۔ مجدد الف ثانی عالمگیر اور مولانا اسمعیل شہید رحمتہ اللہ علیہم نے اسلامی سیرت کے احیاء کی کوشش کی مگر صوفیا کی کثرت اور صدیوں کی جمع قوت نے اس گروہ احرا ر کو کامیاب نہ ہونے دیا‘‘۔ صوفیا نے لسان العصر کی تائید و اعانت حاصل کرنے کے لیے اسرار کی طرف انہیں توجہ دلائی اور انہوںنے تصوف اور بالخصوص حافظ کے متعلق علامہ کے اعتراضات کو عدم پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور اقبا کو اس کے متعلق اطلاع دی۔ اقبال لسان العصر کو پیر و مرشد مانتے تھے اور کہتے تھے کہ پیر و مرشد سے کسی مرید بے ریا کا اختلاف بے حد قلق انگیز ہوتا ہے لیکن مرید نے پوری جرات اور مردانگی سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا علامہ لکھتے ہیں: ’’میں نے خواجہ حافظ پر کہٰں یہ الزا م نہیں لگایا کہ ان کے دیوان سے مے کشی بڑھ گئی ہے۔ میرا اعتراض حافظ پر بالکل اور نوعیت کا ہے اسرار خودی میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ایک لٹریری نصب العین کی تنقید تھی جو مسلمانوں میں کئی صدیوں سے پاپولر ہے۔ اپنے وقت پر اس نصب الععین سے ضرور فائدہ ہوا ۔ اس وقت یہ غیر مفید ہی نہیں بلکہ مضر بھی ہے۔ خواجہ حافظؒ کی ولایت سے اس تنقید میں کوئی سروکار نہ تھا۔ نہ ان کی شخصیت سے۔ نہ اشعار میں مے سے مراد وہ مے ہے جو لوگ ہوٹلوں میں پیتے ہیں بلکہ اس مے سے مراد وہ حالات سکر ہے جو حافظ کے کلام سے بحیثیت مجموعی پیدا ہوتی ہے چونکہ حافظ دلی اور عارف تصور کیے گئے ہیں اس واسطے ان کی شاعرانہ حیثیت عوام نے بالکل نظر انداز کر دی ہے اور میرے ریمارک تصو ف اور ولایت پر حملہ کرنے کے مترادف سمجھے گئے ہیں‘‘۔ اسی خط میں حضرت اکبر سے التجا ئے انصاف کرتے ہیں: ’’معاف کیجیے گا آپ کے خطو ط سے یہ معلوم ہوا ہے کہ (ممکن ہے غلطی پر ہوں) کہ آپ نے مثنوی اسرار خودی میں صرف وہی اشعار دیکھے ہیں جو حافظ کے متعلق لکھے گئے ہیں باقی اشعار پر شاید نظر نہیں فرمائی۔ کاش آپ کو ان کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی کہ آپ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محفوظ رہتے۔‘‘ اس کے بعد ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’آپ مجھے تناقض کا ملزم گردانتے ہیںَ یہ بات درست نہیں ہے بلکہ میری بدنصیبی ہے یہ کہ آپ نے مثنوی اسرار خودی کو اب تک پڑھا نہیں ہے۔ میں نے کسی گزشتہ خط میں عرض کیا تھا کہ ایک مسلمان پر بدظنی کرنے سے محترز رہنے کے لیے میری خاطر ایک دفعہ ضرور پڑھجائیے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو یہ اعتراض نہ ہوتا‘‘۔ اعتراضات کی نوعیت اور جواب خطوط کی تفصیل سے موجود ہے۔