Actions

عقل و خرد

From IQBAL

Revision as of 01:03, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’اسلام میں عقلی بنیادوں کی تلاش کا سلسلہ رسول کریمؐ کی ذاتِ بابرکات سے شروع ہوتا ہے۔وہ ہمیشہ یہ دعا مانگا کرتے تھے الّٰلھم ارِنیِ حقائق الاشیا ء کما ھی (اے اﷲ! تو مجھے چیزوں کی اصلیت سے آگاہ کر)۔ (پہلا خطبہ) فلسفہ‘سائنس اور دین ومذہب کی ساری تگ ودو کا اوّلین مقصد تلاش حقیقت اور صداقت طلبی ہے۔اگرچہ تینوں کی منزل مقصود ایک ہی ہے مگر وہ مختلف ذرائع اختیار کرتے ہیں۔سائنس محسوسات کے ذریعے خارجی حقائق کو دریافت کرنے کا نام ہے جبکہ فلسفہ ظن وتخمین پر مبنی عقل استدلالی ہے۔اس کے برعکس حقیقی مذہب ظاہر وباطن‘مادہ وروح‘ دنیا وآخرت اور جذبہ و فکر کا دلکش امتزاج ہوتا ہے۔فلسفہ محض عقل وخرد کا زنّاری ہوتا ہے لیکن مذہب کا زیادہ تر انحصار اعمال و عقائد پر ہوتاہے۔عمل وعقیدہ کے ساتھ ساتھ یہ عقل ِ انسانی کی جائز اہمیت کو بھی تسلیم کرتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے اپنے ان مندرجہ بالا الفاظ میں اسلام اور عقل کو ایک دوسرے کا مخالف قرار نہیںدیا بلکہ اُنھیں ایک دوسرے کا معاون کہا ہے۔اس ضمن میں اُنھوں نے ہادی اعظم حضرت محمد ﷺ کی ایک دعا کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام میں عقل کی افادیت اور حقیقت طلبی کی اہمیت پر تبصرہ کیا ہے۔ اسلام کے بارے میں جہاں اور غلط فہمیاںپیدا کی گئی ہیں‘وہاں یہ غلط تصور بھی عام کردیا گیا ہے کہ اسلام میں عقل کو کوئی دخل نہیں۔اپنوں کی جہالت اور غیروں کے تعصب وعناد نے اس غلط فہمی کو پھیلانے میں نمایاںکردار ادا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم کی متعدد آیات میں ہمیں غور وفکر،تدبر و تعقل، مطالعہ تاریخ،مشاہدہ کائنات اور حوادثِ زمانہ کے عمیق ادراک کی تلقین کی گئی ہے۔ کیا یہ امر واقعی نہیں ہے کہ تسخیر کائنات سے قبل علِم کائنات بھی ضروری ہوا کرتا ہے؟ ظاہر ہے کہ علم کائنات حاصل کرنے کے لیے مطالعہ‘مشاہدہ اور غور وفکر کو بروئے کار لائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔قرآنی تعلیمات کے علاوہ رسول کریمؐ کے ارشادات نے بھی عقل وفکر کے جائز استعمال پر کافی زور دیا ہے۔ اس بارے میں علامہ اقبال نے نبی کریمؐ کے ان مبارک اور فکر انگیز الفاظ کا یہاںحوالہ دیا ہے جن سے ہمیں اشیائے کائنات کے مطالعہ اوران سے واقفیت کی خواہش کا پتہ چلتا ہے۔نبی کریمؐ کی ذات باقی انسانوں کی نسبت حقائق حیات سے زیادہ باخبر ہوا کرتی ہے۔عام انسان تو عقل سست رفتار کی بدولت حقائق کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں مگر نبی کریم ﷺ کو وحی والہام کے فوری اور یقینی ذریعے سے مطلوبہ حقا ئق معلوم ہوجاتے ہیں۔اس وسعت علم کے باوجودہ نبی کریمؐ خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اُنھیں چیزوں کی اصلیت سے آگاہ کردے۔اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے علامہ اقبالؒ بجا کہتے ہیں کہ اسلام میں عقل وخرد کی اہمیت پر اصرار کا آغاز خود رسول کریم ؐ کی ذاتِ بابرکات سے ہوا۔ بعد میں مسلمان حکماء اور فلاسفہ نے اطاعت رسول ؐ کا ثبوت دیتے ہوئے علم وحکمت کے میدان میں نمایاں کارنامے سرانجام دے کر اہل دنیا کو حیران کردیا تھا۔علامہ اقبال نے درست ہی کہا تھا:۔ ؎ بتائوں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے؟ یہ ہے نہایت اندیشہ وکمالِ جنوں (کلیات اقبال،اُردو،ص۵۱۰) (۲) کانٹ کی’’تنقید عقل محض‘‘ نے انسانی عقل کی حدود کو واضح کرتے ہوئے عقلیت پسندوں کے کام پر پانی پھر دیا ہے‘‘ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ کے فلسفیانہ نظام کا ایک پہلو عقل پرستی(Rationalism) کی تنقید سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ وہ روز مرہ کی زندگی کے لیے عقل وخرد کے عام استعمال کے تو قائل تھے مگر وہ اسے حق وباطل کا واحد اور مکمل معیار نہیں مانتے تھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن حکیم نے غور وفکر اور تدبر وتعقل کا حکم دیاہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے عقل پر وحی والہام کی برتری پر بار بار زور دیا ہے۔انسانی عقل تمام مرئی اور غیرمرئی حقائق کے بارے میں ہمیں یقینی اور کامل معلومات بہم نہیں پہنچاسکتی۔ مادی دنیا کے کئی اہم اُمور ابھی تک ا س سے طے نہیں ہوسکے چہ جائیکہ وہ مابعد الطبیعیاتی اُمور،عالم آخرت کے احوال اور روحانی حقائق کو منکشف کرے۔علاوہ ازیں عقل کے پیش کردہ افکار ونظریات ہر دور میں تغیر پذیر ہوکر اپنی ناکامی کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔اس کے برعکس وحی والہام پر مبنی حقائق تغیر وثبات کے حامل ہوتے ہیں۔علامہ اقبالؒ عقل وخرد کو بھی انکشافِ حقیقت کا ذریعہ خیال کرتے ہیںلیکن عقل جن حقائق کو عرصہ دراز کے بعد دریافت کرسکتی ہے وحی اُنھیں پہلے ہی سے ظاہر کردیتی ہے۔شاعر مشرقؒ نورِ عقل اور نورِ دل کے فرق کی طرف یوں اشارہ کرتے ہیں: ؎ عقل گو آستاں سے دُور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں دل بینا بھی کر خدا سے طلب آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں (کلیات اقبال،(اُردو) ص۳۳۵) جرمنی کے ایک عظیم اور شہرت یافتہ فلسفی کانٹ(۱۸۰۴۔۱۷۲۴ئ)نے اپنی مایہ ناز کتاب’’تنقید عقل ِمحض‘‘ لکھی تھی جو۱۷۱۸ء میں شائع ہوئی۔اُس نے اس کتاب میں اشیا کی اصلیت اور اُن کی ظاہری حالت کے درمیان فرق واضح کرنے کے علاوہ حسّی معلومات اور ظاہری تجربات کے عدم تیقّن پر بھی روشنی ڈالی تھی۔اس کے فلسفیانہ افکار کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ محسوسات کے ذریعے حاصل شدہ معلومات حقیقی اور یقینی نہیں اور محسوسات سے ماورا ذریعہ علم ہی حقیقی اور یقینی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ عقل پرست اپنے نظریات کی بنیاد پر حوا س سے حاصل معلومات رکھتے ہیں۔کانٹ نے اس ذریعہ علم ہی کو غیر یقینی قرار دے کر عقل پرستوں کی عمارت کو مہذم کردیا ہے۔عقل پرستوں نے عقل ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا تھا۔وہ اُسے معیار حق و صداقت قرار دیتے ہوئے اُن حقائق کو تسلیم کرنے سے گریزاں تھے جو حواس اور عقل کی حد میں نہیں آتے۔ کانٹ نے اٹھارہویں صدی میں عقلیت کے خلاف جو قدم اٹھایا تھا،اس کے دیر پا اثرات رونما ہوئے ہیں۔اس سے چند صدیاں قبل عالم اسلام میں بھی امام غزالیؒ نے فلسفہ یونان کی پروردہ عقل پرستی کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرکے مذہبی حقائق کا اثبات کیا تھا۔ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کانٹ عقل پرستی کے قلعہ کو مسمار کرنے کے بعد مذہب میں پناہ نہ لے سکا مگر امام غزالیؒ عقل کی گرفت سے آزاد ہوکر تصوف کی دنیا میں داخل ہوگئے تھے۔علامہ اقبالؒ نے کانٹ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی کتاب’’پیامِ مشرق‘‘ میں یہ کہا ہے: ؎ فطرتش ذوقِ مئے آئینہ فامے آوُرد ازشبستانِ ازل کو کبِ جامے آورد (کلیات اقبال،فارسی،ص ۳۸۱)