Actions

سائنس اور مذہب

From IQBAL

Revision as of 01:03, 20 July 2018 by Iqbal (talk | contribs) (Reverted edits by Ghanwa (talk) to last revision by Tahmina)
(diff) ← Older revision | Latest revision (diff) | Newer revision → (diff)

(۱)’’ ان حالات میں مذہبی حقائق کی سائنسی تعبیر قدرتی معلوم ہوتی ہے‘‘ (دیباچہ) (۲)’’ مذہب طبیعیات یاکیمسٹری نہیں ہے‘‘ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ دین ومذہب کو انسانی زندگی کا کوئی محضوص گوشہ خیال نہیں کرتے بلکہ وہ اسے کُل کا درجہ دیتے ہیں۔اُن کی نظر میں مذہب محض عقیدہ ہی نہیں بلکہ یہ جذبہ،فکر اور عمل کا حسین امتراج ہے۔اس کے برعکس وہ سائنس کو حقیقت مطلقہ کے صرف خارجی پہلو کے مطالعہ ومشاہدہ پر مبنی قرار دیتے ہیں جو عالم مادّی ہی کو حقیقت تسلیم کرتی ہے۔سائنس اور مذہب کے بعض اہم پہلوئوں کی مطابقت وعدم مطابقت ملاخطہ ہو: عدم مطابقت کے اُمور یہ ہیں: (الف ) سائنس عالم مادی کے خارجی اور حسّی اُمور کا مطالعہ ومشاہدہ ہے جبکہ مذہب کا زیادہ تر انحصار باطنی اور محسوسات سے ماوراء دنیاپر ہوتا ہے۔ (ب) سائنس اپنی معلومات کو حاصل کرنے کے لیے محض عقل کا سہارا لیتی ہے۔ اس کے برعکس مذہب کی زیادہ تر جذبہ عشق پر بنیاد ہوتی ہے۔ (ج) سائنس کائناتِ خارجی کے مختلف شعبہ جات تک محدود ہے،اس کے علی الرغم دین زندگی کے تمام پہلوئوں پر محیط ہوتا ہے۔ (د) سائنس مادیت کی علم بردار ہے جبکہ مذہب روحانیت کا بھی قائل ہوتا ہے۔

سائنس کائنات اور زندگی کے تمام معاملات کا احاطہ نہ کرنے کے باوجود مطالعہ وتحقیق پر زور دیتی ہے۔اس لحاظ سے مذہبی حقائق کا علمی اور سائنسی جائزہ اور بھی زیادہ اہم ہوجاتا ہے کیونکہ اس کا احاطہ اثر سائنس سے زیادہ وسیع، ہمہ گیر اور عملی نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔موجودہ زمانے میں انسان نے قدرت کی مختلف طاقتوں کو مسخر کرکے عقل کی افادیت میں اضافہ کردیا ہے۔ بنا بریں موجود ہ زمانے کا انسان مذہب کے پیش کردہ حقائق کی بھی عقلی تعبیر کا مطالبہ کرتا ہے۔علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ اس عقلی تعبیر کے مطالبے سے مذہب کو خائف ہونے کی ضرورت نہیں بشرطیکہ وہ صحیح الہامی مذہب ہو۔
  طبیعیات اور کیمسٹری کا مادی اشیا کی ترکیب وتجزیے کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے ۔ ہے۔سائنس قدرت کے گوناگوں مظاہر وصور میں معنی کی تلاش کے لیے کوشاں ہوتی ہے لیکن عالم مظاہر کے بنیادی قوانین کا رشتہ بے صورت اور نادیدنی حقائق سے ملا ہوتا ہے۔علاوہ ازیں سائنس کے دو اہم پہلوطبیعیات(Physics) اورکیمسٹری(Chemistry)باقی سائنسی علوم کی مانند علّت ومعلول پر مبنی ہوتے ہیں ۔علّت ومعلول کو جاننے کے لیے عقل کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ مذہب حقّہ کا تعلق طبیعیات یا کیمسٹری کی طرح محض خارجی،حسّی،دیدنی اور تغیر پذیر حقائق سے نہیںہوتا بلکہ مابعد الطبیعیاتی اُمور بھی اس کی حد میں آتے ہیں۔مذہب محض علّت ومعلول کی حمایت نہیں کرتا بلکہ یہ معجزات کا بھی قائل ہوتا ہے جو عقل اور علّت ومعلول کی حدود سے باہر ہوتے ہیں۔اس نقطہ نگاہ سے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مذہب لازمی طور پر کلیتہً سائنس کے اُصولوں کا پابند نہیں۔

(۳)’’ فی الحقیقت مختلف قد رتی علوم لاتعداد گِدھوں کی طرح ہیں جو فطرت کی لاش کو نوچ رہے ہیں اور ہر ایک علم اس لاش کا ایک ٹکڑا لے کر الگ ہوجاتا ہے۔اس کے برعکس مذہب کلّی حقیقت کا مطالبہ کرتا ہے۔اسے حقیقت مطلقہ کے جزوی نقطہ نگاہ یعنی سائنس سے خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ ( دوسرا خطبہ) (۴)’’ سائنس کو حقیقت مطلقہ کے مطالعہ کے لیے چند محضوص پہلوئوں کا انتخاب کرلینا چاہیے اور باقی مسائل کو چھوڑ دینا چاہیے۔سائنس کا یہ دعویٰ بالکل بے جا اور غلط ہے کہ وہ حقیقت الحقائق کے تمام پہلوئوں کو مطالعہ کے لیے منتخب کرسکتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان مکانی پہلو بھی رکھتا ہے لیکن انسانی زندگی کا یہ واحد پہلو نہیں ہے‘‘ (چوتھا خطبہ) اس امر سے کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا ہے کہ مختلف فطرتی علوم کائنات کے مختلف شعبہ جات کے مطالعہ ومشاہدہ کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے وہ کائنات، زندگی اور حقیقت کاملہ کے محدود اور جزوی نقطہ ہائے نگاہ کے حامل ہوتے ہیں۔علامہ اقبالؒ نے اس بات کو سمجھانے کے لیے ایک بہت عمدہ مثال دی ہے۔وہ فطرت کو ایک لاش اور مختلف سائنسی علوم کو اُن لاتعداد گِدھوں سے تشبیہ دیتے ہیں جو فطرت کی لاش کے مختلف ٹکڑوں کو لے کر الگ ہوگئے ہیں۔علم نباتات کا محض نباتات سے تعلق ہوتا ہے۔اسی طرح علم حیوانات کا حیوانوں کی دنیا سے رشتہ ملا ہوا ہے۔اس کے برعکس دین زندگی کے تمام شعبہ جات پر حاوی ہوتا ہے خواہ یہ شعبہ جات ظاہری ہوں یا باطنی اور مادی ہوں یا روحانی۔ دین کُل ہے اور سائنس جزو۔کُل کو اپنے جزو سے خائف ہونے کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے؟ اگر کوئی مذہب انسانوں کاخود ساختہ نہیں تو وہ سائنس اور فلسفہ کے تحقیقی اُصولوں سے خوف زدہ نہیں ہوسکتا۔فلسفہ اور سائنس کے اس تحقیقی جائزے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فلسفہ وسائنس کو دین پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔دین تو زندگی کی اجتماعیت کا نام ہے اور فلسفہ وسائنس جزویت کے ترجمان ہوتے ہیں۔علامہ اقبالؒ دین کی ہمہ گیریت،برتری اور کلیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: "White sitting in judgement on religion, philosophy cannot give religion an inferior place among its data. Religion is not a departmental affair." (The Reconstruction of Religious Thought in Islam;p.2) مندرجہ بالا بحث سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علامہ اقبالؒ سائنس کے اس دعویٰ کو بے جا اورغلط قرار دیتے ہیں۔ سائنس حقیقت مطلقہ کے تمام پہلوئوں کا بخوبی مطالعہ کرسکتی ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ سائنس کا علم یک طرفہ اور جزوی ہوتا ہے اور دین کا علم ہمہ پہلو اور کامل ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔حضرت علامہؒ اس بات کو تو مانتے ہیں کہ انسان میکانیت سے گہرا رشتہ رکھتا ہے لیکن وہ اسے زندگی کا واحد پہلو تسلیم نہیں کرتے۔ مکان(space) مادیت پر دلالت کرتا ہے۔انسان چونکہ اس مادی دنیا سے بھی تعلق رکھتا ہے اس لیے مادہ پرست اس کے روحانی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے صرف مادہ کے عناصر کا مجموعہ خیال کرتے ہیں۔علامہ اقبالؒ اس بات کو درست خیال نہیں کرتے کیونکہ وہ انسان کو مادّہ کے علاوہ روح کا بھی حامل قرار دیتے ہیں۔ عقل دنیائے رنگ وبو میں مست ہوکر نادیدنی اور مابعد الطبیعیاتی حقائق سے بے خبر ہے۔ بقول علامہ اقبالؒ:۔

نگہ اُلجھی ہوئی ہے رنگ وبو میں   خرد کھوئی ہوئی ہے چار سُو میں

(کلیات اقبال،ص۳۷۵) (۳)’’ قرآن کی ایک امتیازی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ حقیقت عالم کے خارجی پہلو کے مطالعہ ومشاہدہ پر بہت زور دیتا ہے۔اس عمیق مطالعہ ومشاہدہ کے ذریعے قرآن انسان کے اندر اس عظیم ہستی کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی مظہر یہ کائنات ہے۔قرآن نے اپنے مقلدین کے اندر یہ تجرباتی طریق کار پیدا کرکے اُنھیں جدید سائنس کا بانی بنادیا تھا‘‘ (پہلا خطبہ) علامہ اقبالؒ ان مسلم مفکرین کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے قرآنی تعلیمات کی ہمہ گیر افادیت کو بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے اور مسلمانوں کو مطالعہ کائنات کی اہمیت سے روشناس کرایا ہے۔اُن کی رائے میں قرآن حکیم ہماری تمام مادی اور روحانی ضرورتوں کی کفالت اور انفرادی واجتماعی مسائل کے حل کا مجموعہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن مجید نے ہماری روحانی تربیت،ذہنی پاکیزگی اور رفعت ِکردار پر بہت زور دیا ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے ہماری دنیوی فلاح، مادی ترقی،تسخیر کائنات اور مطالعہ فطرت کی اہمیت کو بھی بار بار اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔اسلام چونکہ زندگی کا مکمل ضابطہ خیال کیا جاتا ہے اس لیے وہ صرف ہماری اخروی نجات اور روحانی ترفع ہی کا قائل نہیں بلکہ وہ ہماری دنیوی کامرانی اور معاشرتی بہتری کا بھی علم بردار ہے۔قرآن نے بار بار ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی ہے کہ بہترین اور مثالی زندگی کا آغاز دنیوی حسنات کے حصول ہی سے عبارت ہے۔قرآنی ارشاد ہے کہ’’جو انسان اس موجودہ زندگی میں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا‘‘۔ رسول کریمؐ کا مبارک قول ہے:’’ الدُّنیا مزرِعتہ الآخرِۃ‘‘( دنیا آخرت کی کھیتی ہے )۔فصل سے فیض یاب ہونے سے قبل ہی کھیتی کو سنوارنا اور اس کی طرف خاص توجہ دینا اشدضروری ہوا کرتا ہے۔ اسی طرح آخرت میں عمدہ نتائج حاصل کرنے سے پہلے دنیا میں بہترین اعمال ضروری ہوتے ہیں۔عمل صالح صرف آخروی نجات ہی کا ضامن نہیں بلکہ یہ دنیوی فلاح کا بھی حامل ہوتا ہے۔علامہ اقبالؒ نے بجا کہا ہے کہ قرآن حکیم کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے کہ یہ حقیقت کاملہ کے خارجی مظاہر کے مطالعہ ومشاہدہ پر بہت زور دیتا ہے۔قرآن کا یہ ارشاد ملاخطہ ہو: ’’اِن فیِ خلُق اَلّسٰمٰوتِ والارضِ واُختلاف الّلیُل والّنھارِ وا لفُلک الّتیِ تجرِِی فیِ البحر ِبما ینفُع النّاس وما انزل اﷲ من الّسمآئِ مِن ماء فاحُیا بہِ الارضِ بعُد موتِھا و بّث فیھا منِ کّل دابّہ وّ تصریف الّرِ یاح وا لسّحا بِ المُسّخّر بین السّمآئِ والارضِ لاٰ یات لّقوِم یعقلون‘‘(البقرہ: ۱۶۴) (بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، رات اور دن کے بدلنے،سمندر میں لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لے کر چلنے والے جہازوں،آسمان سے خدا کے بھیجے ہوئے پانی جس سے مردہ زمین میںجان پڑتی ہے، زمین میں پھیلے ہوئے طرح طرح کے جانوروں،ہوائوں کے بدلنے اور آسمان اور زمین کے درمیان گھرے ہوئے بادلوں میں سمجھ دار لوگوں کے لیے نشانیاںموجود ہیں)۔ کائنات کے مطالعہ ومشاہدہ پر زور دینے سے قرآن حکیم کا اوّلین مقصد ہمارے دل ودماغ میں خالق کائنات کی ہستی کا احساس بیدار کرکے ہمیں اسکا مطیع بنانا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی میں اس کے قوانین کی پاس داری کریں اور اسے ہر لحاظ سے مثالی بناسکیں۔ قرآن حکیم کا کہنا ہے کہ’’خدا تعالی اوّل بھی ہے اور آخر بھی اور وہ ظاہر بھی ہے اور باطن بھی‘‘۔اس نقطہ نظر سے مادی اور خارجی دنیا حقیقت میں خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ نشانیوں کا حیرت انگیز اور حسین مجموعہ ہے۔ جب ہم اشیائے کائنات کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں قدم قدم پر خدا کی بے مثال حکمت کاملہ اور قدرت بالغہ کے نشانات دکھائی دیتے ہیں جو ہمارے اندر عظیم ذات خدا وندی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔اُس وقت ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ اسرارِ فطرت اور رموزِ کائنات ہرگز بلا مقصد اور بے کار نہیں جیسا کہ قرآن حکیم خود کہتا ہے:۔’’ افجسبُتم انّما خلقنا کُم عبثًا‘‘(پارہ۱۸، سورۃ۲۳، آیت ۱۱۵)( تو کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمھیں یونہی پیدا کیا ہے)۔ علامہ اقبالؒ بجا فرماتے ہیں کہ’’قرآن انسان کے اندر اس عظیم ہستی کا شعور بیدار کرنا چاہتا ہے جس کی مظہر یہ کائنات ہے)۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن حکیم نے مطالعہ کائنات اور مشاہد فطرت پر بار بار زور دے کر اپنے ماننے والوں کے دل ودماغ میں اس عالم ظاہری کی تسخیر اور تجرباتی طریق کار کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کائنات کے ذرّے ذرّے میں خدا کی خّلاقی صفت اور دیگر صفات حسنہ کی جلوہ گری پائی جاتی ہے۔اس بات کو مدنظر رکھ کر ہمارے اسلاف نے کائنات کے پوشیدہ اسرار ورموزِ کو بے نقاب کیا اور اپنے تجربات کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے مختلف سائنسی طریقے بھی بتائے ۔اس لحاظ سے علامہ اقبال ؒ کہتے ہیں کہ قرآن حکیم نے اپنے مقلدین کو جدید سائنس کا بانی بنادیا تھا۔ مغرب کے غیر متعصب مورخین اور مفکرین نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ مغربی سائنس کا فروغ قدیم مسلمانوں‘ خصوصاً ہسپانوی مسلم حکما کا،مرہون منت ہے۔علامہ اقبالؒ کے درج ذیل اقوال اور اشعار اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں: "---Europe took up the task of research and discovery . Intell- -ectual activity in the world of Islam practically ceased from this time and Euorpe began to reap the fruits of the labours of Muslim thinkers." (Thoughts and Reflections of Iqbal,p.104) ؎ عصر حاضر زادئہ اّیام تُست مستی اُو از مئے گلفام تُست شارحِ اسرارِ او تو بو دئہ اوّلین معمارِ او تو بودئہ (کلیات اقبال،فارسی،ص ۸۳۸)

حکمت اشیا   فرنگی  زاد  نیست        اصل   اُو جز  لذّت  ایجادنیست  

نیک اگر بینی مسلماں زادہ است ایں گہر از است ما افتادہ است

چوں  عرب  اندر  ارد پا پرکشاد        علم  و  حکمت   را  بنا   دیگر نہاد

( ایضاً،ص ۸۸۰) مسلمانوں نے تجرباتی طریق کار کے ذریعے جدید سائنس کی بنیاد ڈالی تھی مگر بعد ازاں مغربی قوموں نے اسے اختیار کرکے اس میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔اس لحاظ سے اُن کی یہ سعی قابل تقلید ہے۔اگر وہ سائنس کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ اُن کا اپنا قصور ہے نہ کہ سائنس کا۔