Actions

صُوفی

From IQBAL

Revision as of 01:03, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ جب صوفی کو خدا کی ذات سرمدی کے ساتھ گہری وابستگی نصیب ہوجاتی ہے تو اُس وقت اُسے زمانِ مسلسل کے عدم تحفظ کا احساس ہوتاہے۔اس کے باوجود اُس کا زمانِ مسلسل کے ساتھ تعلق مکمل طور پر منقطع نہیں ہوتا‘‘۔ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ نے اپنے اس قول میں صوفیانہ واردات اور وجدانی کیفیات پر مشتمل روحانی تجربات کی چند اہم خصوصیات کو بڑے ہی مختصر انداز میں بیان کیا ہے۔اُن کی رائے میں باطنی تجربات بھی خارجی تجربات کی مانند حصول علم کا مفید اور حقیقی ذریعہ ہیں کیونکہ قرآن حکیم نے ’’آفاق‘‘ کے علاوہ’’انفس‘‘ کو بھی اپنی نشانیوں کا حامل قرار دیا ہے۔ خداوند تعالیٰ ہر لمحہ اپنی تجلیات کو ظاہر کرتا ہے۔اس کی قدرت کاملہ،حکمت بالغہ،رحمت عامّہ اور ربوبیت تامّہ کی حیرت انگیز نشانیاں مادی دنیا میں بھی عیاں ہیں اور روحانی دنیا میں بھی۔حضرت علامہ اقبالؒ کی رائے میں جس طرح حواس کے ذریعے ہمیں خارجی اور مادی دنیا کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں اسی طرح قلبی واردات اور وجدانی لمحات کی وساطت سے ہمیں باطنی اور روحانی دنیا کا علم بھی حاصل ہوتا ہے۔ وہ خارجی اور سائنسی علم کی طرح باطنی اور صوفیانہ واردات کو بھی حقیقی اور مفید خیال کرتے ہیں۔اُنھوںنے اپنے مندرجہ بالا قول میں جو کچھ بیان کیا ہے‘ اس کے اہم نکات یہ ہیں: (الف ) علامہ اقبالؒ قلبی وارادات کی بنا پر صوفی کی خدا کے ساتھ گہری وابستگی اور قرب کے امکان کو تسلیم کرتے ہیں۔ جب صوفی جذب وشوق کی حالت میں ہو تو اسے اُس وقت خدا کے ساتھ وقتی طور پر مضبوط وصال کا شدید احساس ہوتا ہے۔چونکہ یہ تجربات شخصی نوعیت کے ہوتے ہیں اس لیے وہ ناقابل تجزیہ اور ناقابل ابلاغ ہیں۔ (ب)خدا کے ساتھ گہری وابستگی کے وقت صوفی کو جذب وشوق کی اس حالت میں زمانِ مسلسل(serial time) کے عدم حقیقت کا احساس ہوتا ہے۔ زمانِ مسلسل دنوں، مہینوں اور سالوں میں تقسیم کیا جاتا ہے لیکن زمانِ حقیقی میں روز وشب،ماہ وسال،ماضی،حال اور مستقبل کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔ صوفی پر جب وجد اور ذوق کی حالت طاری ہوجاتی ہے تو و ہ شدت احساس کے تحت فکر کو فراموش کردیتا ہے۔ایسی حالت میں اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے خارجی وقت حقیقت نہیں رکھتا۔ خدا کے ساتھ گہری وابستگی اسے چند لمحات کے لیے زمانِ جاودانی کا احسا س دلاتی ہے اس لیے اسے زمان مسلسلِ کی کچھ بھی خبر نہیں ہوتی۔علامہ اقبالؒ دیدار الہٰی کو کمال ِزندگی اور زمان ومکان سے بے نیازی کا سبب گردانتے ہوئے کہتے ہیں: ؎ کمال زندگی دیدارِ ذات است طریقش رستن از بند جہات است (کلیات اقبال،(فارسی)ص ۵۵۹) (ج) صوفی جذب ومستی کے عالم میں جب خدا کا قرب اور معیت محسوس کرتا ہے تو اُسے عارضی طور پر زمان ِ مسلسل کے غیر حقیقی ہونے کا احسا س ہوتا ہے۔ خدائی قرب کے عارضی مگر فیضانی لمحات گزرنے کے بعد دوبارہ اُسے زمانِ مسلسل سے واسطہ پڑتا ہے۔حیات دنیوی میں ہم تسخیر زمان کے باوجود مکمل طور پر زمانِ مسلسل کی حدود سے باہر نہیں جاتے۔